محمد اکرم فضل
28اکتوبر، 2022
مال و دولت او راولاد،
اللہ کی نعمت اور دنیا کی زینت کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو ان نعمتوں
سے نواز کر آزما تا ہے اوربعض کو محروم کرکے۔انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں
رہتے اور گردش ایام کے باعث زندگی میں قرض یا ادھار لینے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
ایسے مواقع پر قناعت پسند اور افراد حتی الامکان قرض سے پرہیز کی کوشش کرتے ہیں
اور سخت مجبوری کی حالت میں اس راستے کو اختیار کرلیں تو پھر حسب وعدہ قرض لوٹانے
کی فکر او رکوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں انسانوں کی زندگی باہمی تعاون سے ہی باوقار
اور پرسکون بنتی ہے۔ لیکن بعض لوگ اس باہمی تعاون اور اعتماد کو دانستہ یا نا
دانستہ ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکثر لوگ استطاعت کے باوجود اپنے ضرورت
مند بھائی کی حاجت پوری کرتاہے او رمجبوری کے وقت قرض دے کر اس کی ضرورت پوری کرتا
ہے اور وہ ضرورت مند کا محسن ہے۔ اس احسان کا بدلہ احسان ہی کی صورت میں ہونا
چاہئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ‘‘ نیکی کابدلہ نیکی کے سواکچھ نہیں ہے۔’’( الرحمن
:60)اس کا طریق کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ احسان کرنے والے کے
لئے دعا کی جائے اور وقت مقررہ پر اس کا قرض ادا کیا جائے ۔ قرض ایک ایسا بوجھ ہے
کہ جس سے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ‘‘ اے اللہ میں گناہ اور قرض
کے بوجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ قرض رات کا غم
اور دن میں ذلت کا ذریعہ ہے۔’’
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے
ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے لوگوں کا مال لیا اس حالت میں
کہ وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتا تھاتو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرنے کی توفیق
عطا فرماتا ہے۔ اور جو اس ارادے سے لیتاہے کہ اسے تلف کردے گا یعنی واپس نہ کرے گا
، تو اللہ اس کے اپنے مال تلف کردے گا۔( صحیح البخاری) رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مال کے ہوتے ہوئے قرض کی واپسی میں تاخیر کرنازیادتی
ہے۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم) یعنی قرض لے کر ادا کرنے کی قدرت اور استطاعت کے
باوجود ٹال مٹول کرنا او رلاپروائی برتتے ہوئے قرض ادا نہ کرنا ظلم ہے۔
قرض (لین دین ) کی
دستاویز
یہ ایک لاززی امر ہے کہ
قرض (تھوڑا ہو یا زیادہ) کی ستاویز تحریر کی جائے۔ (قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ
اس کا حکم ہے: ‘‘ اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا
معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ
انصاف کے ساتھ لکھے او رلکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے لکھنا
سیکھایا ہے، پس وہ لکھ دے(یعنی شرع او رملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق
پوری دیانت سے ادا کرے) ، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو او
راسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے
وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے نا سمجھ یا
ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہوتو اس کے کارندے کو چاہئے کہ
وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔’’( البقرہ: 282)قرض کی تحریری دستاویز گواہوں کی
موجودگی میں ہونا چاہئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘ او راپنے لوگوں میں سے
دومردوں کو گواہ بنالو ، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں
ہوں(یہ) ان لوگوں میں سے ہو(یعنی قابل اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک
عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلادے ، اور گواہوں کو جب بھی( گواہی کے
لئے ) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی معیاد تک
لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کرلینا اللہ کے نزدیک زیادہ
قرین انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک
میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں
کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں ، اور جب بھی آپس میں
خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے او
رنہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، او راللہ سے
ڈرتے رہو، اور اللہ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے او راللہ ہر چیز کا خوب
جاننے والا ہے۔’’ ( البقرہ: 282)
میت کے ترکہ سے قرض کی
ادائیگی کا حکم
قرض کی ادائیگی ایک لازمی
امر ہے کہ جو کہ بعد از مرگ بھی واجب الادارہتا ہے۔ اس کی ادائیگی میت کے ترکے میں
سے کی جانا چاہئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں
توسب ایک تہائی میں شریک ہوں گے( یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد(ہوگی) جو (وارثوں
کو ) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد ، یہ اللہ کی طرف
سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم وحلم والا ہے۔’’ (النساء:12)
حضرت ابورافعؓ سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے ایک اونٹنی ادھار خریدی۔ جب
صدقے کے اونٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کردو۔ میں
نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ساری اونٹنیاں بہت زیادہ قیمتی
ہیں اور بہت بہتر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی دے دو۔ بہترین آدمی
وہی ہے جو قرض اچھا ادا کرے۔( مسلم) اگر مقروض خود بخود قرض ادا کرتے وقت قرض سے
زیادہ دے تو یہ جائز ہے لیکن اگر قرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط طے کرے کہ میں تجھ
سے زیادہ لوں گا یا قرض بہتر لوں گا تو یہ سود ہوگا او ریہ حرام ہے۔ حضرت علیؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘‘ ہر قرض جو نفع کھینچ کر
لائے ، وہ سود ہے۔’’
( بلوغ المرام ، کتاب البیوع)
قرض کی واپسی کی اہمیت
کااندازہ اس ایمان افروز واقعے سے بخوبی ہوجاناچاہئے۔ حضرت سعد بن اطولؓ کے بھائی
فوت ہوگئے۔ ان کی بیوہ اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کی پہاڑ سی زندگی سامنے نظر آرہی
تھی اور آپؓ کے ہاتھ صرف تین سو اشرفیاں تھیں او رنہ تو اتنی وقعت تھی نہ استطاعت
کہ بھائی کی بیوہ اور بچوں کا بوجھ اٹھا سکتے۔ اب مخمصہ اور پریشانی یہ تھی کہ ان
اشرفیوں کو بچوں کی ضروریات کے لئے سنبھال رکھیں یا ان قرض خواہوں کو ادا کردیں جن
سے بھائی نے ادھار لیا تھا اور ادا نہیں کیا تھا۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس
معاملے کو کیسے سلجھا ئیں ۔ سب کچھ چھوڑ کر اشرفیاں ساتھ لیں اور آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضـر
ہوئے۔ حضرت سعد بن اطولؓ کی الجھن کو سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لمحے کے لئے
بھی سوچ میں نہ پڑے بلکہ فرمایا: ‘‘سعد ، تمہارابھائی جنت میں داخلے میں صرف اس
قرض کی وجہ سے روک دیا گیا ہے کیونکہ کسی آدمی پر قرض ہو اور ادانہ کیا گیا ہو، تو
وہ تب تک جنت میں نہیں جاسکتا جب تک اس بوجھ سے آزادنہ ہوجائے ۔ جاؤ ، پہلے جاکر
بھائی کا قرض ادا کرو۔ رہا یتیموں کی کفالت کامعاملہ، تو وہ اس ذات پر چھوڑ دو جس نے
انہیں یتیم بنایا ہے’’۔
اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے کسی مقروض کی نمازجنازہ اس وقت تک نہ پڑھائی جب تک کہ اس کا قرض ادا
نہ کردیا گیا۔ حضرت ابوفتادہؓ کہتے ہیں، ایک آدمی نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم! اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف
ہوجائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اگر تم قتل کردیئے جاؤ اور صبر
وشکر اور خدا کی رضا کی طلب میں مگن رہو، آگے کی صفوں میں بڑھ چڑھ کر حملے کرو اور
پیچھے نہ ہٹو۔’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے کیا کہا؟ اس نے اپنا
سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے
البتہ قرض معاف نہیں ہوگا۔’’ ( مسلم)
صحابی رسول صلی اللہ علیہ
وسلم حضرت ابودرداءؓ جب جہاد کی گزرگاہوں کے کسی ناکہ پر پہنچتے تو مجاہد ین کو
خطاب کرکے بانک لگاتے ‘‘ اے لوگو! جن کے ذمے قرض باقی ہیں او رانہیں یہ احساس ہو
کہ اگروہ جہاد میں کام آگئے تو ان کے قرض کی ادائیگی نہ ہوسکے گی، تو وہ لوٹ
جائیں۔ اس لئے کہ یہ چیز (یعنی جہاد) انہیں جہنم سے بچانے کے لئے کافی نہ
ہوگی’’۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا ۔ ہم نے اس کو غسل
دیا، خوشبو لگائی او رکفن دیا۔ پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ہم نے
کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! چل کر اس کی نماز جنازہ پڑھائیے ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم چند قدم اٹھائے ، پھر فرمایا: اس پر قرض بھی تھا؟ ہم نے کہا:
دودینار تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگے۔ قرض کی ادائیگی حضرت ابوفتادہؓ نے
اپنے ذمے لے لی۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ حضرت ابوفتادہؓ نے کہا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دو دینار میں ادا کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے پوچھا: ‘‘قرض خواہوں کو دے کر میت کو اس سے بری کرتے ہو؟’’ انہوں نے کہا
‘‘جی ہاں۔’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔( احمد،
ابوداؤد، نسائی ، ابن حاکم او رابی حبان)
اس حدیث میں سے پانچ
باتیں معلوم ہوئیں: پہلی یہ کہ قرض ، خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، ہر حالت میں واجب
الادا ہے ۔ دوسری یہ کہ میت کی طرف سے قرض کی ضمانت درست ہے، تیسری یہ کہ میت کے
حقوق واجبہ مثلاً نماز، روزہ حج، زکوٰۃ اور قرض وغیرہ کو ادا کرنے سے میت کو فائدہ
پہنچتا ہے۔ چوتھی یہ کہ قرض یا دوسرے حقوق العباد جب تک ادا نہ کئے جائیں یا صاحب
حق یا قرض خواہ صاف نہ کردے، یہ کبھی ساقط نہیں ہوتے حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ساقط
نہیں ہوتے ۔ پانچویں یہ کہ قرض ایک بدترین لعنت ہے۔ اول تو قرض لینے سے گریز کیا
جائے لیکن اگر مجبوری کی وجہ سے لے لے تو فوراً ادا کرنے کی فکر کرے اور لاپروائی
سے کام نہ لے۔
جو شخص دنیامیں کسی کا
قرض ادا نہیں کرتا تو قیامت کے روز اس کی نیکیاں قرض خواہوں میں تقسیم کردی جائیں
گی اور قرض خواہوں کے گناہ اس مقروض کے ذمے ڈال دیئے جائیں گے۔لہٰذا ہمیں حتی
الامکان قرض لینے سے اجتناب برتنا چاہئے اور اگر قرض لینے کی نوبت آہی جائے تو حسب
وعدہ واپسی کااہتمام کرناچاہئے۔ اس بات کا خیال رہے کہ ضرورت کے وقت جو آپ کو قرض
دیتا ہے اس کا یہ حق ہے کہ آپ کسی عذر یا بہانے سے ادائیگی میں تاخیر نہ کریں۔
وعدہ خلافی کا ارتکاب کناہ کبیرہ ہے۔ انسان ارادہ کو لے اور نیک نیت ہوتو اللہ
تعالیٰ غیب سے بھی مدد فرماتا ہے۔
قرض ، پریشانیوں اور
دوسری وباؤں سے بچنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل دعا کی تلقین
فرمائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود بھی اس دعا کثرت سے ورد فرماتے تھے:
اللھم انی اعوذبک من الھم
والحزن واعوذبک من العجز و الکسل واعوذبک من غلبۃ الدین وقھر الرجال ۔( ابوداؤد)
(ترجمہ) یا اللہ ! میں فکر او رغم سے آپ کی پناہ مانگتاہوں اور
عاجزی اور سستی سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور بزدلی اوربخل سے آپ کی پناہ مانگتا
ہوں اور قرض کے غالب آجانے اور لوگوں کے مسلط ہوجانے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
28 اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب ،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism