ارشد عالم، نیو ایج اسلام
31 مئی 2022
اگر وہ توہین
رسالت کی مرتکب ہے، تو سب سے بڑا مجرم صحیح بخاری ہے ۔
اہم نکات:
1. قرآن اور پیغمبر محمد کے
بارے میں بی جے پی کے ترجمان کے ایک بیان نے مسلمانوں کے ایک طبقے کو مشتعل کردیا ہے
2. مسلمانوں نے اس کے خلاف
مختلف ریاستوں میں متعدد ایف آئی آر درج کرائی ہیں
3. کچھ لوگوں نے اس پر توہین
رسالت کا الزام لگایا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے
4. یہ طرزِ عمل مسلمانوں کے
کسی کام کا نہیں ۔ انہیں اپنی فقہ کے کے کچھ حصوں کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کرنے کی
ضرورت ہے ۔ ورنہ ان سے ایسے سوالات بار بار پوچھے جائیں گے ۔
-----
Nupur
Sharma/ Pic Credit: ANI
------
مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی
کی ترجمان نوپور شرما کے ایک بیان سے خاصا ناراض ہے جو اس نے ٹیلی ویژن پر ایک مباحثے
کے دوران دیا ۔ ویڈیو میں اس نے طنزیہ مزاج میں یہ کہا کہ میں اسلام کا مذاق بھی اڑا
سکتی ہوں ۔ اس کے بعد وہ اپنے مخالف تسلیم رحمانی سے کہتی ہے کہ تمہارے مذہب میں گھوڑے
اڑتے ہیں (یہاں گھوڑے سے مراد براق ہے جس پر مسلمانوں کے پیغمبر نے مبینہ طور پر آسمانوں
کی سیر کی تھی) اور قرآن کے مطابق زمین مسطح ہے اور پیغمبر نے چھ سال کی کمسن لڑکی
سے شادی کی اور جب وہ نو سال کی ہوئی تو اس کی تکمیل کی ۔ پیغمبر کے بارے میں اس آخری
تبصرہ نے نوپور شرما کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے خلاف کچھ ریاستوں میں مسلمانوں
کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ اس نے یہ بھی دعویٰ
کیا ہے کہ اب مجھے پیغمبر اسلام سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا کے ذریعے جان سے مارنے
اور میری عصمت دری کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے خلاف کسی بھی قسم کی بہتان تراشی توہین رسالت ہے اور یہ اسلام کا ایک
واضح موقف ہے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا صرف موت ہے ۔ لہذا، اس میں کوئی حیرانی
کی بات نہیں ہے کہ نوپور شرما جیسا انسان بھی، جسے ملک کی سب سے طاقتور پارٹی کی حمایت
حاصل ہے، پریشان اور کمزور محسوس کرے ۔
ہاں اس بات میں کچھ دم ہے
کہ شاید اسے اپنے بیان میں نرمی برتنی چاہیے تھی۔ ملک میں فرقہ وارانہ صورتحال واضح
طور پر بگڑی ہوئی ہے اور یہ عوامی ٹیلی ویژن پر دئے گئے اس طرح کے بیانات کی بدولت
ہے ۔ مزید برآں، حکمراں جماعت کی ترجمان کی حیثیت سے، اسے زیادہ ذمہ داری سے کام لینا
چاہیے تھا اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، اگر چہ اسے مشتعل ہی کیوں نہ کیا گیا
ہو ۔ لیکن اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اس کے بیان سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں،
مسلمانوں کو اپنا احتجاج درج کرانے کا کوئی بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا ۔ وہ
بیانات جاری کر سکتے تھے کہ اس پورے معاملے پر ہمارا موقف یہ ہے ۔ متعدد ایف آئی آر
درج کرکے، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز دھمکیاں جاری کرکے، وہ پوری دنیا کے سامنے اپنی
عدم برداشت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ ان کا غصہ صرف نوپور شرما پر نہیں ہے، بلکہ ان
(مسلمانوں اور ہندوؤں) پر بھی ہے جنہوں نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے احتیاط اور صبر
و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے ۔ اعظم گڑھ کے شبلی کالج کی طلبہ یونین کے صدر
عبدالرحمٰن مجمع عام میں یہ کہتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں کہ جب نبیﷺ کی عزت کی حفاظت
کی بات آئے گی تو مسلمان کروڑوں ہندوؤں کے سر اپنے پیروں تلے روندنے سے بھی دریغ نہیں
کریں گے۔ ہجوم نے یہ نعرہ بھی لگایا "گستاخ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا
سر تن سے جدا ۔ اس طرح کے رد عمل کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا جس کا خمیازہ ملک کے عام
مسلمانوں کو بھگتنا ہوگا ۔
لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ
ہمیں ’مسلمانوں کو تکلیف‘ کی نوعیت کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے ۔ کیا نوپور شرما
نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو مسلمانوں کے لیے غلط یا نامعلوم ہے؟ یا ایسا ہے کہ مسلمان
یہ نہیں چاہتے کہ ان کے مذہب کی کچھ چیزیں زیر بحث آئیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
آخری بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا موضوع مسلمانوں کے درمیان کچھ بے چینی کا
