سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
18 اگست 2022
موجودہ دور میں تانیثیت پوری
دنیا میں ایک منقول نظریہ بن چکی ہے جس نے دنیا بھر میں سیاست، سماج، ادب، لسانیات
اور فنون لطیفہ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ زمانہ قدیم سے عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز،
عدم مساوات، نا انصافی اور ان پر یک طرفہ اخلاقی اور مذہبی اقدار تھوپنے کے نام پر
ظلم کے خلاف 18ویں صدی سے ہی حقوق نسواں کی تحریک مغرب میں شروع ہوچکی تھی جو رفتہ
رفتہ ایک نظریہ اور تحریک کی شکل میں پوری دنیا میں پھیل گئی اور اس نظرئیے اور تحریک
کو تانیثیت کا نام دیا گیا۔جنڈر اینڈ ریلیجن انسائیکلو پیڈیا آف سوشیالوجی میں تانیثیت
کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔۔
۔" ایک ایسی تحریک جو عورت اور مرد کے درمیان سماجی, سیاسی اور
اقتصادی برابری قائم کرے اور عورت اور مرد کے رشتے کی خامیوں کو دور کرے۔۔"۔
A vindication of the
rights of women میری وولسٹون کرافٹ کی کتاب تھی جو 1792 میں منظرعام پر آئی۔ اس کتاب نے
مغرب میں تانیثیت کی تحریک کی شروعات کی۔ اس کےبعد انگریزی کی مشہور ناول نگار ورجینیا
وولف نے 1929 میں خود کا ایک کمرہ نامی کتاب لکھی جس میں عورتوں کو سماج میں شخصی آزادی
اور خودمختاری کی وکالت کی۔سیمون دی بوار نے جنس ثانی نامی کتاب لکھ کر اس تحریک کو
فروغ دیا۔ اسی زمانے میں انگلینڈ میں عورتوں کو ووٹ دینے کے حق کی تحریک چلائی گئی۔
اور رفتہ رفتہ یہ تحریک عملی اور نظریاتی سطح پر پوری دنیا میں پھیل گئی۔
مغرب سے اٹھنے والی اس تحریک
نے مشرق کو بھی متاثر کیا اور یہاں بھی عورتوں کی آزادی، اس کے مساوی حقوق دینے کی
وکالت کی جانے لگی اور ان کے خلاف برتے جانے والے صنفی امتیاز کو ختم کرنے کی تحریک
چلائی جانے لگی۔
مغرب سے اٹھنے والی اس تحریک
نے مشرق میں بھی مقبولیت حاصل کی کیونکہ دونوں خطوں کے انسانوں میں فکری اور تہذیبی
بعد ہونے کے باوجود عورتیں دونوں جگہ معتوب اور مظلوم تھیں۔ دونوں خطوں کی عورتوں کے
ساتھ مسائل کم و بیش ایک جیسے تھے۔ عورتوں کو جسم فروشی کے لئے یہاں بھی مجبور کیاجاتا
تھا وہاں بھی۔ غلام اور لونڈی بنا کر یہاں بھی رکھا جاتا تھا وہاں بھی۔ کمسنی کی شادی
مغرب میں بھی رائج تھی مشرق میں بھی۔ یہی وجہ تھی کہ تانیثیت نے مشرق اور مغرب کی عورتوں
کو ایک مشترکہ کاز اور مقصد زندگی عطا کیا اور انہیں اپنی شخصی صلاحیتوں کو بروئے کار
لاکر انہیں سماج کی ترقی میں ایک قابل ذکر اور قابل فخر کردار ادا کرنے کا حوصلہ بخشا۔
لیکن اس سب کے باوجود مغرب
اور مشرق میں تانیثیت کے تئیں روئیے میں فرق دیکھا گیا۔ تانیثیت کے تئیں جو جوش اور
انسلاک مغرب میں دیکھا گیا وہ مشرق میں نہیں تھا۔ حقوق نسواں کی تحریکیں جن میں خواتین
کے کچھ سیاسی اور تعلیمی حقوق کی ہی بات کی جاتی تھی وہ بھی سماج کے ایک قدامت پرست
طبقے کی طبیعت پر گراں گزرتی تھیں۔ اس کی وجہ تہذیبی وثقافتی بھی تھی اور مذہبی بھی۔
مشرق کا جاگیردارانہ نظام عورتوں کو سماج میں مساوی مقام دینے کے خلاف تھا۔ لہذا, مشرق
میں تانیثیت اسی طرح قبول کی گئی جس طرح مغربی ادبی تحریکیں مشرق میں بطور فیشن مقبول
ہوئیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کچھ مشرقی خواتین دانشوروں نے بھی تانیثیت کو اہمیت
نہیں دی۔ مشہور اردو فکشن نگار قرةالعین حیدر ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ
وہ ادب میں لیڈیز کمپارٹمنٹ کی قائل نہیں تھیں۔ لیکن ان کے بیان کا تانیثیت موافق مفہوم
بھی نکالا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ خواتین کو اتنی ہی باصلاحیت سمجھتی ہیں جتنا مردوں
کو۔ ان کا یقین ہے کہ خواتین زندگی کہ ہر شعبے اور ہر محاذ پر اپنی خداداد صلاحیتوں
کے بل پر اپنا مقام خود بنا سکتی ہیں۔ انہیں ریزرویشن اور کوٹے کی ضرورت نہیں۔ انہیں
صرف دوڑ میں شامل ہونے کی آزادی دی جائے۔
جب مشرقی خواتین دانشور تانیثیت
کی تحریک کو مشرق کے لئے غیر ضروری سمجھتی ہیں تو اس کا ایک تاریخی اور تہذیبی پس منظر
ہے۔ مشرق میں بھلے ہی آج خواتین کو جنس ثانی یعنی سیکنڈ سیکس بنا دیا گیا ہے مگر ازمنہء
قدیم میں مشرقی عورتیں آزادی اور مساوات کی فضا میں سانس لیتی تھیں ۔انہیں معاشرے میں
بلند مقام حاصل تھا اور ان کے اندر تانیثی حسیت موجود تھی۔ میری وولسٹون کرافٹ نے تو
18 صدی میں عورت کے لئے خود کے ایک کمرے کا تصور پیش کیا جہاں اس کے پاس لکھنے کی آزادی
ہو مگر 5ویں صدی ق۔م۔ میں گوتم بدھ کے زمانے میں عورتیں مردوں کے ساتھ سنگھ میں شامل
ہوکر روحانی اور مذہبی شاعری تخلیق کررہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے پاس خود کا ایک
کمرہ تھا۔ گوتم بدھ کی سوتیلی ماں پرجاپتی گوتمی, ان سینکڑوں بودھ بھکشونیوں میں شامل
تھیں جنہوں نے مذہبی نظمیں لکھیں جو تھیری گاتھا کے نام سے بودھ مذہبی صحیفوں تری پیٹک
میں شامل ہیں۔ ان ہی میں ایک طوائف امبا پالی بھی تھی جو بعد میں تائب ہو کر بودھ مذہب
میں داخل ہو گئی تھی۔ شائد دنیا کے کسی مذہبی صحیفے میں کسی طوئف کی شاعری کو شامل
کئے جانے کی نظیر نہیں ہے۔ میرا بائی نے 15 ویں صدی میں بھکتی شاعری کا وہ معیار قائم
کیا جو آج بھی قابل تقلید ہے اور مشرق کے لوک کلچر کا ناقابل فراموش ورثہ ہے۔
پگ گھمگھرو باندھ میرا ناچی
تھی
پایو جی میں نے رام رتن دھن
پایو
وغیرہ درجنوں گیت آج مشرق
خصوصاً غیر منقسم ہندوستان کے لوک کلچر کا حصہ بن چکے ہیں اور خواتین کی اعلی تخلیقی
صلاحیتوں کا زندہ ثبوت ہیں۔ خواتین نے برصغیر کی سیاسی تاریخ میں بھی گہرے نقوش چھوڑے
ہیں۔ جھانسی کی رانی، بیگم حضرت محل، رضیہ سلطانہ، و دیگر خواتین ہندوستانی فوک لور
کا حصہ بن چکی ہیں۔ مشرق میں وومین ہوڈ کو تو اتنا بلند درجہ حاصل ہے کہ انہیں دیوی
کا درجہ حاصل ہے۔ اور یہ عزت و مرتبہ ما بعد اسلام بھی اس کے اجتماعی شعور میں بسا
رہ گیا تھا ۔ مشرق کی عورتوں کی تانیثی حسیت کا اظہار حضرت ام سلمہ رض کی اس شکایت
میں ہوا تھا کہ قرآن میں تو صرف مردوں سے ہی تخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد قرآن میں
عورتوں کو خطاب کرکے کئی آیتیں نازل ہوئیں۔ اسلام کے ذریعہ سے مشرق میں تانیثیت کی
تحریک شروع ہوئی اگرچہ اس وقت تک تانیثیت کی اصطلاح وجود میں نہیں آئی تھی۔ اسلام نے
ہی دختر کشی کے چلن کو ختم کیا، کثرت ازواج پر قدغن لگایا جو خواتین کے ساتھ ظلم و
ناانصافی کا ایک آلہ تھا۔ لونڈیوں کی شادی کی حوصلہ افزائی کرکے ان کی بازآبادکاری
کی تحریک کی شروعات کی۔ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ یہ ساری تحریکیں جو
آج تانیثیت کے زمرے میں آتی ہیں ہند اور عرب میں 5ویں صدی ق۔م۔ سے 7ویں صدی عیسوی کے
دوران شروع کی گئیں۔ شائد یہ وجہ ہے کہ مشرق میں تانیثیت بحیثیت ایک تحریک بہت زیادہ
مقبول نہیں ہوسکی
تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مشرق
میں تانیثیت کی روایت اتنی قدیم ہونے کے باوجود آج یہاں عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز،
جنسی جرائم، عدم مساوات اور تعلیمی پسماندگی کیوں ہے اور کیا اس کے لئے مشرق میں تانیثیت
کی تحریک آج اتنی ہی ضروری نہیں ہے جتنی مغرب میں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ تانیثیت کی
تحریک آج کے مشرقی سماجی و سیاسی تناظر میں مشرق میں بھی ضروری ہے مگر مغربی اور مشرقی
تانیثیت میں کچھ نظریاتی فرق ہے ۔مغرب میں تانیثیت عورتوں کے حقوق کے حصول کے لئے ہے
جبکہ مشرق میں تانیثیت عورتوں کے حقوق کی بازیافت کی تحریک ہے۔ مشرق میں عورتوں کو
حقوق قدیم زمانے ہی سے حاصل تھے ان حقوق کو مذہبی متون کی مرد اساس تشریح و تعبیر کی
بنا پر سلب کر لیا گیا۔ نیز مغربی کی اخلاقیات اور مشرقی اخلاقیات میں مشرق کی مذہبی
اقدار ایک حد فاصل ہیں۔ اس لئے مشرقی تانیثیت ہم جنس پرستی کی تائید نہیں کرسکتی جو
کہ مغرب کی سیکولر تانیثیت کے نزدیک شخصی آزادی کے زمرے میں آتی ہے۔ مغرب میں تانیثی
تحریک کے تحت کلب کلچر کو فروغ ہوا جبکہ مشرق میں تہواروں اور مذہبی و ثقافتی تقریبات
میں عورتوں کی شرکت تقریبات کا لازمی جز ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں ہندوستان میں رقص
کی مختلف اقسام وجود میں آئیں ۔لہذا مشرق میں مذہب نے عورتوں کو ان کے فطری حسن و جمال
اور جمالیاتی جبلتوں کو دبایا کچلا نہیں بلکہ انہیں ابھرنے کا موقع دیا اور اس طرح
سماج میں ثقافتی و تہزیبی تنوع کو فروغ دیا۔
بیسیویں صدی سے مغرب میں نسوانی
برہنگی کوبھی شخصی آزادی کے زمرے میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ ایسا دراصل مغرب کے صارفی
کلچر کو فروغ دینے کیلئے کیا گیا ۔ دراصل تانیثت کو عورتوں کے اقتصادی استحصال کے آلہ
کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ عورت کے حسن وجمال کے اقتصادی استحصال کی تائید مشرقی
تانیثیت نہیں کرتی۔ مشرقی مذہب اور فنون لطیفہ میں عورت کے فطری جسمانی حسن کو درجہء
تقدیس حاصل ہے اس لئے مغرب کی بے مقصد ہیجان خیز نسوانی عریانی و برہنگی مشرقی تانیثیت
کا موضوع و نصب العین نہیں ہوسکتی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism