New Age Islam
Wed May 31 2023, 02:59 PM

Urdu Section ( 31 Jul 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

On Debt And Contract, Essential Message of Islam; Chapter: 24 قرض اور معاہدے کے مسائل، اسلام کا اصل پیغام


  

محمد یونس اور اشفاق اللہ سید

25 جولائی 2015

(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)

24.1۔ کسی تجارتی معاہدے پر مسودہ تیار کرنا

قرآن کی ایک سب سے طویل آیت (283/2:282) میں کاروبار کے معاہدوں اور تجارتی لین دین کا مسودہ تیار کرنے پر ایک جامع اصول بیان کیا گیا ہے؛ جو کہ مندرجہ ذیل عناصر کو محیط ہے۔

        ایک قرض لینے والے  یا اس کے ایجنٹ کی طرف سے معاہدہ کا مسودہ تیار کرنا۔

        اس معاہدے پر دو مردوں کو گواہ بنانا  اور اگر دو مرد دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو اس پر گواہ بنانا۔

        اس معاہدے میں تاریخی ڈالنا، اور معاہدے کی مدت کو بھی مذکور کرنا۔

        طلب کیے جانے پر گواہوں کو گواہی دینے کے لئے حاضر ہونے کی نصیحت کرنا۔

        کابت یا گواہ کو ہراساں کرنے کی ممانعت۔

        دستاویزات کے بغیر ہاتھوں ہاتھ لین دین کی اجازت۔

        قرض کے بدلے میں کسی چیز کو ضمانت کے طور پر رکھنے کی منظوری۔

        ایمانداری کے ساتھ امانت واپس کرنے کی امین کی ذمہ داری۔

یہ آیت خالصتاً فقہی انداز میں نازل کی گئی ہے، لیکن مذکورہ بالا تلخیص سے کسی بھی مشکل کے بغیر مندرجہ ذیل آیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 "اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے۔

پس وہ لکھ دے، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔

اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں،

اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں۔

اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔" (2:282)

‘‘اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے، اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے’’ (2:283)۔

24.2۔ گواہی کے لیے ایک مرد کے لیے کیوں دو خواتین متبادل کا حکم کیوں؟

گواہی کے لیے ایک مرد کی جگہ دو خواتین متبادل کے لیے قرآنی حکم (2:282) کو اکثر مفسرین  مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کم عقلی کی طرف اشارہ کرنے  یا اسے ثابت کرنے کے لیے نقل کرتے ہیں۔ صرف اس ایک قرآنی آیت سے اس طرح کا کوئی نتیجہ اخذ کرنا  گمراہ کن ہے، اس لیے کہ قرآن شہادت کے تمام دوسرے حالات میں اپنی صنفی غیر جانبداری کو برقرار رکھتا ہے، خاص طور پر:

         سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد یتیموں کو ان کی جائداد انہیں واپس کرتے وقت (4:6/ باب 31.1)

         وصیت کی گواہی میں (107-5:106/ باب 37)۔

         کسی مبینہ زنا کی گواہی (4:15 / باب 36.2؛ 24:4 / باب 36.4)۔

         طلاق کے نفاذ کی گواہی (65:2 / باب 34.2)۔

تاریخی نقطہ نظر سے  تجارت اکثر بنیادی طور پر مردوں کا پیشہ رہا ہے اس لیے کہ اس میں خطرناک علاقوں کا سفر اور گھروں سے دور رہنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہذا، اس سلسلے میں ایک عام ہدایات دو مردوں کو گواہ بنانے کی دی گئی ہے، اور اگر دو مرد دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دو خواتین کو گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ییہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گواہی کے متعلق قرآن کے اس استثنائی حکم کو تمام حالات کے لیے ایک فریضہ ماننا ضروری ہے۔ ہم نے اس کا جواب قرآن کی روشنی میں دینے کی کوشش کی ہے، جو کہ حسب ذیل ہے۔

وحی کے تناظر میں، قرآن کا نزول ایک خاص قوم کے لیے، ایک خاص مقام پر  اور ایک خاص وقت میں ہوا ہے۔ لہذا، پرندوں کو پکڑنے کے لئے شکار کے جانوروں کو منتخب کرنے(5:4/باب 25.2)، کمزور اونٹ پر کعبے کا سفر کرنے1، اور  جنگ میں گھڑ سوار دستوں کو بھیجنے جیسے زندگی کے مادی پہلوؤں سے متعلق قرآنی احکام و ہدایات اسی زمانے کے لیے مخصوص تھے، اور قیاساً یہی معاملہ تجارتی معاملات میں گواہی کا بھی ہے۔ لیکن قرآن امت کی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں اور یہاں تک کہ خاندانی معاملات میں بھی (2:233 / باب 34.5) بارہا مسلمانوں سے سوچنے، سمجھنے اور غور و  فکر کرنے کا مطالبہ کرتا ہے (3:159، 42:38 / باب 42.1)۔ اب یہ امر واضح ہو گیا کہ قرآن کا منشاء یہ نہیں ہے کہ مسلمان ساتویں صدی کی عربی تہذیب میں جامد و ساکت رہیں۔ اس میں ترقی اور  وقت کے ساتھ مادی اور تجارتی معاملات میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے مدینہ کے ایک مارکیٹ میں ایک خاتون حضرت شفا بنت عبداللہ (رضی اللہ عنہا) کو ایک انسپکٹر کے طور پر مقرر کیا تھا 3۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار خواتین پروفیسرز اور فقہاء رہ چکی ہیں جنہوں نے اپنے تحت  بہت سے مردوں کو تعلیمی اور فقہی اسناد عطا کیے ہیں۔ لہٰذا، اگر تہذیبی ترقی شعبہ تجارت میں خواتین کی فعال شرکت کو محدود کرنے والی روایتی رکاوٹوں کو ہٹا دیتی ہے تو  عورتوں کی گواہی میں ایک مخصوص پیمانہ مقرر کرنے والی قرآن کی آیت کو تبدیلیٔ حالات پر محمول کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات:

1۔ 22:27۔

2۔ 8:60۔

3۔ مندرجہ ذیل ویب لنک کے ذریعہ، اسلام میں خواتین کے مقام  پر، خالد ابو الفضل کے مضمون کا ایک اقتباس:

www.themodernreligion.com/women/recognition.html

[3 حوالہ جات]

URL for English article:   https://newageislam.com/books-documents/the-primacy-justice-qur’an-essential/d/104027

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/on-debt-contract,-essential-message/d/104100

 

Loading..

Loading..