New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 01:07 PM

Urdu Section ( 9 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Operation Sindoor: Opposition's Accusations Contradict Reality آپریشن سندور: مخالفت کا الزام حقیقت کے برعکس

سید خلیق احمد

5 جون،2025

ملک کے رہنماؤں کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کااثر عوامی ذہن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسی لئے قائد کو نپے تلے انداز میں سچائی پر مبنی بیان دینا چاہیے۔ اگر ان کے بیان سے شکوک وشبہات پیدا ہو ں یا ان کے الفاظ کسی فرد یا برادری کے وقار کو مجروح کرنے والے ہوں تو ایسے بیان سے گریز کرنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے چند برسو ں میں ہمارے ملک کا سیاسی مزاج بدل گیاہے اور سیاسی قائدین اقتدار کے ہوس میں بسا اوقات ایسے بیانات دے دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔اس کی ایک واضح مثال وزیرداخلہ امت شاہ کا حالیہ ایک بیان ہے۔ یہ بیان انہوں نے کولکتہ میں ایک ریلی کے د وران دیا۔ وہ پہلگام واقعہ پر بول رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ممتا پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں فوجی رد عمل  (آپریشن سندور) کی مخالفت کررہی تھیں۔ ان کی یہ مخالفت مسلم ووٹ بینک کو خوش کرنے کیلئے تھی۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے ایک تاثر پیدا ہوا کہ مسلمان آپریشن سندور کی حمایت میں نہیں تھے۔ بالفاظ دیگر مسلمان دہشت گردوں کی کارروائی کو معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کی خوشی اس بات میں مضمر ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی نہ کی جائے۔

وزیر داخلہ کے اس غیر منطقی سیاسی بیان نے عجیب سیاسی ہلچل مچادی ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ اشتعال او رتفرقہ کی چنگاری بھڑکنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ایک باوقار عہدے پر فائز قائدے کے لیے ایسی بے بنیاد اور تفرقہ انگیز بیان دینا سماج میں نفرت پیداکرنے کا موجب بن سکتاہے اور پوری مسلم برادری کو بدنام کرنے، اس کی حب الوطنی کو شکوک وشبہات میں ڈالنے او ران کی وطن پرستی پرسوالیہ نشان کھڑا کرتاہے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے جو ملک میں سماجی تفریق کو جنم دے گی اور یہ سب محض سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کیا جارہاہے۔ اس قسم کی بیان بازی سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات کی وجہ سے دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں یا قومی سلامتی کی کوششوں کے خلاف کھڑے ہیں۔

شاہ کایہ بیان حقیقت کے معارض ہے۔پہلگام حادثہ ہو یا کوئی ملک مخالف سرگرمی، یہاں کی مسلم کمیونٹی بشمول سرکردہ شخصیات، قائدین اور عام شہری، قومی سلامتی، امن کی بقاء اور اتحاد یکجہتی کی جدوجہد میں ہمیشہ ہی اگلی صف میں کھڑے رہے ہیں۔جہاں تک پہلگام حملے کی بات ہے تو اسے کوئی بھی جائز نہیں ٹھہرا تا او رمسلمانوں نے واضح طور پر اس کی شدید مذمت کی ہے۔ یہاں تک کہ جموں او رکشمیر کے مکینوں نے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کاروبار کوبے ساختہ بند کردیا، جو کہ اتحاد کی ایک منفرد علامت ہے۔ وزیر داخلہ کا مسلمانوں پر یہ الزام حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ پہلگام حادثے میں مقامی مسلمانوں نے دہشت گردوں کے خلاف سیاحوں کے ساتھ جس طرح اظہار یکجہتی کیا، یہ ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نفرت کو اجاگر کرتاہے۔ جب آپریشن سندور کو عملی جامہ پہنانے کامرحلہ آیا تو برادران وطن کے فوجیوں کی طرح مسلم فوجیوں نے بھی جان کی بازی لگانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ چھپرا ضلع سے تعلق رکھنے والا ایک مسلمان بی ایس ایف جوان محمد امتیاز بڑی جانبازی سے لڑتا ہوا اس آپریشن کے دوران اپنی جان کی بازی لگادیا۔ان کی یہ قربانی ثبوت دے رہی ہے کہ ہندوستانی مسلمان ملک کے دفاع میں برابر کے شریک ہیں اور کسی بھی دوسرے شہری کی طرح دہشت گردی سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ کیونکہ اس فعل قبیح کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑتاہے۔ جہاں تک ممتا بنرجی کی ’آپریشن سندور‘ کی حمایت نہ کرنے کی بات ہے تواس کی وجہ فکری اختلاف ہے۔دراصل وہ بھی انسداد دہشت گردی کی حامی ہیں اور بارہا دہشت گردی کی روک تھام پر زور دے چکی ہیں، البتہ آپریشن سندور کو سیاسی مہرے کے طور پر استعمال کرنے یا اسے ’آپریشن سندور‘ کا نام دینے کی مخالفت کرتی رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت اور این ڈی اے اس آپریشن کی تشہیر کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ظاہر ہے کہ ملک کا کوئی بھی سنجیدہ شہری، قائد یا دانشور دہشت گردی مخالفت سرگرمیوں کو سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے کو جائز نہیں ٹھہراسکتا یہی کام ممتا بنرجی نے بھی کیا۔

دہشت گردی مخالف کارروائی یا آپریشن سندور کے سلسلے میں مسلم رہنماؤں او رعہدیداروں نے عالمی سطح پردہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے متحدہ موقف کی نمائندگی کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلم اراکین پارلیمنٹ او رسینئر بیورو کریٹس انسداد دہشت گردی پرہندوستان کے قومی اتفاق رائے سے بات چیت کرنے کے لیے غیر ملکی دارالحکومتوں کو بھیجے گئے سات آل پارٹیز وفود کا حصہ تھے۔ ان میں ’آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین‘ لیڈر اور حیدر آباد کے ایم پی اسدالدین اویسی، سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید، سینئر لیڈر غلام نبی آزاد، ای ٹی۔محمد بشیر، سرفراز احمد، میاں الطاف احمد، اور سفیر سید اکبر الدین اور دیگر اہم شخصیات جیسے جاوید اشرف، غلام علی کھٹانہ اوریوسف پٹھان شامل تھے۔ان کی شرکت دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی لڑائی میں مسلم کمیونٹی کی فعال او رمستقل حمات کو اجاگر کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند جیسی مسلم مذہبی تنظیموں نے بھی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور اس مسئلے پرحکومت اور مسلح افواج کی حمایت کی ہے۔ تاہم،تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، آل انڈیا ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی اور دیگر سیاسی تنظیموں نے بی جے پی کے اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے آپریشن سندور کو استعمال کرنے کی کوشش پر اعتراض کیاہے۔

مسلمانوں کی وفاداری او رملک کی سالمیت کے لیے مسلسل جدوجہد کے باوجود امیت شاہ جیسے سینئر قائد کی جانب سے مسلم قوم کے وفادارنہ ہونے کی بات کہنے سے،مسلم کمیونٹی کے خلاف نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو تقویت ملتی ہے او رملک میں پہلے سے ہی فرقہ وارانہ پیدا شدہ سیاسی ماحول میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ مزید بڑھ سکتاہے۔ان کے اس بیان سے سماج میں کشیدگی کے بڑھنے او رملکی جمہوریت کے تانے بانے کو کمزور ہونے کا امکان پیدا ہوتاہے۔ کسی سیاسی رہنما خاص طو رپر مرکزی وزیرداخلہ جیسے باوقار عہدے پر فائز شخص پر قومی اتحاد کو فروغ دینے کی ذمہ داری مزید بڑ ھ جاتی ہے، نہ کہ وہ سماجی تقسیم، انتخابی فائدے کے لیے مذہب کو ہتھیار بنانے جیسے غیر اخلاقی راستے اختیار کریں۔ یہ ملک کی جمہوریت کیلئے خطرناک اور آئینی روح کے خلاف ہے۔ ملکی امن، سماجی اتحاد اور اتحاد باہمی مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سلامتی کے بارے میں جو بھی گفتگو کی جائے وہ حقائق پر مبنی ہو نہ کہ مخصوص نظریہ فکرپر، اور یہ بھی ضرور ہے کہ مسلمانوں بہت تمام کمیونیٹز کے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ مگر عجیب اتفاق ہے کہ 2014 ء کے بعد سے مرکزمیں بی جے پی کی حکومت میں،مسلمانوں کو بار بار ہدف بنایا جاتاہے، انہیں اقتصادی طور پر پسماندہ بنانے کی چال چلی جاتی ہے او رہجومی تشدد سے لے کر ادارہ جاتی اخراج تک جیسے مسائل کاانہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے ملک کا حسن کثرت میں وحدت کی شکل میں نکھرتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کو حقیقی معنوں میں تکثیری جمہوریت کے طور پر دیکھناچاہتے ہیں تو نفرت وبدگمانی پیداکرنے والی بیان بازیوں کو یکسر مسترد کرنا ہوگا۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/operation-sindoor-opposition-contradict-reality/d/135815

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..