New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 03:56 AM

Urdu Section ( 26 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pakistan's Peer (Religious Guru) Arrested For Raping a Girl Child to Death بچی کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل کے گھناونے جرم میں پاکستانی پیر کی گرفتاری

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

25 اگست،2023

مملکت خداداد پاکستان میں بچیوں کے ساتھ ظلم وتشد کی جتنی بھیانک خبریں آرہی ہیں وہ باہری دنیا کے لئے رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں لیکن وہ پاکستان میں اب معمول بن چکی ہیں۔ ابھی پچھلے ماہ رضوانہ نام کی ایک بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ اس کی مالکن سول جج عاصم حفیظ کی بیوی سونیا عاصم کے ظلم وتشدد کا معاملہ سامنے آیاتھا وہ ابھی لاہور کے ہسپتال میں آئی سی یو میں ہے اور اس کی پلاسٹک سرجری ہورہی ہے۔ سونیا عاصم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اب پاکستان کے صوبے سندھ کے ضلع خیر پور کے رانی پور میں پیروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے پیر اسد شاہ جیلانی کو اپنی دس سالہ خادمہ فاطمہ فریرو پر جسمانی اور بدترین جنسی تشدد کرکے ہلاک کردینے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ وہ بچی گزشتہ کئی برسوں سے پیر اسد شاہ کی حویلی میں کام کررہی تھی اس پر پیر اسد شاہ جنسی اور جسمانی تشدد کرتا تھا۔ جس دن اس کی موت ہوئی وہ پیر رات کو اس کے ساتھ تشدد کرکے اپنے بستر پر برہنہ حالت میں کمبل اوڑھ کر سورہا تھا اور بستر کے پاس فرش پر وہ بچی رات بھر درد سے تڑپتی اور کروٹیں بدلتی رہی اور بالآخر مرگئی۔ اس دلدوز واقعے کی ویڈیو نے ہر کسی کے رونگٹے کھڑے کردئیے۔ اسد شاہ کی بیوی سیدہ حنا شاہ نے صبح کو اسے اس حالت میں دیکھا اور اٹھایا اور اس کے گھر والوں کو یہ کہہ کر بلایا کہ اس کے پیٹ میں درد تھا۔ انہیں ڈرادھمکاکر معاملے کو دبا دینے پر مجبور کیا۔ اس کے والد نے بچی کی لاش کو خاموشی سے دفن کردیا۔ اس معاملے میں مقامی پولیس کے ایس ایچ او نے بھی پیر کا ساتھ دیا۔

اس ویڈیو فوٹیج کے منظرعام پر آتے ہی پولیس حرکت میں آئی اور پیر اسد شاہ جیلانی کو گرفتار کیا اور مقامی تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا۔

پولیس نے لاش کو قبر سے نکال کر پوسٹ مارٹم کروایا تو رپورٹ میں یہ حقائق سامنے آئے۔

فاطمہ کے سر کے داہنی طرف سرخی مائل نیلا چوٹ کا نشان تھا۔ اس کے جنسی عضو اور مقعد پر جنسی تشدد کے نشان تھے۔ اس کے سینے کے اوپری حصے پر 6 سینٹی میٹر کھرونچ کا نشان تھا۔ اس کے پشت کے نچلے حصے پر کھرونچ کے تین نشان تھے۔ اس کے بائیں بازو پر 40 سینٹی میٹر کھرونچ کا نشان تھا۔ لمبے عرصے سے اس کےجسم کے زخموں کا علاج نہ ہونے کے باعث اس کے اعضا سڑ گل رہے تھے۔ اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسد شاہ نے اس بچی کو وحشی جانور کی طرح نوچا کھسوٹا تھا اورمزاحمت کرنے پر اسے بے رحمی سے مارا پیٹا تھا۔

اسد شاہ کی بیوی بچی پر ہونے والے تشدد پر خاموش رہتی تھی وہ لوگ بچی کا علاج نہیں کرتے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ویڈیو فوٹیج سے اسد شاہ کی وحشیانہ ذہنیت اور شیطانی فطرت آشکار ہوتی ہے۔ وہ بچی کے ساتھ جنسی تشدد کرکے اپنے بستر پر کمبل اوڑھ کر آرام کی نیند سوگیا اور بچی خون میں لت پت زمین پر ساری رات تڑپتی اور کراہتی رہی۔

اس سب کے باوجود اس نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ اس نے فاطمہ کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ یہ سب اس کے دشمنوں اور حاسدوں کا الزام۔ہے۔ فاطمہ اس کے گھر میں ایک فیملی ممبر کی طرح رہتی تھی۔

اسد شاہ جیلانی رانی پور کا خاندانی پیر ہے اس کے مریدوں کی تعداد ہزاروں میں ہے فاطمہ کے والدین بھی اس کے مرید ہیں اورانہوں نے اپنی بیٹی کو پیر کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا کیونکہ یہ ان کے لئے فخروسعادت کی بات تھی۔

سید شاہ کے خاندان کے کئی افراد قومی اور ریاستی اسمبلیوں کے ممبر ہیں اور پی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں اس لئے یہ خاندان سیاسی طور پر بھی طاقتور ہے۔

اسد شاہ کو گرفتار تو کرلیا گیا ہے لیکن پاکستان کے کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی دوسرےمجرموں کی طرح چھوٹ جائے گاپاکستان میں خون بہا اور دہت کا قانون طاقتور مجرموں کی مدد کرتا ہے اور وہ وارثین کو خون بہا دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔

رضوانہ تشدد کیس بھی ابھی حال ہی کا واقعہ ہے اسے بھی جج عاصم حفیظ اور اس کی اہلیہ سونیاعاصم تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ اور اس کے زخموں کا علاج نہیں کرتے تھے۔نتیجے میں اس کے سر کے زخموں میں کیڑے ہوگئے تھے۔رضوانہ نے ہسپتال میں پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ سونیا اسے بلا ناغہ تشدد کا نشانہ بناتی تھی۔اسے ڈنڈے سے مرتی تھی اسے ہفتوں گھر میں بند کردیتی تھی اور اسے بھوکا رکھتی تھی۔ اس کے جسم کو گرم استری سے داغتی تھی۔ اس کے جسم پر زخم کے پندرہ نشان تھے۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے زہر بھی دیا گیا ہے۔ جب اس کے والدین اسے فون کرتے تھے تو سونیا اس کے پاس کھڑی رہتی تھی تاکہ وہ ظلم وتشدد کی بات انہیں نہ بتا دے۔ جب اس کی حالت غیر ہوگئی تو اس ظلم وتشدد کا انکشاف ہوا۔اسے سرگودھا کے ہسپتال لایا گیا پھر اسے لاہور جنرل ہسپتال منتقل کردیا گیا۔یہاں وہ وہنٹی کیٹر پر تھی۔علاج سے وہ تھوڑی بہتر ہوئی ہے اور اب وہ آئی سی یو میں ہے اور اس کی پلاسٹک سرجری ہورہی ہے۔ اس کے پھیپھڑوں میں خون بھر گیا ہے۔

سات سال قبل 2016ء میں بھی ایک دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کے ساتھ بھی سیشن جج خرم علی اور اس کی بیوی ماہین ظفر کےذریعہ بدترین ظلم وتشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ اس کے بھی پورے جسم اور چہرے پر بدترین تشدد کے نشان تھے۔دونوں نے طیبہ کے والدین کو روپئے دے کر کیس اٹھا لینے پر مجبور کیا تھا لیکن کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے دونوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا اور انہیں تین سال۔کی سزا ہوئی۔لیکن 2018 میں سپریم۔کورٹ نے ان کی سزا میں تخفیف کردی اور اب وہ رہا ہوچکے ہیں۔

یہ تین واقعات پاکستان میں گھریلو ملازماؤں کے ساتھ عمومی سلوک کاآئینہ ہیں ۔ پاکستان کے سول جج اور پیروں کی ذہنی اور اخلاقی پستی کا یہ عالم۔ہے تو تجارت پیشہ یا وڈہروں اور چودھریوں کے گھروں میں کمسن ملازماؤں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہوگا اس کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 33 لاکھ بچے مزدوری اور ملازمت کرتے ہیں اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر چار گھروں میں سے ایک گھر میں بچے کام کررہے ہیں۔ اس کی وجہ افلاس اور بیروزگاری کے ساتھ ہر کنبہ میں بچوں کی زیادہ تعداد بھی ہے۔پاکستان میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج ہے جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ بچے ہوتے ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو امیروں پیروں اور وڈیروں کے گھروں میں کام کے لئے رکھوادیتے ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کا جنسی استحصال ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بچیوں پر تشدد کرنے والوں میں 90 فی صد خواتین ہوتی ہیں۔

پاکستان میں ، خصوصاً سندھ میں پیری مریدی کا رواج بہت زیادہ ہے اور ان پیروں کے مریدین ہزاروں میں ہیں۔یہ پیر اپنے جاہل اور گنوار مریدین کا جذباتی استحصال کرتے ہیں۔اور ان کی کم سن بچیوں کو ان کے گھر پر رکھوانے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔فاطمہ کی والدہ نے پولیس کو بتایا کہ اسد شاہ نے اس ی دو اور بچیوں کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔۔ایسا لگتا ہے کہہ پیر اسد شاہ ایک جنسی بھیڑہا ہے۔چودھریوں اور زمینداروں کا بھی ایک بڑا حلقہ ہے جو غریب گھروں کے بچوں کا استحصال کرتا ہے۔۔

پاکستان میں بچوں کے تحفظ اور ان کے خلاف ہونے والے ظلم تشدد کو روکنے کے لئے مخصوص قوانین کی عدم موجودگی میں پاکستانی گھرانے بچوں کے لئے مقتل اور ایذا خانے بن چکے ہیں اس کے لئے پاکستانی حکومت اور قانون ساز اداروں کو فوری طور پر بچوں اور بچیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنی چاہئےاور پاکستانی گھروں میں کم سن ملازماؤں کے رکھنے پر پابندی اور ایسے تمام گھروں کا سروے کراکر وہاں کام۔کرنے والے بچوں اور بچیوں کی صحت اور حالت کی جانچ کو لازمی بنایا جائے۔ بین الاقوامی اداروں خصوصاً یونیسیف کو اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت کرنی چاہئے۔

بہر حال ، جس طرح کے گھرانوں سے بچوں اور بچیوں پر تشدد اور قتل کے واقعات سامنے آرہے ہیں وہ پاکستانی معاشرے کی اخلاقی پستی اور ذہنی خرابی کی غمازی کرتے ہیں۔ اس خرابی کا علاج قانونی طور پر نہیں بلکہ معاشرے میں اخلاقی اور اسلامی تعلیمات کو عام کرکے اور بچوں اور بچیوں کے سماجی حقوق کے تئیں بیداری پیدا کرکے کیا جاسکتا ہے۔

--------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/pakistan-peer-arrested-raping-child-death/d/130526

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..