New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:15 PM

Urdu Section ( 11 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why the Pakistan-Occupied Kashmir on the Streets? پاکستان مقبوضہ کشمیر سڑکوں پرکیوں

 ارشاد محمود

10 اکتوبر 2023

پاکستان مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں ایک طوفان برپا ہے۔ عوام غصے میں نہیں ہیں بلکہ انتقام پر تل چکے ہیں اور حکمران ہیں کہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ احتجاج، دھرنے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران بجلی کے بلوں، آٹے کی قلت اور اشرافیہ کی غیر معمولی مراعات کے خلاف شہریوں کے بے مثل احتجاج نے وزیراعظم چودھری انوار الحق کی کل جماعتی حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بوکھلاہٹ کا شکار حکومت بجائے عوامی مطالبات کے آگے سر جھکائے اس نے احتجاجی تحریک کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کی۔ پولیس کی مدد سے احتجاجی کیمپوں کو اکھاڑا گیا۔ درجنوں تاجر رہنماؤں، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی پریس کے مطابق احتجاجی تحریک کے سرکردہ کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور بعض مقامات پر ان کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کیا گیا۔

ردعمل میں پانچ اکتوبر کو ایک اور تاریخ ساز ہڑتال کر کے عوام نے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اس ہڑتال کی حمایت میں بار ایسوسی ایشنز اور طلبہ تنظمیوں کے کارکنوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے اکتوبر میں کئی ہڑتالوں، ایجی ٹیشنوں اور دھرنوں کا اعلان کیا ہے تاکہ حکومت کو عوامی مطالبات کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کیا جا سکے۔ حکومت نے بے قابو ہوتے ہوئے احتجاج کے سامنے بندھ باندھنے کی خاطر ایک سولہ رکنی وزراء کی کمیٹی کا اعلان کیا۔ یہ ایسے وزراء ہیں جو گزشتہ چھ ماہ کی کوششوں کے باوجود اپنی اپنی وزارت کا نوٹیفیکشن نہ کرا سکے۔ بے اختیار اور بے بس وزرا اب حکومت اور پرجوش مظاہرین کے لیڈروں کے درمیان مذاکرات کا ڈول کیسے ڈالیں گے؟

گزشتہ چھ ماہ سے جاری دھرنوں اور مظاہروں کے پس منظر میں زیادہ تر سرگرم نوجوانوں کا ہاتھ ہے۔ جس کا تعلق مختلف سیاسی تنظیموں اور نظریاتی تحریکوں سے ہے۔ یہ نوجوان رضاکار عوامی مطالبات کے نکات اور احتجاج کے نظام الاوقات کے بارے میں عوام کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نون لیگ، پی پی پی یا تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی جھوٹی سچی تعریفوں کے بجائے اب مفاد عامہ کے مسائل پر سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے۔

اگرچہ قومی میڈیا میں اس تحریک کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے کشمیریوں نے پانچ اگست، اکتیس ستمبر اور پانچ اکتوبر کو نیلم ویلی سے لے کر بھمبر تک تاریخی ہڑتالیں کر کے ثابت کیا کہ اب سیاسی تحریک روایتی میڈیا کی محتاج نہیں رہی ہیں۔ یہ ایسی موثر ہڑتالیں تھیں جن کی مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ علامتی طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی خاطر بعض مقامات پر لوگوں نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے احتجاجی دھرنا کیمپوں میں جاکر بجلی کے بلوں کو آگ لگائی۔ مظفرآباد میں لوگوں کی بڑی تعداد نے بجلی کے بل دریائے جہلم میں پھینک دیے۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے کچھ عوامی مطالبات جیسے کہ آٹے کی سبسڈی کو بحال کرنے اور مقررہ تاریخ کے بعد بجلی کے بل چارجز کو معاف کرنے کا اعلان بھی کیا تاہم یہ اقدامات عوامی غصے کو کم نہ کرسکے۔

بنیادی مسئلہ آزاد کشمیر کے صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کا ہے۔ منگلا ڈیم اور نیلم جہلم جیسے بڑے منصوبوں سمیت دیگر ہائیڈل پاور منصوبوں سے پینتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آزاد کشمیر اکثر اندھیروں میں غرق رہتا ہے۔ حالانکہ کشمیر کی کل بجلی کی کھپت 350 میگاواٹ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قائم بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی پہلے نیشنل گرڈ آف پاکستان میں پہنچائی جاتی ہے اور پھر 2.59 روپے فی یونٹ کے حساب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت سمیت مختلف تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم مقامی حکومت شہریوں کو یہ بجلی 20 سے 60 روپے فی یونٹ کے نرخوں پر فراہم کرتی ہے۔ اس طرح عام صارفین پر بے پناہ مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی ترجیحی بنیادوں پر مقبوضہ کشمیر کو بجلی فرام کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کلیدی مطالبہ یہ ہے کہ نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرنے سے پہلے مقامی شہریوں کو بجلی فراہم کی جائے۔ اس مطالبہ کو تقویت دینے کے لیے آئین پاکستان کے آرٹیکل 161، شق 2 کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ”وفاقی حکومت کی طرف سے کمایا جانے والا خالص منافع، یا وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ یا زیر انتظام کسی ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن پر بجلی کی بلک جنریشن سے حاصل ہونے والا خالص منافع اس صوبے کو ادا کیا جائے گا، جس میں ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن واقع ہے۔“ یہ آئینی شق مقامی لوگوں کے قدرتی وسائل کے استعمال کے بنیادی حق کو تسلیم کرتی ہے۔

اس تناظر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے واپڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے اندر قائم ہائیڈل پراجیکٹس سے پیداواری لاگت پر مقامی صارفین کو بجلی فراہم کرے۔ اور مقبوضہ کشمیر کو لوڈ شیڈنگ سے پاک زون قرار دیا جائے۔ ان مطالبات کے علاوہ، مظفرآباد اور میرپور کے شہریوں کو واپڈا اور آزاد کشمیر کی حکومت دونوں سے متعدد شکایات ہیں۔ نیلم، جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ، ایک رن آف دی ریور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ ہے۔ بدقسمتی سے مظفرآباد پر اس کے منفی ماحولیاتی اثرات کے تدارک کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس غفلت یا بدنیتی کے نتیجے میں نواحی دیہاتیوں کی ایک بڑی تعداد کو میٹھے پانی کے خشک ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ علاوہ ازیں مظفرآباد کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ وعدوں اور معاہدوں کے باوجود میرپور شہر کو اسلام گڑھ سے ملانے والا، منگلا ڈیم کے ریزر وائر چینل پر تعمیر ہونے والا تقریباً 5 کلومیٹر طویل راٹھوہ ہریام پل ہنوز نامکمل ہے۔ میرپور شہر منگلا ڈیم جھیل کے کنارے آباد ہونے کے باوجود پینے اور آبپاشی کے پانی کے لیے ترس رہا ہے۔ ان غیر حل شدہ مسائل نے مقامی آبادی کے عدم اطمینان اور شکایات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ غصہ نکالنے کا موقع اب عوام کو ملا ہے جو انہوں نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کی قیادت سیاستدان یا کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ عام شہری کر رہے ہیں۔ زیادہ تر منتخب نمائندوں نے عوامی غم و غصے سے خود کو دور رکھا ہے۔ مبادا مقتدر قوتوں کی نگاہ میں ان کی فائل پر کاٹا نہ لگ جائے۔ وہ عوام کی شکایات کو زبان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ سے عوام سڑکوں پر ہیں اور لیڈر اپنی کمین گاؤں میں چھپے مناسب وقت انتظار کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کی قربانیاں کا سودا لگا سکیں۔ اور اپنے لیے مزید مفادات سمیٹ سکیں۔ اس خلا کو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور پرجوش رہنماؤں نے پورا کیا ہے۔ مزید برآں، تقریباً 3000 منتخب بلدیاتی کونسلرز احتجاجی تحریک کو ضروری اخلاقی اور سیاسی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی کے مٹھی بھر اراکین کو چھوڑ کر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، بشمول پیپلز پارٹی، پی ایم ایل، اور پی ٹی آئی کے منحرفین ارکان نے خود کو وزیر اعظم انوار الحق کی غیر مقبول حکومت کی جھولی میں ڈال رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کر کے جس طرح پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو توڑ کر یہ حکومت بنائی گئی اس نے سیاست کو بے قار اور سیاستدانوں کے اخلاقی وجود کو پاش پاش کر دیا ہے۔

پہلی بار مقبوضہ کشمیر کے عوام موجودہ حکومت اور بیوروکریسی کے بحری بیڑے کی افادیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مظاہرین کا ایک بڑا مطالبہ عوامی سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی اور ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا ہے۔ وزراء اور سرکاری اہلکاروں کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ سلطنت برونائی ہے۔ حکومت کے بجٹ کا تقریباً 85 فیصد سرکاری اخراجات کے لیے وقف ہے جب کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ریاست گیر احتجاج شروع دن سے ہی پرامن رہا ہے تاہم وزیراعظم چودھری انوارالحق کے طرز عمل سے یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر گرفتاریاں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ خطہ کسی بڑے تصادم کی نذر ہو جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے احتجاج کو کچلنے کے لیے وفاقی حکومت سے رینجرز اور ایف سی کے اضافی دستوں کی درخواست کی ہے۔ وفاقی فورسز کو مقامی لوگوں سے لڑانے کا خیال تباہ کن ہے۔

لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے بجلی کے نرخ کم کرنے، گورننس کو بہتر بنانے، سرکاری ملازمین کی تعداد کم کرنے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی جیسے اقدامات سے موجودہ احتجاج کو ٹھنڈا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مقامی سطح پر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر کب تک مقبوضہ کشمیر کے نوجوان یونان کے سمندر میں کشتیاں الٹنے سے جاں بحق ہوتے رہیں گے۔

10 اکتوبر 2023، بشکریہ: چٹان، سری نگر

---------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/pakistan-occupied-kashmir-streets/d/130875

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..