پاکیزہ منیر
26 جون، 2012
اسلام تقسیم دولت کی اخلاقی ہدایت ہی نہیں دیتا بلکہ قانونی حکم دیتا ہے ،سرمایہ دارانہ ،
جاگیر دارانہ اور سردارانہ سوچ اور عمل کی نفی کرتا ہے ، دولت کو راہ خدا میں خرچ کرنے
کا حکم دیتا ہے، ارتکا ز دولت کی مذمت کرتا ہے، وہ معاشرتی اور معاشی نظام جس میں
98فیصد مخلوق خدا دولت کے دیدار سے ترستے ہوں اور دو فیصد پر بن بادل دولت کی برسات
ہوتی ہو، ایسا معاشرہ اسلامی ہر گز نہیں ہوسکتا
، حکم قرآنی ہے ‘‘جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں راہ حق میں خرچ نہیں کرتے قیامت کے روز دوزخ کی آگ میں
ان کو پگھلا یا جائے گا اور ان کے جسموں کو داغا جائے گا او رکہا جائے گا یہ وہ ہے
جو تم جمع کیا کرتے تھے’’۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
‘‘اللہ تعالیٰ نے اہل دولت کے اموال پر ان کے غریب بھائیوں کی معاشی حاجت کو بدرجۂ
کفایت پورا کرنا فرض کردیاہے، پس اگر وہ بھوکے ننگے یا معاشی مصائب میں مبتلا ہوں گے محض اس بنا پر کہ اہل ثروت اپنا حق ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن اس کی باز
پرس کرے گا اور اس کوتاہی پر ان کو عذاب دے
گا’’۔
اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم لوگ تم سے پوچھتے ہیں راہ خدا میں کتنا
خرچ کیا جائے ان سے کہہ دیجئے ‘‘العفو’’ یعنی جو تمہاری ضروریات زندگی سے زیادہ
ہو، اللہ خبر دار کرتا ہے کہ ‘‘دولت تمہارے اپنے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے’’ کیو
نکہ اس ذہنی او رعملی رویہ سےدولت چند ہاتھوں
میں سکڑ کر رہ جاتی ہے اور غربت پھیلتی جاتی ہے جس سے معاشرہ بد امنی اور جرائم کی
آماجگاہ بن جاتا ہے، پاکستان میں جاگیر دارانہ نظام معاشرتی برتری کا احساس اس کے
ذمہ دار ہیں ، اسلام میں اجتماعیت ، انفرادیت پر مقدم ہے ، علامہ ابن حز م اسلام کا
یہ معاشی اصول بیان کرتے ہیں کہ ہر بستی کے
ارباب دولت کا فرض ہے کہ وہ فقراء اور غرباء کی معاشی زندگی کے کفیل ہوں اور اگر مال
نئے (بیت المال کی آمدنی ) سے ان غرباء کی معاشی کفالت پور ی نہ ہوتی تو سلطان ان
ارباب دولت کو اس کفالت کے لیے مجبور کرسکتا ہے اور ان کی زندگی کے اسباب کے لیے کم
از کم یہ انتظام ضروری ہے کہ ان کی ضروری حاجات
کے مطابق روٹی مہیا ہو پہننے کے لئے گرمی اور سردی دونوں لحاظ سے لباس فراہم ہو اور
رہنے کے لیے ایک ایسا مکان ہو جوان کو بارش ، گرمی اور سیلاب جیسے حوادث سے محفوظ رکھ
سکے ، کیونکہ اسلام میں اجتماعیت ، انفرادیت پرمقدم ہے۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے جریدے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ‘‘ زندگی سے سہولتوں سے محروم
نچلے طبقے کا احساس محرومی دورنہ کیا گیا تو
بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا ، 32فیصد پاکستانی غربت سے کم سطح پر ہیں’’۔ سونامی جب آتا ہے تو سمند ر کو ہلاکر رکھ دیتا ہے 98 فیصد
عوام کا احساس محرومی 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے کو ہلا کر رکھ سکتا ہے ، معاشی زندگی
کے بارے میں اسلام نے یہ اصولی ہدایت دی ہے کہ اسلامی معاشرہ اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ افلاس او رغربت کو مٹانے
میں اس طرح سرگرم رہیں جس طرح کفر کی ظلمتوں کو دور کرنے میں ہوں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘‘فقر انسان کو کفر کی طرف لے جاسکتا ہے ’’ اورآپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے یہ دعا فرمائی کہ ‘‘اے اللہ! مجھے
کفر اور فقر دونوں سے محفوظ رکھ ’’ ، اسلام ہر فرد میں معاشی جدوجہد کا جذبہ پیدا کرتا
ہے ، اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تمام افراد کی کفالت کا بندوبست کرلے جو
مجبور ہوں، معذور ہوں یا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود رزق سے محروم رہ گے ہوں۔
ایم کیو ایم حق پرمبنی آواز درد ہے، یہ منصفانہ تقسیم دولت کی
علمبردار ہے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی لحاظ سے ارتکا دولت کی سخت مخالف
ہے ، تکاثر انہ ذہنیت کو ملکی او رعالمی معاشی بحران کاذمہ دار سمجھتی ہے، کیونکہ التکا ثر پر یقین رکھنے والے دولت کو
سکیڑکرچند ہاتھوں میں محدود کردیتے ہیں او
رعوام الناس کی اکثریت غربت کی دلدل میں پھنس جاتی ہے اور ان گنت اور نامعلوم معاشی
مسائل آئے دن مسائل اٹھاتےرہتے ہیں او ر معاشرہ
معاشی مسائل کی بھنور میں گھر کر بڑی تباہی
لاسکتا ہے اس کا علاج ‘‘عرف قل العفو’’ میں پوشیدہ ہے ، یہی اسلامی تعلیمات متحدہ کا
مرکز و محور ہے۔
ایم کیو ایم ملک کی بقاء ، سلامتی
، ترقی، خوشحالی، عام آدمی کی فلاح و بہبود او رجمہوریت کے استحکام او راقتصادی او
رسماجی ترقی کے لیے تمام اہم شعبوں میں ٹھوس
اصلاحات سماجی برائیوں اور دیگر جرائم کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے تاکہ پاکستان کو نہ صرف
خوشحال اور مستحکم بنایا جاسکے بلکہ ملک میں
ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ قائم کر کے ملک کے عوام کو بلا امتیاز انصاف فراہم
کیا جاسکے، ایم کیو ایم جب غریبوں او رمتوسط طبقے کی ترقی اور 98 فیصد عوام کی حکومت کی بات کرتی ہے تو اس کا مقصد
یہ ہے کہ حقیقت پسندی او رعملیت پسندی کی بنیاد
پر ملک میں ایسا نظام نافذ ہو جس کے تحت ملک کے تمام طبقات خود کو محفوظ تصور کریں
اور معاشرے کے بااثر افراد سے کچھ چھینے بغیر غریب عوام کو غربت کی دلدل سے نکلنے کے
مواقع فراہم کیئے جاسکیں، ایم کیو ایم کے مقاصد قائد تحریک جناب الطاف حسین کے فلسفہ
حقیقت پسندی او رعملیت پسندی کے مطابق اتحاد اور قومی یک جہتی کا فروغ فرسودہ جاگیر دارانہ نظام ، معاشی ناہموار یوں اور ارتکا ز اختیار ات کا خاتمہ ہیں
، کیا ایم کیو ایم کے منشور میں اسلامی تعلیمات کی خوشبو رچی بسی نظر نہیں آتی ،
‘‘نظر آتی تو بیناور نہ نابینا’’بقول شاعر
آنکھ والا تیری جوبن کا تماشا
دیکھے
دیدہ کور کو کیا نظر آئے
کیا دیکھے
26 جون ، 2012 بشکریہ روز نامہ
امن ،پاکستان
URL: