مولانا ندیم الواجدی
اسلام میں چار بنیادی عبادتیں ہیں نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج ۔ دیکھا جائے تو روزے کے علاوہ تمام عبادتیں اجتماعی ہیں اورزیادہ گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو روزہ بھی ایک طرح سے اجتماعیت کا مظہر ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ نماز حقیقی طور پر اسی وقت ادا ہوتی ہے جب وہ جماعت کے ساتھ پڑھی جائے، پھر جماعت میں جمعہ کے وقت تخّطی رقاب سے ممانعت ، جماعت میں رکعت فوت ہونے کے خوف سے بھاگنے سے روکنا، مساجد میں جھگڑوں اور دنیاوی باتوں سے پرہیز کا حکم یہ سب امور سماجی تحفظ کے دائرے میں آتے ہیں ،اسی طرح حج کی عبادت ہے جس میں رفث ،فسوق اور جدال سے منع کیا گیا ہے، یہ تمام تعلیمات انسان کو ہر قدم پر یہ احساس دلاتی ہیں کہ دوسروں جو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ، بلکہ عبادت گزار کو چاہئے کہ وہ دوسروں کا خیال رکھے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ر وزہ اگرچہ انفرادی عبادت ہے مگر رمضان المبارک میں خیرات وصدقات کی ترغیب وتحریص اور زیادتی اجر وثواب کا وعدہ اس لیے کیا گیا کہ اس عبادت کا نفع متعدی ہو اور دوسرے بھی اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں حالت مرض میں یا کسی دوسرے عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے حکم ہے کہ وہ حتی المقدور روزہ داروں کا ساتھ دیں اور اپنے کسی عمل سے روزہ داروں کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ ان کے سامنے کھانے پینے سے باز رہیں اعتکاف کرنے والوں کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ خود عبادت گزار کے اندر اجتماعی شعور پیدا کرتی ہیں ، اس لیے ہم بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اسلامی عبادات ان کے آداب واحکام کی رعایتوں سے ساتھ کرتا ہو وہ سماجی تحفظ کا ذریعہ بنتا ہے۔
زکوٰۃ کی عبادت بھی سماجی تحفظ کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس تحفظ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اسلام نے زکوٰۃ وخیرات وصدقات دینے والوں کو یہ تلقین کی ہے کہ وہ اس طرح خرچ کریں کہ دایاں ہاتھ دے تو بائیں کو خبر نہ ہو، یہ اخفا ئے عبادت کی ایک لطیف تعبیر ہے، جس کامنشا یہ ہے کہ دینے والا ریاکاری سےمحفوظ رہے اور لینے والے کو خود داری اور عزت نفس پر ضرب نہ پڑے ۔ اسی طرح یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر رشتہ دار ضرورت مندومحتاج ہوں تو ان کو صدقہ وخیرات میں ترجیح دی جائے ، ایک طرف تو اس میں صلہ رحمی کرنے کی تلقین وتعلیم ہے دوسری طرف یہ تنبیہ بھی ہے کہ غریب رشتہ داروں کی نگہداشت امیر، رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے، تیسری جانب اس میں خاندان کو مستحکم وبرقرار رکھنے کا اقدام بھی ہے اور یہ سب چیزیں سماجی تحفظ کے دائرے میں آتی ہیں۔ مصارف زکوٰۃ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ زکوٰۃ درحقیقت مسلمانوں کی معاشی تنگی، اقتصادی بدحالی اور معاشی مسائل کے خاتمے کے لئے فرض ہوئی ہے، قرآن کریم میں ان مصارف کا ذکر اس آیت کریمہ میں چلتا ہے:۔(سورۂ توبہ:آیت :60)
زکوٰۃ کے آٹھ مصرف ہیں، فقرا جن کے پاس کچھ نہ ہو، مساکین جن کو ضرورت کے مطابق رزق میسر نہ ہو، مگر صاحب نصاب نہ ہوں، عاملین جو مسلمان بادشاہ کی طرف سے صدقات وغیرہ وصول کرنے پر مامور ہوں ، مؤلقۃ القلوب جن کے اسلام لانے کی امید ہو، یا اسلام میں کمزور ہوں، اکثر علما کرام کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ مدباقی نہیں رہی، رقاب قیدیوں کو فدیہ دے کر آزاد کرانا ، غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا یا غلاموں کو بدل کتابت ادا کر کے آزادی دلانا ، غار مین مقروض کا قرض ادا کرنا یا جو شخص کسی ضمانت میں پھنس گیا ہو اس کی زرضمانت ادا کردینا ۔ فی سبیل اللہ جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کرنا، ابن سبیل مسافر جو حالت سفر میں پیسے سے محروم ہو خواہ وہ اپنے گھر میں صاحب نصاب دولت مند ہی کیوں نہ ہو، احناف کے یہاں تملیک (مالک بنادینا) ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے۔
ان تمام مصارف سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زکوٰۃ کا وجوب غریبوں اور مسکینوں کی غربت اور مسکنت کے خاتمے کے لئے ہے، معاشرے سے غلامی کے انسداد کے لئے ہے، دین کے کاموں میں لگے ہوئے لوگوں کے لیے ہے،مسافروں کی مددکے لئے ہے، ان تمام مصارف کا تعلق اسلامی معاشرے سے ہے،مسلم سماج سے ہےظاہر ہے زکوٰۃ کے ذریعے ان کے مسائل حل ہوتے ہیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ، اس طرح اسلامی معاشرے کو تحفظ ملتا ہے ،مسلم سماج محفوظ ہوتا ہے۔ زکوٰۃ اگرچہ ایک فرد کی عبادت ہے، اور انفرادی طور پر ادا کرنے سے ادا ہوجاتی ہے ، مگر درحقیقت یہ ایک اجتماعی عبادت بھی ہے جس کی نگرانی اور انتظام حکومت اسلامیہ کے ذمے ہے، حکومت کچھ منتخب لوگوں کے ذریعے نگرانی کے فرائض انجام دے گی ایسے لوگوں کو قرآنی اصطلاح میں العاملین علیہا کہا گیا ہے، یہ لفظ خود بتلا رہا ہے کہ عاملین حکومت اس کو وصول کریں اور بیت المال کے ذریعے اس کی تقسیم ہو ،قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے آپ ان کو پاک وصاف کردیں گے۔(سورۂ توبہ:آیت 103)
اس آیت میں ولی امر کو صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اس امر پر ولالت کرتا ہے کہ زکوٰۃ دراصل بیت المال کے ذریعے وصول اور تقسیم ہو، مانعین زکوٰۃ کے خلاف خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر الصدیقؓ کا اقدام جہاد بھی اس موقف کے لئے مؤید ہے ، اگر زکوٰۃ میں اجتماعیت کاپہلو ملحوظ نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر الصدیق یہ سخت موقف اختیار نہ فرماتے ، مگر ہندوستان کی صورت حال جداگانہ ہے یہاں اسلامی بیت المال نہیں ہیں اور نہ اسلامی حکومتیں ہیں جو بیت المال کی کارکردگی کی نگرانی کرسکیں ، اس صورت میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم میں مزید خرابیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ آج ہندوستان میں کروڑوں اور اربو ں روپے کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے، اس رقم سے ہزاروں مدارس اور رفاہی ادارے چل رہے ہیں، ہم یہ مانتے ہیں کہ کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ کے استعمال میں بہت سے مواقع پر اور سے مقامات میں شرعی احکام کی پابندی نہیں ہوپاتی، بہت سی بے اعتدالیاں ہیں جو ہمارے اداروں میں پائی گئی ہیں،ان کے تدارک کے سلسلے میں سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے ،آج مختلف شہروں میں اس طرح کے ادارے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو بیت المال کے طرز پر زکوٰۃ جمع کریں اور انہیں تقسیم کریں، یہ کوشش صحیح ہوسکتی ہے ،بشرطیکہ مخلص اور ہمدرد لوگ آگے بڑھیں اور مصارف تک نہیں پہنچائی جائے گی ادا نہیں ہوگی، اسلامی حکومت کے زیر نگرانی قائم ہونے والے بیت المال کی نوعیت دوسری تھی وہاں عاملین علیہا فقرا کے وکیل تھے اور ان تک مال پہنچنے کے بعد زکوٰۃ ادا ہوجاتی تھی، جب کہ آج کے محصلین اپنے اداروں کے وکیل ہوتے ہیں اور ان کی وصول یابی سے زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک وہ مصرف میں خرچ نہ کردی جائے ، جو ادارے اس کام میں لگے ہیں وہ تمام فقہی باریکیوں پر نظر رکھ کر اقدام کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم سے پہلے ملت کو منظم کرنے کی ضرورت ہےورنہ ہر کوشش رائیگا جائے گی۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/organize-community-collective-discipline-zakat/d/1711