نصرت ظہیر
6 جولائی، 2016
میں ایک برائے نام، عام سا، معمولی مسلمان ہوں تارشی ،اس لیے میں تم سے شرمندہ ہوں!
شرمندہ ہوں تمہارے ہولناک قتل پر جو مسلمانوں نے کیا ہے ان مسلمانوں نے جو بہت دور کے رشتے سے ہی سہی مگر میرے بھائی ہیں!
واہ، کیا مہذب طریقہ استعمال کیا ہے میرے بھائیوں نے تمہیں قتل کرنے کا ! بے رحم سے بے رحم قسائی بھی سن لے تو سن کر کانپ اٹھے!
میں شرمندہ ہوں تم سے ،تمہاے شریف باپ سے ، تمہاری معصوم ماں سے، تمہارے بھائیوں بہنوں سے جو تڑپ رہے ہیں ، غم سے، غصے سے، بے بسی سے!
میں شرمندہوں تارشی کیونکہ میں چار بیٹیوں کا باپ ہوں۔ میری ایک بیٹی ملک سے باہر پڑھاتی ہے۔ ان دنوں عید منانے کےلئے وطن آئی ہوئی ہے۔ کتناخوش تھا میں او رمیری بیوی اور میری باقی تین بیٹیاں اس کے آنے سے ۔ کیسے چمک رہے تھے ان کے دل نشیں چہرے ۔ کسی دمک رہی تھیں ان کی پیشانیاں ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے عرصہ بعد وطن آنے پر اپنے والد کے ساتھ کھنچوائی گئی تصویر میں تم نظر آرہی ہو۔
آج جب اخبار میں تمہاری آخری فون کا ل کا احوال پڑھا، اور یہ معلوم ہواکہ تم دو دوستوں کے ساتھ ایک غسل خانے میں چھپ کر موبائل فون سے وہ کال کررہی تھیں اور تم نے اپنے والد کو یہ بتایا تھا کہ ‘‘وہ لوگ’’ ایک ایک کرکے تمہیں بھی جان سے مار ڈالیں گے تو دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ تمہارے دو مسلمان دوستوں نے تمہیں بچانے کی کوشش میں اپنی گردنیں قاتلوں کے آگے جھکادیں ۔ ان لوگوں نے چاقو چھری سے تمہارے گلے کاٹے ، ان گلوں سے بہنے والی موج خوں وہیں ڈھاکہ کے اس ہوٹل میں بہی ہوگی، ہندو خون مسلم خون میں مل گیا ہوگا ، لیکن وہ موج خوں میرے گھر تک آگئی ہے تارشی۔ اپنی بیٹیوں کے چہرے دیکھتاہوں تو لگتا ہے کوئی تمہارا خون ان کے چہروں پر مل گیا ہے۔
تارشی میری بیٹی، میں رو رہاہوں مگرمیری آ نکھیں سوکھ چکی ہیں۔ میں تڑپ رہا ہوں مگر کسی کو یہ تڑپ دکھائی نہیں دیتی۔ میں چیخ رہا ہوں مگر ان چیخوں کی آواز میرے گلے میں گھٹ کر رہ گئی ہے ۔ بار بار بے خیالی میں گلے پر ہاتھ پھیرتا ہوں او راسے ثابت و سالم پاکر مزید شرمندہ ہوجاتاہوں ! اور میری یہ شرمندگی آج کی نہیں صدیوں پہلے کی ہے بیٹی۔
میں تب بھی شرمندہ ہوا تھا جب میں چار پانچ سال کا تھا اور میرے والد مرحوم نے ہم بھائی بہنوں کو ‘ سیدہ کالال’ پڑھ کر سنایا تھا ۔ تب پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے لگ بھگ پورے خاندان کےبھوکے پیاسے گلوں کو تیز دھار والے ہتھیار وں سے ذبح کرنے والے کوئی اور نہیں میرے ہی ہم مذہب تھے ۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے تھے اور رسول کے پیاروں کی گردنیں کاٹ کر خوش ہوتے تھے۔
میں اس وقت بھی شرمندہ ہوا تھا جب ایک ہم مذہب مغل بادشاہ کے بارے میں ابن انشا کا یہ جملہ پڑھا تھا کہ : ‘‘بچوّ اورنگ زیب بادشاہ وہ بادشاہ تھا جس نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا!’’
میرا سر اس روز بھی شرمندگی سے جھگ گیا تھا جب مجھے اپنی ماں سے پہلی بات یہ معلوم ہوا کہ اس ملک کو دو قوموں میں تقسیم کرنے والے وہ لوگ میرے ہم مذہب تھے جنہوں نے مسلم دشمن طاقتوں کا آلۂ کار بن کر ہجرت کے نام پرکچھ ایسی ہڑبونگ مچوائی کہ اس لاکھوں ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں کے گلے کاٹ دیئے گئے ۔ ان کے لہو کے چھینٹے مجھے آج بھی اپنے دامن پر محسوس ہوتے ہیں۔ تھوڑا بہت قرار اپنے والدین کی حمّیت کو یاد کر کے آجاتا ہے، جنہوں نے ہندوستان کے کروڑوں مسلم والدین کی طرح ہجرت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور جن کی او لادیں ہزار انصافیوں ، ظلم و جبر اور سوتیلے سلوک کے باوجود آج بھی آئینی او رجمہوری برابری کے احساس کے ساتھ عزت و آبرو کی زندگی گزاررہی ہیں ۔ یہ ان ہی کی بدولت ہے کہ میں آج سارے جہاں کے سب سے اچھے ملک میں پوری اکڑ سےجی رہا ہوں، جس کو چاہتا ہوں ، مسندِ اقتدار پر بٹھا دیتاہوں ، اور اس کی چاہے کرسی کھینچ لیتا ہوں ۔
ورنہ جس ملک کے لیے یہ سب قتل و غارت گری ہوئی تھی وہاں اب تک دیوبندی مجھے بریلوی کہہ کر مار ڈالتے ، اہل حدیث او روہابی مجھے شیعہ مان کر بم سے اڑادیتے ،لشکر جھنگوی والے مجھے قادیانی سمجھ کر میرا خون پی چکے ہوتے۔
میں ان دنوں بھی شرمسار ہوا تھا جب جماعت اسلامی اوراس کے ہم نوا پاکستانی فوجیوں نے آزادی چاہنے والے بنگالی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے، ان کی بہو بیٹیوں کی آبرو ریزی کی تھی، لاکھوں کو قتل کرایا تھا او ران کے دانش وروں کو گولیوں سے بھون دیا تھا ۔
میرا سر تب بھی ندامت کے احساس سے جھکا تھا جب مین ہٹن کی عمارتوں میں ہزاروں انسانوں کے جسم خاک ہوگئے تھے،جب پشاور میں سیکڑوں اسکولی بچوں کو طالبانی درندوں نے چیر پھاڑ ڈالا تھا، جب پاکستانی مسجدوں میں سجدہ ریز نمازیوں کو مسلکی وحشیوں نے بھون ڈالا تھا!
او راب تو یہ ایک معمول بن گیا ہے ۔ ہر روز کہیں نہ کہیں ...... کم سن لڑکوں کو ستّر حوروں کے لالچ کی جنسی بیماریوں میں مبتلا کرنے والےمذہب کے وحشی ٹھیکہ دار معصوم ہم مذہبوں کو ناگہانی موت کی سزا دے دیتےہیں او ر ہر روز میرا سر شرم سے جھک جاتاہے!
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس سب کے لیے میں بھی ذمہ دار ہوں۔ اور جب گہرائی سے غور کرتا ہوں تو پاتاہوں کہ اصل گنہگار نہ سہی، اصل گنہگار کا مددگار میں یقیناً ہوں۔ او رآج سےنہیں صدیوں سے میں یہی کرتا آیاہوں۔
میں ہی ہوں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کو کوفے میں بلایا تھا ۔ میں ہی ہوں جس کی پر اسرار خاموشی نےیزید کو وہ سب کرگزرنے کا حوصلہ دیاجو کوئی اور نہیں کرسکتا تھا! میں ہی ہوں جس نے چپ رہ کر صوفی سرمد کا سر کٹ جانے دیا۔ میں ہی ہوں جس کی خود کو محفوظ فاصلے پررکھنے کی عادت نے مذہب کے نام پر ملکوں کے بٹوارے ہوجانے دیے۔ میں ہی ہو ں جس نے ہاتھوں میں ڈنڈے نہیں اٹھائے اور سنگھیوں اور جماعتوں کے جھنڈے بلند ہوتے گئے ۔
یقیناً وہ میں ہو ۔
اور میں ایسا ہی رہوں گا۔
موجِ خوں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر تک آگئی ہے اور ان کی چوکھٹ تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔
مگر میں اب بھی خاموش ہوں اور خاموش ہی رہوں گا۔
ہاں میرے رہنما ضرور آواز اٹھائیں گے ۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ کہیں مسلم پرسنل لازد میں نہ آجائے۔ کہیں مسلمان عورتوں کو شادی ، بیاہ ،طلاق، خلع، نان نفقے، وراثت او رملکیت کےمعاملوں میں کوئی رعایت نہ مل جائے او رمرد مسلم کا نسائیت پر تسلط کا کوئی معمولی سا حق بھی محدود ہوکر نہ رہ جائے۔
کل عید ہے، سوئیوں والی عید۔ شیرینی والی عید۔ گلے ملنے والی عید۔ او رمیری سمجھ میں نہیں آرہا ہے تارشی..... کہ کس دل جگر سے اپنی بچیوں کو عید کی مبارک باد دوں ۔ پتہ نہیں ان کے چہروں پر وہ چمک دکھائی دے گی یا نہیں؟ ابھی تو تمہاری چتا کی راکھ بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ ابھی تو تمہارے لیے جان دینے والے مسلمانوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہیں ہوپائی !۔
6 جولائی ، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: