پیغمبر نوگانوی
21مارچ، 2017
یہ دھمکی آمیز جملہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا ، کروں بھی کس طرح، آخر ایک مسلمان کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ۔۔۔14فروری 2017الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مجھے یوپی اسمبلی الیکشن 2017میں امروہہ اسمبلی حلقہ کے گاؤں ’’پتئی خالصہ‘‘ میں پریزائڈنگ آفیسر (Presiding Officer) کی ذمہ داری دے کر بھیجا، الیکشن 15فروری2017میں ہونا تھا لیکن ہمیں ایک روز قبل ہی روانہ کردیا گیا تاکہ پولینگ اسٹیشن کا جائزہ لے کر انتظامات مکمل کئے جاسکیں ،لہٰذا مجھے رات اپنی ٹیم کے ساتھ پولنگ اسٹیشن میں ہی گزارنی تھی۔۔۔ پولنگ اسٹیشن کے تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد مغربین کی نماز ادا کرنے میں گاؤں کی مسجد چلا گیا ، جب نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک شخص نے اپنے پاس بلایا جو حلیہ سے مسجد کا امام جماعت معلوم ہورہا تھا او ریہ شخص مسجد کے صحن میں چند دیگر افراد سے گفتگو تھا، اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے جواب دیا : نوگانواں سادات سے ۔۔۔ مذکورہ شخص نے کہا کہ : ’’ یہ مسجد اہل سنت والجماعت اعلیٰ حضرت بریلوی مسلک کی ہے، اس میں دوسرے مسلمانوں کا آنا منع ہے ، آپ سے اس لئے بتادیا ہے تاکہ بعد میں یہ نہ کہیں کی میری بے عزتی کردی، اس مسجد میں نہ آئیے گا ‘‘ ایک مسجد کے امام سے یہ جملے سن کر مجھے بے حد تکلیف ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ مسلمان ان اصولوں سے کس حد تک دورہوچکا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے وضع فرمائے تھے اور یہ لوگ دشمنان اسلام کے پروگرام کو کتنے انہماک سے آگے بڑھا رہے ہیں ، لیکن اس قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو علم حاصل نہیں کرتے اور سادہ لوح عوام کو بہکانے کے لئے پڑھے لکھے جیسی وضع قطع بنا لیتے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچا تے ہیں ۔
بہر حال میں خاموشی سے چلا آیا، میں مسجد کے امام صاحب کو لاجواب کرسکتا تھا لیکن میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پر امن اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کی سخت تاکید تھی اس لئے الیکشن کی رات میں ، میں کسی بھی قسم کا رِسک لینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہ پولنگ اسٹیشن بہت زیادہ حساس تھا،دوسرے یہ کہ امام صاحب جاہل تھے، جاہل یعنی ان پڑھ نہیں تھے بلکہ ضدی او رہٹ دھرمی معلوم ہورہے تھے، انہیں تاریخ اسلام سے بھی واقفیت نہیں تھی، قرآن و حدیث بھی انہوں نے صرف رَٹ لئے تھے ان کے مطابق میں غور وفکر نہیں کیا تھا، یہ حج کے فلسفہ اور جماعت کی حکمت سے بھی آشنا نہیں تھے اور مسلمانوں کی سیاسی ابتری او رمشکلات سے بھی انا بلد تھے، لہٰذا اگر میں ان سے اس موضوع پر گفتگو کرتاتو یہ قبول نہ کرتے بلکہ میرے دشمن ہوجاتے اور رخنہ اندازی کر دیتے ۔۔۔ اگر امام جماعت صاحب کو تاریخ اسلام سے واقف ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ میں منافقین ،رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو طرح طرح کے آزار پہنچاتے تھے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے منافقین کو کبھی مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان کے مخالفین بھی مسجد میں آتے تھے لیکن ان تینوں نے بھی اپنے مخالفین کو کبھی مسجد میں آنے سے نہیں روکا اور نہ ہی مسجد سے کسی کو بھگایا ۔
اسی طرح حضرت امیر المومنین امام علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں نماز پڑھاتے تھے، آپ کے بدترین دشمن ’’ خوارج‘‘ سے ’’ ابن کوّا‘‘ نام کا شخص جماعت کے دوران نماز میں خلل ڈالتا تھا لیکن اس کے باوجود امام عالی علیہ السلام نے اسے مسجد سے نہیں بھگایا او رنہ ہی مسجد میں آنے سے روکا ۔۔۔ بنی امیہ اور بنی عباس جو اپنے مخالفین سے شدّت کے لئے مشہور ہیں لیکن کبھی انہوں نے بھی اپنے مخالفین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا او رنہ ہی مسجد سے بھگا یا ۔۔۔عصر حاضر میں آل سعود ! جو اپنے علاوہ کسی کو مسلمان بھی نہیں سمجھتے لیکن مسجد الحرام او رمسجد نبوی سے غیر وہابی مسلمانوں کو کبھی نہیں بھگاتے او رنہ ہی ان مساجد میں آنے سے روکتے ہیں تو پھر یہ مذکورہ مسجد کے امام صاحب یا دیگر مساجد کے امام یا ذمہ داران اپنی مسجدوں میں اپنے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کو کیوں نہیں آنے دیتے اور اگر کوئی چلا جاتا ہے تو اسے بھگاتے کیوں ہیں، یہ کس کی سیرت پر عمل کرتے ہیں؟ اگر مذکورہ مسجد کے امام صاحب نے قرآن و حدیث کامطالعہ کیا ہوتا تو ان کے پیش نظر وہ آیات و روایات ضرور ہوتیں جن میں مسلمانوں کو آپسی اتفاق واتحاد کی دعوت دی گئی ہے۔۔ میرا چیلنج ہے کہ مسجدوں سے مسلمانوں کوبھگانے والے کوئی ایک آیت یا ضعیف سے ضعیف کوئی روایت ایسی پیش کردیں جس میں کسی مسلمان کو مسجد سے بھگانے کو کہا گیا ہو، یہ کہاں سے پیش کریں گے ؟ یہ فرقہ بندیاں او رجہالت تو بعد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) وجودمیں آئی ہیں جو بدعت اکبر ہے۔۔۔ اسلام نے ہر موقع پر مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے چاہے محلّہ کی مسجد میں روزانہ نماز جماعت ہو، یا شہر کی جامع مسجد میں ہر ہفتہ نمازجمعہ ہو یا سالانہ عیدین کا اجتماع ہو یا پوری عمر میں ایک مرتبہ حج کا اجتماع ہو، کاش! ایسے لوگ جو مسجدوں سے مسلمانوں کوبھگاتے ہیں وہ مذکورہ اجتماعات کے فلسفہ سے آگاہ ہوجاتے تو شاید وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔۔۔ میں اس گاؤں میں پردیسی مہمان کی حیثیت سے تھا کسی مسجد کے امام صاحب نے نہ میری خیرت دریافت کی او رنہ یہ معلوم کیا کہ قیام کہاں ہے؟ اور نہ طعام کے بارے میں دریافت کرنے کی زحمت کی، اس کے برخلاف اتنی بڑھی دھمکی دے ڈالی جو ایک مسلمان سے بعید ہے،نماز قصر کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ جب مسلمان مسجد میں کسی کو نماز قصر پڑھتے دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ یہ مسافر ہے اور پھر اس کے ساتھ مسافروں جیسا سلوک کیا جائے جس کی اسلام نے بہت تاکید فرمائی ہے۔
مساجد کی تعمیر او ران میں نماز پڑھنے کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوجائیں ورنہ نماز تو گھر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے ، اب جو لوگ مساجد سے مسلمانوں کوبھگاتے ہیں وہ مساجد کی تعمیر کے فلسفہ ہی سے نابلد ہیں ۔ مسجد نہ شیعہ ہوتی ہے نہ سنّی ، نہ بریلوی ہوتی ہے او رنہ دیوبندی ، مساجد کی ایسی تقسیم بڑی بدعت ہے، اگر مذکورہ مسجد کے امام صاحب نے فقہ کی تعلیم بھی حاصل کی ہوتی توانہیں معلوم ہوجاتا کہ جو انسان تنہا مسجد تعمیر کراتا ہے اسے بھی یہ اختیار نہیں ہوتا کہ کسی کو نماز پڑھنے سے روک سکے تو پھر چندے سے تعمیر کی گئی مسجد سے کوئی شخص کسی مسلمان کو کس طرح بھگا سکتا ہے؟
21مارچ، 2017 بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/this-masjid-that-ahl-e/d/110478
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism