New Age Islam
Mon Jun 05 2023, 09:24 PM

Urdu Section ( 29 March 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

OBJECTIVES RESOLUTION AND SECULARISM--PART II قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)


وجاہت مسعود

مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی سیاست جماعت تھی چنانچہ قائد اعظم کی طرف سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد ،مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوؤں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں ۔لیکن قائد اعظم کی کوئی ایسی تقریر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ جس میں انہوں نے ملاؤں کو سیاسی اختیار دینے کی بات کی ہو۔ مثلاً 2نومبر 1941کومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ‘‘آپ ہندؤں اورسکھوں کی بتادیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست ہوگی۔ جس میں ان کو کوئی اختیار ہوگا۔’’

ان افکار کی روشنی میں 11اگست 1947کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے بطور نامزدگی گورنر جنرل ،صدر دستور سازاسمبلی اور صدر مسلم لیگ قائد اعظم کی تقریر ان کی طویل سیاسی زندگی کا تسلسل تھا کیو نکہ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام سے 30برس پہلے تحریک خلافت میں شرکت سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ تحریک خلافت کو سیاسی کی بجائے مذہبی تحریک سمجھتے تھے۔ 11اگست 1947کوان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان میں مغرب کی طرز کا جدید جمہوری نظام رائج ہو گا جس میں ملک کے سارے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے ۔ نیز یہ کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ قائد اعظم کا یہ جملہ کہ ‘‘مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں’’ سیکولرازم کی بہترین تعریف ہے۔ قائد اعظم نے ا س تقریر میں نظر یہ پاکستان بھی بیان کردیا تھا اور وہ  یہ کہ ‘‘ ہمیں چاہئے کہ ہم شہریوں کی خصوصاً عوام اور غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی تمام کوششیں مرتکز کردیں’’ ۔ شہریوں کے معیار زندگی میں مسلسل بہتری ہی جدید او رجمہوری ریاست کا واحد قابل قبول نصب العین ہے۔

ایک ایم زاویہ یہ ہے کہ اپنی اس تاریخی تقریر میں قائد اعظم نے مسلمانوں او رہندوؤں کے لیے ‘کمیونٹی ’ کالفظ استعمال کیا ۔ انہوں نے پاکستان میں ہندوؤں او رمسلمانوں کو ‘نیشن’ قرار نہیں دیا۔ کیو نکہ پاکستان بننے کے بعد قوم کا رتبہ پاکستان کو حاصل تھا چنانچہ پاکستان کے مسلم اور غیر مسلم شہری اس قوم کا حصہ تھے۔ اس ضمن میں پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی گواہی بھی اہم ہے ۔ستمبر 1947میں قائد اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ملاقات میں قائد اعظم نے کہا کہ ‘‘اگر چہ یہ بٹوارہ مذہبی اختلافات کی وجہ سے ہوا ہے لیکن اس تقسیم ہوجانے کے بعد اس پر زور کیوں دیا جائے کہ پاکستان ایک اسلامی حکومت ہے ۔کیو نکہ اگر پاکستان کو باربار اسلامی حکومت نہ کہا جائے تو غیر مسلم باشندے پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں گے’’۔اس پر محمد علی جناح نے کہا ‘‘میں لفظ اسلامی کبھی استعمال نہیں کیا۔ تم ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہو۔ تمہیں بتانا چاہئے کہ میں نے کہا ں ایسا کہا ہے’’۔ سری پرکاش نے کہا کہ ‘‘وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی حکومت ہے’’۔مسٹر جناح نے کہا کہ ‘‘پھر آپ لیاقت علی خان سے نمٹو ۔مجھ سے کیوں جھگڑرہے ہو’’۔ سری پرکاش نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ آپ نے 31اگست کو لاہور میں ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘پاکستان اسلامی ریاست ہے’’۔ اس پر قائد اعظم نے غصے سے کہا ‘تم مجھے اصل بیان دکھاؤ’۔ سری پرکاش لکھتے ہیں کہ میں نے بعد ازاں قائد اعظم کی نشری تقریر کا بہت غور سے مطالعہ کیا۔ واقعی قائد اعظم نے ‘‘اسلامی’’ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ البتہ لفظ مسلم کا پانچ چھ بار اعادہ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے (یعنی سری پرکاش نے) خط لکھ کر قائد اعظم سے معذرت کی۔ قائد اعظم ایک اعلیٰ پائے کے قانون داں تھے اور دونوں لفظوں کا مفہوم بخوبی سمجھتے تھے ۔ مسلم ریاست سے مراد وہ ریاست لی جاتی ہے جہاں مسلمان باشندوں کی اکثریت ہو۔ دوسری طرف اسلامی ریاست اس مملکت کو کہا جاتا ہے جہاں قوانین کی بنیاد اسلامی شریعت ہوں۔ اگر ان دونوں اصطلاحات میں فرق نہ ہوتا تو قائد اعظم نے کہہ دیا ہوتا کہ ‘مسلم ریاست’ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

اس روشنی میں یہ جاننا مشکل نہیں کہ روز نامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین کی روایت کے مطابق قائد اعظم 11اگست کی تقریر کو خواجہ شہاب الدین اور دوسری صف کے بعد مسلم لیگی رہنماؤں نے سنسر کرنے کی کوشش کیوں کی تھی۔ ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی تو انہوں نے ایک دوسرے پہلو سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل اور حید ر آباد  دکن کی مکی جامع مسجد کے امام نیزنظام دکن کے وظیفہ خوار شبیر احمد عثمانی کو آگے کیا گیا۔

شبیر احمد عثمانی ابتدائی طور پر مجلس احرار کے رکن تھے ۔انہو ں نے 1927کے لگ بھگ ‘الشہاب’ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا جس میں موقف اختیار کیا تھا کہ ارتداد  کی سزا موت ہے۔ جب اودھ میں تعلقہ داریوں (جاگیروں ) کا سوال اٹھا تو شبیر احمد عثمانی کا فتویٰ تھا کہ ‘تعلقہ داریوں کی حفاظت میں جان دینا شہادت ہے’۔1930کی دہائی میں ان کے دیوبند کے کانگریس نواز مولویوں سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ اکتوبر 1945میں انہوں نے تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والے علما کی نئی تنظیم جمعیت العلما ئے اسلام کی صدارت قبول کرلی۔ انہو ں نے 46۔1945کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔یہ صاحب پاکستان میں ذمیوں (یعنی غیر مسلم شہریوں ) سے جزیہ وصول کرنے کے حق میں تھے۔ان کی رائے میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو قانون ساز اسمبلیوں یا پالیسی ساز اداروں کے رکن بننے کا حق نہیں تھا اورنہ انہیں ‘کلیدی مناسب ’ پر فائز کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں تکفیر ی سیاست کی لغت میں ‘کلیدی منصب’ کی مبہم لیکن نہایت خطرناک اصطلاح محترم شبیر احمد عثمانی ہی کی دین ہے ۔ شبیر احمد عثمانی کو جون 1947میں مشرقی بنگال کے کوٹا میں سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کارکن منتخب کیا گیا تھا۔

ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد مولوی شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر علی خان نے مل کر جہاد کے لئے ‘‘سر فردشان اسلام’’ نامی عسکری تنظیم بھی تشکیل دی جو مشرقی پنجاب کو فتح کرنے کے علاوہ دہلی کے لال قلعہ پر ہلالی پرچم لہرانے کا خواب بھی دیکھ رہی تھی۔ اس ضمن میں روزنامہ زمیندار نے ایک اشتعال انگیز مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ‘‘غیور مسلم نوجوانو! مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کی تمیز اڑا کر جوق درجوق خدا کی تنظیم میں بھرتی ہوجاؤ’’۔ یہ مضمون اس قدراشتعال انگیز تھا کہ حکومت پنجاب کو بطور سرزنش اس اخبار کی اشاعت دوہفتے کے لیے بند کرنا پڑی۔ گویا شبیر احمد عثمانی کو پاکستان میں غیر ریاستی عسکریت پسندی کا بانی ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔(جاری)

Related Articles:

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-ii/d/2631


Loading..

Loading..