New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 12:57 AM

Urdu Section ( 23 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Online Radicalism and the Threat of Lone Wolves آن لائن بنیاد پرستی اور لوون وولف دہشت گردی کا خطرہ

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 9 جنوری 2024

 آئی ایس آئی ایس کے ظہور اور دہشت گردانہ نظریات کے فروغ میں آن لائن وسائل و ذرائع کے استعمال سے لون وولفزم یعنی تنہا بھیڑیے دہشتگردی کا ایک نیا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اس مضمون میں تنہا بھیڑیے حملوں کے طریق کار اور اس کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا ہے۔

 -----

 اہم نکات:

 1. حالیہ دنوں میں لوون وولف یا تنہا بھیڑیوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔یہ حملے خاص طور پر داعش کی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس اضافہ سے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ خطرہ ایسے  افراد کی طرف سے لاحق ہوتے ہیں جو ریڈیکل یعنی بنیاد پرست نظریات کے حامل ہیں اور جو بغیر کسی شناخت یا مداخلت کے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

 2.  تنہا بھیڑیے دہشت گرد کافی الگ اور ہوتے ہیں اور ان کا طریق کار پیچیدہ ہوتا ہے اس لیے ان پر نظر رکھنے کا ایک ایسا واحد فریم ورک تیار کرنا مشکل ہوتا ہے جو عالمی سطح پر نافذ العمل ہو سکے۔

 3.  تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کی منصوبہ بندیاں اکثر پردے میں رہ جاتی ہیں اور ان پر کسی کا دھیان نہیں جاتا، اور جاتا بھی ہے تو جب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

 4.    انتہاپسندی کی طرف مائل کرنے والے مواد کی کثرت، روحانی رہنماؤں کا اثر و رسوخ، بیگانگی کے احساسات، پسماندگی، سیاسی جبر، امتیازی سلوک، مغربی حکومتوں کی بد اطواری کا تصور، اور ان سب پر ردعمل ظاہر کرنے کی اپنی خواہش جیسے عوامل انفرادی سطح پر بنیاد پرستی کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 -----

 دور جدید کی دہشت گردی میں لوون وولف یعنی تنہا بھیڑیے دہشت گردی ایک اہم رجحان بن کر ابھری ہے، جس کا سراغ لگانا اور اندازہ لگانا مغربی معاشروں کے لیے ناممکن ہے۔ اس کا اثر اور اس کی طاقت خاص طور پر ستمبر 2014 میں اس وقت سامنے آئی جب اسلامک اسٹیٹ کے ترجمان ابو محمد العدنانی نے مغربی ممالک میں اپنے ہمدردوں اور مسلمانوں سے کافروں اور بالخصوص امریکیوں، یورپیوں، آسٹریلین اور کینیڈین لوگوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرنے کا حکم دیا۔

 یہ حربہ بالکل نیا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں لوون وولف یا تنہا بھیڑیوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔یہ حملے خاص طور پر داعش کی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس اضافہ سے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ خطرہ ایسے  افراد کی طرف سے لاحق ہوتے ہیں جو ریڈیکل یعنی بنیاد پرست نظریات کے حامل ہیں اور جو بغیر کسی شناخت یا مداخلت کے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں مین ہارون مونس، امریکہ میں زیل تھامسن، کینیڈا میں مارٹن زیہاف بیبیو اور مارٹن کوچر-رولیو، ڈنمارک میں عمر عبد الحمید الحسین، اور بیلجیم میں مہدی نیموچے جیسے بڑے واقعات و حادثات سے یہ بڑھتا ہوا خطرہ اجاگر کیا ہے۔

 نتیجتاً، تنہا بھیڑیے دہشت گردی پر اب تحقیقات بھی زیادہ سے زیادہ ہونے لگی ہیں۔ اگرچہ ایسے کتنے ہی مطالعات پیش کیے جا چکے ہیں اور ان میں تنہا بھیڑیے دہشت گردی کے دواعی، نظریات، محرکات اور اس کے طرز عمل پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن اس کے حوالے سے ہماری سمجھ میں اب بھی کافی خامیاں ہیں۔ ہزارہا کوششوں کے باوجود، چونکہ تنہا بھیڑیے دہشت گردی کا ہر معاملہ انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے، اس لیےتنہا بھیڑیے دہشت گردی کا ایک قطعی اور مخصوص پروفائل تشکیل دینا اب بھی ایک مشکل ترین امر ہے۔ تنہا بھیڑیے دہشت گرد کافی الگ اور ہوتے ہیں اور ان کا طریق کار پیچیدہ ہوتا ہے اس لیے ان پر نظر رکھنے کا ایک ایسا واحد فریم ورک تیار کرنا مشکل ہوتا ہے جو عالمی سطح پر نافذ العمل ہو سکے۔

لون وولف کون ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے۔

 تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کو دیگر دہشت گرد تنظیموں مثلا گروہی دہشت گرد، داخلی انتہا پسند، یا ان چار قسم کے تنہا بھیڑیے دہشت گرد سے ممتاز کرنا، جن ہی نشاندہی Pantucci (2011) نے کی ہے، انٹیلی جنس اور پولیس کی خامیوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے، جن کی وجہ سے یہ تنہا بھیڑیے دہشت گرد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس اہلکاروں کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ دہشت گردی کی اقسام کے درمیان فرق کو درست طریقے سے نہ سمجھنا بھی، تنہا بھیڑیے دہشت گردی کو دہشت گردی کی ایک مستقل قسم قرار دینے، اور تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کے حملوں کے وقت اور اس کی نوعیت کو نہ سمجھ پانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

 تاہم، Pantucci نے لون وولف دہشت گردوں کی تعریف یوں کی ہے "ایسے افراد جو تنہا اسلام پسند دہشت گردی کے اہداف کی تکمیل میں کوشاں رہتے ہیں، اور اس کا داعیہ یا تو ذاتی وجوہات ہوتی ہیں یا وہ خود کو کسی ایک نظریاتی جماعت کا حصہ مانتے ہیں۔" یہ تعریف دہشت گردی کی دوسری اقسام پر بھی صادق آتی ہے، لیکن اس میں دہشت گرد گروہوں کی رکنیت یا ان کے ساتھ وابستگی پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے تنہا بھیڑیے دہشت گردی کو اسلامی بتایا ہے اور دہشت گرد تنظیم سے ان کے تعلق کی وجہ نفسیاتی مسائل بتایا گیا ہے۔ جبکہ کسی تعریف کے موثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری حدود یا مفروضوں سے آزاد، قطعی اور یقینی ہو۔

تاہم، Spaaij (2010) نے تنہا بھیڑیے دہشت گردی کی ایک مزید جامع تعریف پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ تنہا بھیڑیے دہشت گردی، دہشت گردی کی دیگر اقسام سے ممیز و ممتاز ہو سکے۔ Spaaij کے مطابق، تنہا بھیڑیے دہشت گرد، انتہا پسند تحریکوں یا دہشت گرد تنظیموں سے منسلک یا ان کے ہمدرد ہو سکتے ہیں، لیکن وہ کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے پر تنہا بھیڑیے دہشت گرد قرار دیے جانے سے پرہیز کرتا ہے۔ Spaaij، جو 2012 میں تنہا بھیڑیے دہشت گردی پر سب سے زیادہ جامع تحقیق کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں، نے اس کی ایک جامع اور مانع تعریف پیش کی ہے جو تنہا بھیڑیے دہشت گردی کو دہشت گردی کی دیگر اقسام سے جدا کرتی ہے۔

 ان کی تعریف میں، تنہا بھیڑیے دہشت گرد وہ افراد ہیں جو:

 (ا) چھپ چھپا کر دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دیتے ہیں

 (ب) کسی منظم دہشت گرد گروپ یا نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے، اور

 (ج) براہ راست خارجی احکامات کے بغیر آزادانہ طور پر اپنی حکمت عملی یا اپنا طریق کار وضع کرتے ہیں۔

 یہ تعریف، بشمول دہشت گردی کی وسیع تر تعریف کے، منظم دہشت گردوں کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے اور ان کارروائیوں کا تعین کرتی ہے جو دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں، خاص طور پر تنہا بھیڑیے دہشت گردی کا خدوخال بیان کرتی ہے۔

 حکمت عملی

 اگرچہ، تنہا بھیڑیے دہشت گردانہ حملوں میں استعمال کی جانے والی حکمت عملی اور منظم انتہا پسند گروہوں کے حملوں میں کثیر مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن دونوں کے نتائج الگ الگ برآمد ہوتے ہیں۔ اگرچہ تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کے بالمقابل انتہا پسند گروہوں کے لیے، مغربی ممالک میں کامیاب حملے انجام دینا زیادہ مشکل ہوتا ہے، لیکن یہ تنظیمیں دہشت گردانہ حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ Kydd اور Walter، نے اپنے مضمون "Strategies of Terrorism" میں لکھا کہ "دہشت گردوں کا کام حکومت کو ناجائز قرار دینا اور قابض افواج پر دبش ڈالنا ہے،" اور تنہا بھیڑیے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں تمظیموں دونوں کے اہداف و مقاصد کو ایک ہی بتایا۔

 دہشت گرد کسی حکومت کو ناجائز قرار دینے یا اپنے پیغام کی اشاعت کے لیے عام طور پر پانچ بنیادی حکمت عملیوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان میں سے دو حکمت عملی مغربی ممالک کے اندر انجام دیے جانے والے حملوں میں خاص طور پر نمایاں ہیں:

 تخریب کاری اور اشتعال انگیزی

 تخریب کاری کی حکمت عملی میں، دہشت گردوں کا مقصد اپنے مخالف کو یہ باور کرانا ہوتا ہے، کہ اگر دشمن کسی مخصوص پالیسی پر روک نہیں لگاتا، تو ہمارے پاس خاطر خواہ کاروائی کرنے کی طاقت موجود ہے۔ اسلامی انتہا پسند دہشت گرد عالم مغرب میں 'کافروں' اور 'مرتدوں' ​​کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور حکومت پر دبش ڈال سکتے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جاری اپنی کارروائیوں سے دستبردار ہو جائیں، یا ووٹروں پر جرمانے عائد کریں، تاکہ حکومت اور اس کی عوام کے اخراجات میں اضافہ ہو۔

 دوسری طرف اشتعال انگیزی یہ ہے کہ اس میں دشمن کو دہشت گردی کا جواب بے دریغ تشدد کے ساتھ دینے پر بھڑکایا جاتا ہے، جس کا شکار ہو کر عوام بنیاد پرست ہو جاتی ہے اور وہ دہشت گردوں کے پلے میں چلی جاتی ہے۔ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ دہشت گرد حملہ آوروں یا خطرناک لوگوں پر حکومت دبش ڈالے جس سے وہاں کے لوگوں میں بنیاد پرستی پھیلے اور اس طرح ان کے درمیان انتہاپسندوں کا مشن مضبوط ہو، جو کہ حسب ذیل ہیں؛

 بنیاد پرستی

 خودکش بم دھماکہ

 عوام کی منفی ذہن سازی

 داعش، القاعدہ، اور انفرادی تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کا عالمی خطرہ

 داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں نے متاثر کن تنہا بھیڑیے حملوں کو آسان بنانے کے لیے اپنی حکمت عملی تشکیل دی ہے۔ حصولِ اقتدار کے لیے جدوجہد کی وجہ سے وہ مرکزی طریق کار سے اب دور ہو گئے ہیں۔ ڈینیئل بائی مین نے لکھا کہ جب یہ گروپ کمزور ہوتے ہیں تو تنہا بھیڑیے حملوں کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انسپائر میگزین کے 2010 کے شمارے میں، القاعدہ نے 'از خود انجام دہی' کے دہشت گردانہ طور طریقوں پر زور دیا اور اہداف کے انتخاب اور حملے کے طریقوں پر بنیادی ہدایات فراہم کی۔ اس طریق کار میں انتہا پسند تنظیموں کے بھاری بھرکم افسر شاہی کے نظام کے برعکس، تنہا بھیڑیے حملوں کی طاقت پر زور دیا جاتا ہے۔ وہیکل ریمنگ یعنی حملوں کے لیے گاڑیوں کا استعمال کرنے جیسی تکنیکوں کے لیے کم سے کم منصوبہ بندی اور چند ہی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو بآسانی لوگوں دستیاب ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کے حملوں کے لیے بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے مقابلے میں کم تنظیم سازی، کم منصوبہ بندی اور کم فنڈنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، جس سے ان کے لیے مؤثر انداز میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینا آسان ہو جاتا ہے۔ پروپیگنڈا جرائد جیسے القاعدہ کا انسپائر اور داعش کا دابق اور رومیہ کا نشانہ تنہا بھیڑیے دہشت گرد ہی ہیں۔ ان گروہوں کے پیغامات کا شکار اکثر ایسے ہی افراد ہوتے ہیں، خاص طور پر جب تعلق جیسے بیانیوں پر زور دیا جائے۔ اگرچہ ہو سکتا ہے کہ مرکزی دھارے کے مسلمان ان تنظیموں کی وحشیانہ کارروائیوں کی بھیانک ویڈیو وغیرہ بھی دیکھ لیں، لیکن وہ عوام اور اپنے درمیان تعلق کے احساس کو پروان چڑھاتے ہوئے ایک فرضی کمیونٹی کی تصویر پیش کرنے والے بیانیے بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔

 ایسٹرلی اور گیلٹزر کا ماننا ہے کہ بھرتی ہونے والوں اور خاص طور پر مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے تعلق کا احساس ہی ایک طاقتور داعیہ کا کام کرتا ہے۔ داعش کے پروپیگنڈے کا یہ پہلو ان افراد کو خوب بھاتا ہے جو خود کو اپنی برادریوں سے منقطع یا الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ان کی کشش ہتھیار اٹھا کر یا پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہو کر اپنے اوقات سے بڑی چیز کا حصہ بننے میں مضمر ہے، جس سے تنہا یا الگ تھلگ محسوس کرنے کے برعکس، انہیں ایک مقصد ملتا ہے اور ان کے اندر تعلق کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

 آن لائن وسائل و ذرائع کے ذریعے تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کی بھرتی

 آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کے اثر و رسوخ میں موجودہ افزائش نے دہشت گردوں کی آئندہ نسل کے حوالے سے زبردست خدشات کو جنم دیا ہے، جس کے پیش نظر تنہا بھیڑیے دہشت گردی کے تمام پہلوؤں پر مزید تحقیق کی ضرورت شدید ہو گئی ہے۔ تنہا بھیڑیے دہشتگرد، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں، منظم دہشت گرد نیٹ ورکوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اور کسی بھی خارجی مدد کے بغیر اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں از خود انجام دیتے ہیں۔ 2012 میں Spaaij کے مطالعے میں 198 حملوں کے ذمہ دار 88 تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کا جائزہ لیا گیا اور پانچ اہم واقعات کی تحقیق کی گئی۔ یہ تحقیق ان افراد کے نظریات، محرکات اور بنیاد پرستی کے ان کے طریق کار پر اہم بصیرت فراہم کرتی ہے۔ تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کی انفرادیت اور نایابی کے پیش نظر عالمی سطح پر کسی ایک متفقہ معیار کی عدم موجودگی کے باوجود، محققین نے ان کی کچھ مشترکہ خصوصیات کی نشاندہی کی ہیں۔ جن میں ذہنی اور سماجی بحران، مجرمانہ رویے کی تاریخ، ذاتی مایوسیوں کا انتہا پسندانہ نظریات کے ساتھ اختلاط اور دوسروں پر الزام تراشی کا رجحان، ڈپریشن، رنجش، ذاتی بحران (مثلاً، ملازمت کا نہ ہونا، مالی مسائل، کشیدگی وغیرہ)، ہتھیاروں سے واقفیت، اور جذباتیت کا نہ ہونا۔

 اگرچہ دہشت گردوں اور تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کے نظریات ایک جیسے ہو سکتے ہیں، لیکن بنیاد پرستی کی طرف لے جانے والے راستے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ عام دہشت گرد بالعموم تربیت کے لیے بیرون ملک سفر کر کے، دہشت گرد یا انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہو کر، اور حملے سے پہلے ہتھیار اندوزی کر کے یا دھماکہ خیز مواد تیار کر کے بنیاد پرستی کے چنگل میں پھنستے ہیں، جو کہ تمام ایسے اقدامات ہیں جن پر بالعموم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نظر ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کی منصوبہ بندیاں اکثر خفیہ رہتی ہیں اور جب تک ان پر کسی کا دھیان جاتا ہے کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ فی الحال، تنہا بھیڑیے دہشت گرد بنیادی طور پر آن لائن تربیت حاصل کرتے ہیں، اپنے نظریات کے نام پر نقصان پہنچانے کے طریقوں اور حربوں پر تحقیق کرتے ہیں اور ہم خیال بنیاد پرستوں سے رابطہ کرتے ہیں، تاکہ براہ راست جسمانی رابطے کے بغیر اپنے نظریات اور داعیات کو فروغ دیا جا سکے۔

 تنہا بھیڑیے بنیاد پرستی کا عمل پیچیدہ ہے اور اس کا کوئی ایک نمایاں عنصر نہیں ہوتا کہ جس کی نشاندہی کی جا سکے۔ اور عام طور پر، یہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب لوگ اپنی زندگیوں، سماجی ڈھانچے، یا غیر ملکی اور ملکی دونوں حکومتوں کی پالیسیوں سے مایوسی اور غم و غصہ میں مبتلا ہوں۔ Precht ایک مشترکہ بنیاد پرستی کے راستے کا خاکہ پیش کرتے ہیں جہاں افراد ہم خیال لوگوں کے ساتھ جڑتے ہیں اور اجتماعی طور پر سلسلے وار انداز میں ایسے واقعات اور مراحل سے گزرتے ہیں، جس کا انجام آخر کار دہشت گردی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس عمل میں مختلف عوامل کا دخل ہوتا ہے، بشمول سماجی اور مذہبی شناخت، سماجی حلقوں کے اندر تعامل اور انضمام، جیل کے تجربات، خاندان اور دوست و احباب کے اثرات، سماجی و اقتصادی حیثیت، حکومتی پالیسیاں، ذاتی تجربات، مجرمانہ پس منظر، عالمگیریت، نسل پرستی، نفسیاتی خوشحالی، انٹرنیٹ، اور وسیع تر عالمی سیاسی، ثقافتی، اور اقتصادی پیش رفت کے۔ بنیاد پرستی کی ایک جامع تفہیم حاصل کرنے کے لیے اس کے ہر ایک عنصر اور رویے کا انفرادی طور پر جائزہ لینا اور بنیاد پرستی کے عمل میں ان کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔

 فی الحال، انٹرنیٹ کو تنہا بھیڑیے بنیاد پرستی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اس کا اثر و رسوخ کتنا ہے اس پر محققین کی رائے مختلف ہے۔ محققین کی رائے کا یہ اختلاف اکثر مخصوص معاملے کی چھان بین پر منحصر ہوتا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارم ممکنہ تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کو ہم خیال افراد کے ساتھ جڑنے، ان کی ذہن سازی کرنے، شکایات کا اظہار کرنے اور کسی مقصد سے تعلق رکھنے کے احساس کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اینڈرس بیہرنگ بریوک نے القاعدہ سے حکمت عملی سیکھنے اور انتہا پسند فورموں میں حصہ لینے میں انٹرنیٹ کے استعمال کا انکشاف کیا، جس سے اوسلو میں اس کے تنہا بھیڑیے دہشت گردانہ حملے میں مدد ملی۔ انٹرنیٹ لامتناہی انتہا پسندانہ پروپیگنڈے اور پرتشدد نظریات تک رسائی فراہم کرتا ہے، جو اکثر خفیہ ہی رہ جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں لوون وولف یا تنہا بھیڑیوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔یہ حملے خاص طور پر داعش کی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس اضافہ سے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ خطرہ ایسے  افراد کی طرف سے لاحق ہوتے ہیں جو ریڈیکل یعنی بنیاد پرست نظریات کے حامل ہیں اور جو بغیر کسی شناخت یا مداخلت کے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ تاہم، دہشت گرد بنیاد پرستی اور مقامی دہشت گردی پر وسیع پیمانے پر تحقیق کے باوجود، تنہا بھیڑیے بنیاد پرستی کی ایک جامع تفہیم ابھی بھی ندارد ہے۔ ماقبل میں کیے گئے مطالعے حقیقی تنہا بھیڑیے دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں یا نیٹ ورکوں سے تعلق رکھنے والے انفرادی دہشت گردوں کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ ایک کیس اسٹڈی سے وسیع پیمانے پر قابل اطلاق نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں، لیکن اس سے تنہا بھیڑیے بنیاد پرستی کے عمل کے حوالے سے قیمتی معلومات

حاصل ہوتی ہیں۔

 نتیجہ

 عمر متین 9/11 کے بعد امریکی سرزمین پر سب سے مہلک دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے میں اس لیے کامیاب رہا کیونکہ اس نے تنہا یہ منصوبہ انجام دیا۔ اس نے مشتبہ گروہوں سے روابط کیے بغیر ہی اپنا کام انجام دیا کیونکہ اس سے انسداد دہشت گردی ایجنسیاں متحرک ہو جاتیں۔ قانونی طور پر اسلحہ خرید کر وہ شک کے دائرے سے باہر آ گیا۔ اس کے حملے دہشت گردانہ نظریے سے متاثر تو تھے لیکن اس نے براہ راست اسلام پرست انتہا پسند گروہوں سے ہدایات یا تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ تاہم، اس کا اثر حکومتی پیمانے پر نہیں ہوا، کہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہو یا حکومت پر کوئی دباؤ بنے۔

 تنہا بھیڑیے دہشت گردوں کو منظم انتہا پسند گروہوں کے مقابلے میں کم وسائل اور کم تنظیم سازی کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے ان کی شناخت کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ان کے خفیہ ہونے سے ہائی سکیورٹی والے مغربی ممالک میں حملوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ آن لائن پروپیگنڈے اور سازشی نظریات کے ذریعے بنیاد پرستی کا عمل، جس کی شروعات انتہا پسند گروہوں سے ہوتی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں، پس پردہ کام کرنے والوں اور فعال طور پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے درمیان فرق کو دھندلا کر دیتا ہے۔

 اگرچہ تنہا بھیڑیے حملوں کے نتیجے میں اکثر زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں، لیکن ان میں منظم شدت پسند تنظیموں جیسی صلاحیت نہیں ہوتی ہے، جیسے کہ القاعدہ کا 9/11 کا اثر انگیز حملہ، جس نے حکومتوں کو دہشت گردوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ عالم مغرب میں بے شمار تنہا بھیڑیے دہشت گردی کے واقعات ریاستی یا بین الاقوامی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلیاں لانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے یہ ریاست کی بقا کے لیے کچھ کم خطرہ ہیں۔

 حوالہ جات

Burke, Jason. “The Myth of the ‘Lone Wolf’ Terrorist.” The Guardian, 30 March 2017. https://www.theguardian.com/news/2017/mar/30/myth-lone-wolf-terrorist

Pantucci, R. (2011). A Typology of Lone Wolves: Preliminary Analysis of Lone Islamist Terrorists. Developments in Radicalisation and Political Violence, 1-39.

Precht, T. (2007). Homegrown terrorism and Islamist radicalisation in Europe. Copenhagen: Danish Ministry of Justice.

Spaaij, R. (2012). Understanding Lone Wolf Terrorism: Global Patterns, Motivations and Prevention. London/New York: Springer.

Spaaij, R. (2010). The Enigma of Lone Wolf Terrorism: An Assessment. Studies in Conflict & Terrorism, 854—870.

Veilleux-Lepage, Yannick. “How and Why Vehicle Ramming Became the Attack of Choice for Terrorists.” The Conversation, 29 March 2017. https://theconversation.com/how-andwhy-vehicle-ramming-became-the-attack-of-choice-for-terrorists-75236

 English Article: Online Islamist Radicalism and the Threat of Lone Wolves

URL: https://newageislam.com/urdu-section/online-islamist-radicalism-threat-lone-wolves/d/131572

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..