وجاہت مسعود
حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ ‘‘تحریک خلافت نے مسلم لیگ کو کمزور کردیا اور علما کو سیاست میں لاکر انہیں اپنا علیحدہ مقام بنانے کا موقع دیا۔ سیاست اور مذہب کے ا س ملاپ سے برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی ذہنیت بری طرح متاثر ہوئی اور ان میں سیاسی بوجھ اور سیاسی معاملات کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ۔ وہ ہر مسئلہ کو سیاست کے بجائے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنے لگے ۔ اس طرح مسلمان سیاسی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے’’۔
چودھری خلیق الزماں جیسے رہنما نے بھی تحریک خلافت میں علما کے اشتراک کے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ ‘‘ وہ(تحریک خلافت کے رہنما) علما کے ساتھ اشتراک کر کے درحقیقت آگ کھیل رہے ہیں۔ مذہبی رہنما پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ بہالے جائیں گے۔’’ جملہ معترضہ سہی لیکن قیام پاکستان کے فوراً بعد یہی چودھری خلیق الزماں سرد جنگ کے تناظر میں ‘‘اسلامستان ’’ کا جھنڈا اٹھائے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بار بار دورے کرتے تھے۔
1940میں قرار داد پاکستان منظور ہونے تک مسلم لیگ کی سیاست بنیادی طور پر مسلم کمیونٹی کے سیاسی اور آئینی مسائل کے گرد گھومتی تھی لیکن تقسیم ہند کو نصب العین قرار دینے کے بعد مسلم لیگ کی حکمت عملی میں بنیاد ی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک طرف تو قائد اعظم نے جاگیر داروں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا جس کی سب سے بڑی مثال سکندر جناح پیکٹ تھا۔حتیٰ کہ سکندر حیات کو یونینسٹ پارٹی کے طور پر اپنی علیحدہ سیاسی شناخت قائم رکھنے کی اجازت بھی دی گئی ۔ دوسری طرف مسلم لیگ کے جلسوں میں مذہبی لغت کا استعمال بڑھنے لگا۔ کانگریس نے قوم پرست مسلمان علما کی مدد سے 1937میں مسلم رابطہ عوام مہم چلائی تھی جو کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کے علما لچھے دار تقریروں اور فرقہ وارانہ موشگا فیوں کی مدد سے طویل جلسے تو کرسکتے تھے لیکن مسلم عوام اپنی سیاسی قیادت کے لیے تعلیم یافتہ طبقے پر زیادہ اعتماد رکھتے تھے ۔کانگریس نے تعلیم یافتہ مسلمان قیادت کے سیاسی اور آئینی خدشات دور کرنے کی بجائے مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ دوسری طرف مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ اور جاگیردار عام مسلمانوں سےدور تھے انہیں بھی 1943میں رابطہ عام مہم کی ضرورت پیش آئی تو سیاست اور مذہب کا فاصلہ کم ہونے لگا۔
سلیم ایم قریشی نے اپنے مقالہ ‘‘ پاکستان میں مذہب وسیاست ’’ میں لکھا ہے کہ نواب ممدوٹ سرفیروز خان نون اور سردار شوکت حیات جیسے لوگوں کو (جو کسی طور مذہبی نہیں تھے) مذہبی خطابات دیے گئے تھے جیسے ممدوٹ شریف ،دربار سرگودھا شریف وغیرہ تاکہ عام مسلمانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے حامیوں میں بڑے بڑے مشائخ بھی ہیں۔ حتیٰ کہ پیسہ اخبار کے مالک کو ‘‘ دربار صاحب پیسہ اخبار شریف ’’ تک لکھا گیا۔
مذہب کے نام کو استعمال کرنے کی ایک مثال غلام نبی پٹھان (سابق جائنٹ سیکریٹری ،پاکستان مسلم لیگ اور وفاقی وزیر) نے مسجد منزل گاہ سکھر کے حوالے سے بیان کی۔ فرمایا کہ عام سندھی مسلمان ہماری بات سننے پر تیار نہیں تھے ۔ اس پر جی ایم سید منزل گاہ مسجد سکھر وا گزار کرانے کی تدبیر سوجھی ۔ اس پر ایسا ہنگامہ اٹھا کہ سندھی مسلمان ہمیشہ کے لیے کانگریس اور ہندوؤں سے بدظن ہوگئے۔
اس تاریخی حقیقت پر غور کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر عددی تناسب کے اعتبار سے مختلف حالات کا سامنا تھا اور ان علاقوں میں ان کی اجتماعی نفسیات بھی اسی ترتیب سے تشکیل پاتی تھی۔ برطانوی ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے اور ان کی سیاست اور معاشرتی حیثیت غیر مسلم آبادی کے ساتھ مساویانہ تھی مثلاً بنگال ،پنجاب اوربلوچستان وغیرہ ۔بعض علاقوں میں مسلمان اقلیت میں تھے لیکن تاریخی وجوہات کی بنا پر انہیں غیر مسلم آبادی پر معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بالادستی حاصل تھی مثلاً متحدہ صوبہ جات (یوپی) اور مرکزی صوبہ جات( سی پی) وغیرہ۔جنوبی ہندوستانی کے بیشتر حصوں میں مسلمان اقلیت میں تھے اور پسماندہ تھے۔ ریاستوں میں ایک صورت تو یہ تھی کہ مسلم اکثریتی ریاستوں میں مسلم حکمران تھے اور غیر مسلم اکثر یتی ریاستوں میں غیر مسلم حکمران تھے۔ تاہم کچھ ریاستوں میں حکمران اور اس کی رعایا کے عقائد مختلف تھے مثلاً کشمیر میں غیر مسلم ڈوگرہ حکمران اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی۔ دوسری طرف حید ر آباد دکن میں آبادی کی اکثریت غیر مسلم تھا۔ سیاست میں مذہب کا نام استعمال کرنے کا رجحان بنیادی طور پر ان علاقوں میں پایا جاتا تھا جہاں مسلمان اقلیت کو معاشرتی اور معاشی بالادستی حاصل تھی اور اس کا در پر دہ سبب اپنی مراعات یافتہ حیثیت کا تحفظ تھا۔ خاص طور پر حیدرآباد دکن میں ہر نوع کی ریاستی درباری خرابیوں کے اعلیٰ الرغم ایک غیر حقیقی ،غیر تاریخی اور غیر جمہوری مذہبیت کو خصوصی حاصل تھا۔ یہ امر سبب سے خالی نہیں کہ شبیر احمد عثمانی کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا اور وہ نظام حیدر آباد میر عثمان علی کی نسبت ہی سے عثمانی کہلاتے تھے ۔سید ابو اعلیٰ مودودی کا آبائی وطن بھی اور اورنگ آباد(حیدر آباد دکن) ہی تھا۔ مسلم لیگ کے کٹر مذہب پسند رہنما محمد بہادر خان المعروف نواب بہادر یار جنگ بھی حیدر آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ 26دسمبر 1943کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقد کراچی سے بہادر یار جنگ کا خطاب مسلم لیگ کی سیاست میں مذہب کے بڑھتے ہوئے دخل کی واضح نشاندہی کرتا تھا۔ یاد رہے کہ جنرل ضیا الحق نے 12اگست 1983کو اپنی نامزد مجلس شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بہادر یار جنگ کی اس تقریر کے اقتباسات لہک لہک کر سنائے تھے۔
بہادر یار جنگ نے کہا کہ ‘‘ پلاننگ کمیٹی آپ کے لیے جو دستور ی اور سیاسی نظام مرتب کرے گی اس کی بنیادیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر استوار ہوں گی۔ سن لیجئے اور آگاہ ہوجائیے کہ جس سیاست کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر نہیں ہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔( اس پر قائد اعظم نے بڑے خوشی سے میز پر مکہ مار کر فرمایا، تم با لکل درست کہتے ہو’) لیجئے حضرات! قائد اعظم نے میرے اس قول پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔ ہمارے پنڈال سے وہ لوگ اٹھ جائیں جو خدا کے انکار پر اپنے معاشی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔ قرآن کے واضح اور اٹل احکامات میں تحریف واضافہ کر کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور جو روٹی ،کپڑے کے بدلے مسلمان کاضمیر اور ایمان خرید نا چاہتے ہیں’’۔اس کے بعد نواب بہادر یار جنگ قائد اعظم سے مخاطب ہوئے ۔‘‘ قائد اعظم میں نے پاکستان کو اسی طرح سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں ہے تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے’’۔ اس پر قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا ،‘‘ آپ مجھے از وقت کیوں چیلنج دے رہے ہیں؟’’(جاری)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-v/d/2641