New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:24 PM

Urdu Section ( 2 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Obituary of Fethullah Gülen: A Life Dedicated to Interfaith Understanding and Global Peace فتح اللہ گولن کا انتقال: بین المذاہب تفہیم اور عالمی امن کے لیے وقف تھی ان کی زندگی

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

26 اکتوبر 2024

ایک ترک اسلامی اسکالر، معلم، اور روحانی پیشوا، فتح اللہ گولن، اکتوبر 2024 کو، 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اور اپنے پیچھے بین المذاہب تفہیم، مذہبی رواداری، اور عالمی امن کے لیے اپنی جدوجہد کا ایک عظیم ورثہ چھوڑ گئے۔ کئی دہائیوں سے، گولن متنوع عقائد و نظریات اور مختلف تہذیب و ثقافت کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہے تھے، اور تیزی سے منقسم ہوتی اس دنیا میں، لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تعلیم، تکثیریت اور انسانی خدمت کے لیے ان کی زندگی بھر کی لگن سے، لاتعداد افراد متاثر ہوئے، اور انہوں نے تعلیمی اداروں اور قیام امن کے اقدامات کا ایک عالمی نیٹ ورک قائم کیا، جسے اجتماعی طور پر Hizmet (خدمت) تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Fethullah Gülen (April 27, 1941 – October 2024)

------

ابتدائی زندگی اور روحانی تشکیل

فتح اللہ گولن ترکی کے صوبہ ایرزورم کے چھوٹے سے گاؤں کوروک میں پیدا ہوئے، جہاں ان کی پرورش و پرداخت ایک دیندار مسلم گھرانے میں ہوئی۔ چھوٹی عمر سے ہی، گولن کو اسلامی علوم، صوفی فکر، اور روحانیت میں گہری دلچسپی تھی۔ ان کے ابتدائی روحانی شیوخ میں بڑے بڑے ترک صوفی علماء، اور خاص طور پر سید نرسی کا نام آتا ہے، جن کا امن، رواداری اور خدمت پر زور دینا، گولن کے فلسفے کی بنیاد بن گیا۔ اپنی نوعمری میں ہی، گولن ایک باصلاحیت مبلغ کے طور پر مشہور ہو چکے تھے، اور روحانی ترقی، اخلاقی محاسن اور سماجی ذمہ داری پر زور دینے کے لیے جانے جاتے تھے۔

اپنی بیسویں برس کے اوائل میں، گولن ترکی کے مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ میں ایک باضابطہ مبلغ کے طور پر مقرر کر دیے گئے، اور جلد ہی اسلام کے بارے میں اپنے منفرد اور ترقی پسند نقطہ نظر کے لیے مشہور ہونے لگے، جس میں محبت، رواداری، اور مکالمے کو دین کے مرکزی اصولوں کی حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اسلام کو ہمدردی اور امن کے مذہب کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا، جو جدیدیت اور سائنسی ترقی کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا تھا۔

مذہبی سرگرمی اور تکثیریت پر زور

اسلام کے بارے میں گولن کا نقطہ نظر، تکثیریت اور باہمی احترام کے عزم سے بھرپور تھا۔ ان کے خیال میں، مذہبی عقائد کا مشترکہ مقصد انسانی وقار، اخلاقی محاسن، اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ گولن کا ماننا تھا کہ اگرچہ دین و ایمان ایک انتہائی ذاتی معاملہ ہے، لیکن اسے مختلف عقائد و نظریات کے حامل لوگوں کے درمیان ایک مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کے لیے بھی، ایک مرکز اتحاد بنایا جانا چاہیے۔ تکثیری قدروں کے فروغ کے لیے ان کا عزم و حوصلہ ان کی زندگی کا بنیادی مقصد بن گیا، کیونکہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو تقسیم پر مکالمے کو ترجیح دینے اور اتحاد کے عالمی احساس کو اپنانے کی تعلیم دی۔

1980 اور 1990 کی دہائیوں میں، گولن ترکی کے ایک انتہائی بااثر مذہبی رہنما بن کر ابھرے، جو اپنی تقریروں، تحریروں، اور اسلام کی جامع، غیر فرقہ وارانہ تفہیم کی حمایت کے لیے جانے جاتے تھے۔ اس دور میں، انہوں نے اس عالمگیر دنیا میں اسلام کے کردار کے حوالے سے ایک محتاط نظریہ پیش کیا، جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور دوسرے عقائد کے لوگ، باہمی احترام کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ فلسفہ Hizmet تحریک کا مستقبل طے کرنے والا تھا، جس میں تمام پیروکاروں کو تعلیمی ادارے اور مکالمے کے پلیٹ فارم قائم کرنے کی ترغیب دی گئی، جہاں ہر قسم کے پس منظر کے لوگوں کا استقبال کیا جائے۔

Hizmet تحریک: تعلیم اور عالمی امن

فتح اللہ گولن کی اس دنیا کے لیے سب سے بڑی خدمت، شاید وہ تعلیمی نیٹ ورک ہے، جو Hizmet (یا "خدمت") تحریک کے بطن سے معرض وجود میں آیا۔ گولن کا ماننا تھا کہ تعلیم جہالت، تعصب اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو اس بات پر زور دیا کہ وہ سیکولر اور اعلیٰ معیار کے اسکول قائم کریں، جہاں سے نوجوان ایک بہترین نقطہ نظر کے حامل افراد بن کر نکلیں، جو ثقافتی تفہیم کے ساتھ ساتھ سائنس، اخلاقیات اور تنقیدی سوچ سے بھی لیس ہوں۔

کئی دہائیوں کے عرصے میں، گولن سے متاثر اسکول دنیا کے 120 سے زیادہ ممالک میں پھیل گئے، جن میں وسطی ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یورپ میں ان کی تعداد قابل ذکر ہے۔ روایتی مذہبی اسکولوں کے برعکس، Hizmet اداروں نے ایک سیکولر نصاب کو اپنایا، جس کی بدولت متنوع پس منظر کے طلباء کے اندر ہمدردی، رواداری اور سماجی ذمہ داری کی قدروں کو فروغ دیتے ہوئے، جدید دنیا میں کامیاب ہونے کا ہنر بھی سکھایا گیا۔ ان میں سے بہت سے اسکولوں نے ایسے پروگرام بھی جاری کیے، جن میں تعلیم اور مکالمے کے ذریعے امن عالم کے گولن کے نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے ثقافتی تبادلے اور بین المذاہب تفہیم پر زور دیا گیا۔

رسمی تعلیم کے علاوہ، تحریک Hizmet نے سماجی ذمہ داری اور خدمت خلق کو دین و ایمان کے لازمی اجزاء کے طور پر فروغ دیا۔ انسانیت نواز اقدامات کے ذریعے، Hizmet کے پیروکاروں نے آفات سے نجات، غربت کے خاتمے، اور دنیا بھر میں دیگر انسانی خدمات کے میدان میں قابل ذکر کارنامہ انجام دیا۔ انسانیت کی خدمت کرنے کا یہ عزم مذہبی یا ثقافتی حدود سے بالا تر تھا، جس سے گولن کے اس بنیادی عقیدے کی عکاسی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خدمت ایک عالمی فریضہ ہے، جو کسی ایک عقیدے یا قومی شناخت سے ماورا ہے۔

بین المذاہب مکالمے کا علم بردار

بین المذاہب مکالمے کے پرجوش حامی کے طور پر، فتح اللہ گولن نے ایک مزید روادار اور ہم آہنگ دنیا کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ مذاہب کے درمیان مکالمہ ہمدردی اور افہام و تفہیم کے گہرے احساس کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے، گولن نے کھلے مکالمے کا کلچر قائم کرنے کی کوشش کی، اور اپنے پیروکاروں کو مختلف مذہبی روایات کے لوگوں کے ساتھ بامعنی طور پر مشغول ہونے کی ترغیب دی۔ بین المذاہب کام کے لیے ان کے عزم و حوصلے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا، جو متعدد پلیٹ فارموں اور اقدامات سے ظاہر ہے، جس کے نتیجے میں متنوع پس منظر کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔

1998 میں، گولن نے پوپ جان پال دوم سے ملاقات کی، جو مسلم-عیسائی تعلقات کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا، جس سے مذہبی تقسیم کو ختم کرنے کی ان کی لگن اجاگر ہوتی ہے۔ اس ملاقات نے اسی طرح کے دیگر بین المذاہب اقدامات کو جنم دیا، اور واشنگٹن، ڈی سی میں رومی فورم، ترکی میں جرنلسٹس اینڈ رائٹرز فاؤنڈیشن، اور Hizmet کے زیر اہتمام دیگر پلیٹ فارموں کے ذریعے دنیا بھر میں بین المذاہب مکالمے کو فروغ ملا۔ یہ ادارے مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لیے کانفرنسوں، مکالموں اور اشاعتوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں، جس سے گولن کی امن اور افہام و تفہیم کے لیے مضبوط عزم کا اظہار ہوتا ہے۔

گولن کی بین المذاہب کوششوں کو علمی حلقوں میں بھی حمایت حاصل ہوئی، جہاں ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا گیا۔ انہیں مسلم دنیا میں بین المذاہب افہام و تفہیم کا علمبردار تسلیم کیا گیا، اور رواداری، مکالمے اور عدم تشدد پر ان کی تحریروں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، اور عالمی سطح پر یونیورسٹیوں میں پڑھایا گیا۔ گولن کا پیغام تمام پس منظر کے لوگوں کے درمیان اب بھی زندہ ہے، جس سے اس عقیدے کی عکاسی ہوتی ہے کہ مذہب کا استعمال لوگوں کو ہمدردی اور مشترکہ مقصد کے ساتھ اکٹھا کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔

امن اور رواداری کا نظریہ

اپنی پوری زندگی، فتح اللہ گولن نے اسلام کے ایک ایسے نظریے کو فروغ دیا، جس میں امن اور مکالمے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیمات میں "عظیم تر جہاد"، یعنی اپنی انا پر قابو پانے اور صبر، عاجزی، اور بخشش و درگزر جیسی خوبیوں کی پیداوار کے لیے قلبی اور روحانی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا۔ گولن کا ماننا تھا کہ افراد تنازعات کے ذریعے نہیں بلکہ ذاتی محاسن اور اخلاقی خوبیوں کے ذریعے ہی، معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ان تنازعات اور چیلنجوں کے باوجود، جن کا انہیں سامنا تھا - خاص طور پر ترک حکومت کے ساتھ کشمکش، جس نے ان پر اور ان کی تحریک پر سیاسی مداخلت کا الزام لگایا تھا - گولن ہمیشہ سیاسی معاملات میں اپنی کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کرتے رہے، اور اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ Hizmet کا مشن صرف اور صرف تعلیم اور انسان دوستی کا فروغ ہے۔ ترک حکومت کے الزامات، 2016 میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد عروج پر پہنچ گئے، جس کے بعد گولن، جنہوں نے بغاوت میں کسی بھی کردار سے انکار کیا، کو امریکہ جلاوطن کر دیا گیا۔ ان چیلنجوں کے باوجود، گولن کی فکر ان لوگوں کو متاثر کرتی رہی، جو امن اور افہام و تفہیم کے قیام میں ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے۔

عقیدے اور اتحاد کی ایک پائیدار میراث

فتح اللہ گولن کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے اپنی زندگی بین المذاہب افہام و تفہیم، تعلیمی اصلاحات، اور پرامن بقائے باہمی کے لیے وقف کر دی۔ ان کی تعلیمات، دنیا بھر کے لوگوں کو ہمدردی، عاجزی اور دوسروں کی خدمت پر مبنی معاشرے کے قیام کی ترغیب دیتی رہتی ہیں۔ Hizmet تحریک کے اسکولوں، انسانیت نواز اقدامات، اور بین المذاہب پلیٹ فارموں کے ذریعے، گولن کے نظریے نے مکالمے، افہام و تفہیم اور اتحاد کے لیے پائیدار مواقع پیدا کیے ہیں۔

جیسا کہ آج دنیا کو امن اور رواداری کو فروغ دینے میں پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے، گولن کی زندگی اس بات کی ایک مضبوط یاد دہانی ہے کہ تعلیم، ہمدردی، اور مکالمہ، ایک ہم آہنگی اور جامع معاشرے کے حصول کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ ان کی میراث - ان الفاظ میں سمائی ہوئی ہے، جو وہ اکثر اپنے پیروکاروں کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے - جن میں اختلافات سے بالاتر ہونے اور مشترکہ اقدار میں ایک نقطہ اتحاد تلاش کرنے کی بات کی گئی ہے: "حقیقی انسانی اقدار عالمگیر ہیں۔ آئیے ہمدردی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑیں، کیونکہ ہم میں سے ہر ایک میں الوہیت کی چنگاری موجود ہے۔"

گولن کے انتقال سے ان لوگوں کے دلوں میں ایک گہرے خلا کا احساس پیدا ہو گیا ہے، جنہوں نے ان کی تعلیمات پر عمل کیا، اور بین المذاہب افہام و تفہیم کے لیے ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے۔ تاہم، ان کی زندگی بھر کی خدمات اس تحریک میں زندہ رہیں گی جسے انہوں نے کھڑا کیا، اور ان بے شمار افراد میں جو ان کے امن، خدمت اور عالمی رفاقت کے پیغام سے متاثر ہوئے ہیں۔

-----------------

English Article: Obituary of Fethullah Gülen: A Life Dedicated to Interfaith Understanding and Global Peace

URL: https://newageislam.com/urdu-section/obituary-fethullah-gulen-interfaith-global-peace/d/133604

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..