سبب رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کی شادی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی، اور کچھ
لوگوں نے مختلف انداز میں آپ کی عمر 11 یا 16 یا 19 بتائی ہے ۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں
کہ آپ کی شادی بالغ ہونے کے بعد ہوئی ہے (جیسے جاوید احمد غامدی) تو وہ بنیادی طور
پر جدیدیت کے دباؤ میں آکر ایسا کہہ رہے ہیں ۔ لیکن بخاری جیسے محدثین پر ایسا کرنے
کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ کہ عائشہ رضہ اللہ عنہا
کی شادی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ہوئی جب آپ چھ سال کی تھیں اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے نو سال کی عمر میں اس عقد نکاح کی تکمیل کی ۔ لہٰذا، اگر مسلمان یہ کہہ
رہے ہیں کہ نوپور شرما نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے، تو انہیں یہ بھی کہنا چاہیے
کہ اس تناظر میں سب سے پہلے گستاخ خود بخاری تھے ۔
مسلمانوں نے حدیث کو ایک صحیفہ
کے درجے تک پہنچا دیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا مجموعے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی وفات کے ڈھائی صدی بعد مرتب کیے گئے ۔ کوئی بھی مسلمان آسانی سے کہہ سکتا
ہے کہ احادیث کے یہ مجموعے حقیقت سے زیادہ افسانے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے
ان روایات کو جمع کرنے کے سخت اور پیچیدہ طریقے کار سمجھا کر اس سے لپٹے ہوئے ہیں
۔ مختلف مجموعوں میں موجود بعض احادیث کو دیکھ کر وہ خود تو شرمندہ ہیں لیکن انہیں
جرأت کے ساتھ رد کرنے کی ہمت ان کے اندر نہیں ہے ۔ اور جب کوئی ان چبھتے ہوئے حقائق
کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ منطقی استدلال کے بجائے بالعموم یا تو بحث ہی چھوڑ دیتے ہیں
یا یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ نوپور شرما نے صرف وہی
کہا جو ہمارے مذہبی لٹریچر میں لکھا ہوا ہے، اس نے کچھ بھی اپنی طرف سے نہیں کہا ہے۔
کیا مسلمانوں کو اس لیے تکلیف ہوتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے یا وہ اس لیے دکھی اور
غصے میں ہیں کہ ان کے پاس اس قسم کے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب نہیں ہیں؟
میرا خیال ہے کہ ان کے پاس کوئی
جواب ہی نہیں ہے ۔ اس کا نوپور کی ہندو شناخت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر کوئی مسلمان
بھی ایسی بات کرتا تو نتیجہ وہی نکلنا تھا ۔ حال ہی میں، ایک ہندوستانی ٹی وی پر کچھ
سابق مسلمانوں اور اسلامی اسکالروں کے درمیان بحث ہوئی۔ اس بحث میں بھی ہم نے نام نہاد
اسلامی اسکالروں کی طرف سے وہی رویہ دیکھا جو سابق مسلمانوں کے سوالات کے جواب دینے
سے قاصر تھے ۔ اور یہی مسئلے کی جڑ ہے ۔ اسلامی اسکالروں اور بالعموم مسلمانوں کے پاس
بعض ایسے سوالات کے جوابات نہیں ہیں جو بار بار اٹھائے جاتے رہیں گے ۔ سوال صرف عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا ہی نہیں بلکہ سوال قرآن کی ان بعض آیات کا بھی ہے جن
میں کافر پر تشدد کی بات کی گئی ہے، جسے خود مسلم اصلاح پسندوں نے اٹھایا ہے ۔ لیکن
سنجیدگی سے بحث کرنے کے بجائے، قدامت پرست ایسی کسی بھی بحث کو روک دیتے ہیں اور یہ
دیکھا گیا ہے کہ اصلاح پسند یا تو چپ کرا دیے جاتے ہیں یا جلاوطن کر دیے جاتے ہیں
۔
اور کیونکہ وہ بعض سوالات
کا جواب نہیں دے سکتے؛ اس لیے مسلمان سمجھتے ہیں کہ دل آزاری اور مظلومیت کا رونا ہی
بہتر ہے ۔ اس سے وہ مسائل حل نہیں ہو سکتے جن کا انہیں سامنا ہے ۔ مزید یہ کہ مسلمان
خود اسلامی صحیفے کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون
واضح ہے کہ کم عمری کی لڑکیوں سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن آج کوئی بھی مسلمان
اپنی اس بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہے گا جو ابھی بچی ہے ۔ لہذا قوم مسلم کے اندر صحیفے
کی تعلیم اور مسلمانوں کے معمولات کے درمیان پہلے سے ہی ایک خلیج موجود ہے ۔ اس سے
ایک عام مسلمان کی سوچ میں ایک خاص قسم کا انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ اس کو حل کرنے کا
واحد طریقہ یہ ہے کہ یہ واضح طور پر بیان کیا جائے کہ صحیفے کے بعض پہلو فرسودہ ہو
چکے ہیں اور عصر حاضر کے تناظر میں اب ان کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اگر مسلمان ایسا کرنے
کی ہمت کر پاتے ہیں تو نوپور شرما جیسے لوگوں کے پاس مسلم مذہب پر کسی بھی طرح کا اعتراض
کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی ۔
English Article: Nupur Sharma Only Stated What is Written in Hadith;
Why Are Muslims So Upset?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism