New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 11:03 PM

Urdu Section ( 27 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Nonviolent Spiritual Jihad: The Nursi Model of Struggle 'غیر متشدد روحانی جہاد: جدوجہد کا نورسی طریقہ؛ عصری مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک نمونہ عمل

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 ذیلی عنوان: حالیہ فلسطین تنازعہ نے اس بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ تشدد کی مخالفت کا اسلامی طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ یہ کتاب ہنگامی تشدد کی صورت میں اسلام کی عدم تشدد کی تعلیمات پر مبنی حل پیش کرتی ہے۔

 اہم نکات

1.       یہ کتاب غیر متشدد جہاد پر روشنی ڈالتی ہے، جس کا راستہ، سعید نورسی نے پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانی معاشرے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی مخالفت میں، اختیار کیا تھا۔

2.       کتاب یہ بتاتی ہے کہ روحانی جہاد مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کافی و وافی ہے۔

3.       نرسی نے عسکریت پسندانہ طریقے اختیار کرنے کے بجائے روحانیت، اور نت نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسلام کی تعبیرِ نو کو اہمیت دی ہے۔

مصنف: صالح سائلگن

 ·   ناشر ‏ : Cascade Books (21 جنوری 2019)

 ·    زبان ‏: انگریزی

 ·    پیپر بیک ‏ : 148 صفحات

 ·    آئی ایس بی این-10 ‏ : 1532657552

 قیمت: 1453 روپے

 حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد، اس بارے میں بہت سے ایسے سوالات اٹھائے گئے کہ مقدس جہاد کے بغیر حملہ آور قوت کو پسپا کرنے کا اسلامی طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ تشدد کے سد باب کے حوالے سے علمی خلا نے مسلمانوں میں کافی الجھن پیدا کر دی ہے۔ ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے صالح سائلگانی کی کتاب، جس کا موضوع بدیع الزمان سعید نرسی کی حیات و تعلیمات ہے، انتہائی اہم ہے۔

 آج عوامی اور میڈیا کی سطح پر اسلام کے خلاف بہت سی مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ اسلامو فوبیا اور پوری دنیا کے جاہل مسلمانوں کی مذموم سرگرمیاں ہیں۔ کتاب '(book 'An Islamic Jihad of Nonviolence: Said Nursi's Model) عدم تشدد کا اسلامی جہاد: سعید نورسی ماڈل') میں، اس سلسلے میں پیش کیے جانے والے تین اہم ترین دلائل کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بدیع الزمان سعید نرسی کی حیات و خدمات پر خصوصی توجہ کے ساتھ، اسلام کی پر امن جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مخالفین کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ ایسا کہنے والے، بعض قرآنی آیات اور احادیث کو بطور دلیل پیش کریں گے۔ وہ مزید یہ کہیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لوگوں کو جنگوں کے لیے بلایا اور بہ نفس نفیس خود ان میں شرکت بھی کی۔ اور اس کی مثال میں وہ ان مظالم کا حوالہ پیش کریں گے جو آج اسلام کے نام پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ اِسی بات پر اڑے رہیں گے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔

 دوسرا الزام یہ ہے کہ اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے، جس میں روحانی اور سماجی امور، سطحی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دلیل سیاسی اسلام کے اس نظریے کی مرہون منت ہے جسے کچھ مسلمانوں نے 20ویں صدی میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ سیکولر ماحول میں اسلام کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ ان کی دلیل کی بنیاد اس بات پر ہے کہ، اللہ جیسی زندگی گزارنے کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے، وہ اسی معاشرے میں ممکن ہے جس میں شریعت کا قانون نافذ العمل ہو۔ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ بھی یہی مانتا ہے۔

 ان تینوں دلائل کا جواب اسلامی اسکالر بدیع الزماں سعید نورسی (1960-1877) کی زندگی ہے۔ نورسی ایک کرشماتی اور روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کا زوال اور جدید ترکی کے عروج کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کر چکے تھے۔ اس زمانے میں ترکی کی نئی حکومت مذہبی تعلیمات اور روحانیت کی دعوت دینے والے اداروں کی سرکوبی میں لگی ہوئی تھی۔ نورسی نے وہاں مذہبی تعلیم کے لیے 'جہاد' کیا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ سیکولر ماحول میں بھی، پرامن اور روحانیت سے بھری زندگی کیسے گزاری جائے۔

 ایک زمانہ تھا جب عالمِ اسلام، فکری اور ثقافتی اعتبار سے بلندیوں پر تھا۔ تاہم، 18ویں صدی تک، قوم مسلم کی طاقت ہر سطح پر کم ہونا شروع ہو گئی تھی، خواہ وہ معاشی، فوجی، ثقافتی یا سماجی ہو۔ جیسے جیسے عالمِ اسلام پر یورپ کا غلبہ بڑھتا گیا اسلام کی طاقت کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ نورسی مدرسہ کا تصور، سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے ایسے مدارس کا تصور پیش کیا جو مذہبی اور عصری دونوں تعلیم کا سنگم ہوں۔ لیکن سب نے ان کے خیالات کو مسترد کر دیا۔ جلد ہی سلطنت عثمانیہ منہدم ہوگئی، اور اس کے کھنڈرات سے ایک نئی جمہوریہ کا جنم ہوا۔ اور اس کے ساتھ ہی کچھ باقی ماندہ مذہبی اداروں کا بھی جنازہ نکل گیا۔

 نئی انتظامیہ نے اسلام سے حتی الامکان دوری اختیار کرنے کی کوشش کی۔ جدید ترکی میں اسلام یا مذہب کی کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ 1924 میں خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ صوفی خانقاہوں کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ مذہبی ادارے بند کر دیے گئے۔ وقف املاک ضبط کر لی گئیں۔ اسلامی قوانین کی جگہ یورپی قوانین نافذ کر دیے گئے۔ سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی، اور دین پس پشت ڈال دیا گیا۔

نورسی فطری طور پر حکومت کی ان تبدیلیوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ ان تبدیلیوں کا عسکری انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے، انہوں نے نئی تبدیلیوں کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ نت نئے حالات میں بھی وہ اہل ایمان کو روحانیت کی روشنی عطا کر رہے تھے۔ حکومت نے نورسی کو 30 برسوں تک پس زنداں رکھ کر انہیں خاموش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ انہوں نے اپنا 'رسالہ نور' لکھنا بند نہیں کیا اور نہ ہی تھکے۔

 ان کے مطابق علم اور روحانیت حاصل کرنا جہاد تھا۔ ایک قسم کا غیر متشدد جہاد تھا۔ انہوں نے مزاحمت کے لیے عدم تشدد اور مثبت عمل کا راستہ اپنایا۔ ترقی پسند کام نورسی کے نزدیک ان تعلیمی اداروں کی بحالی سے عبارت تھا، جو اب تباہ ہو چکے تھے۔ اس کا طریقہ کار نورسی کے نزدیک یہ تھا کہ لوگ ان کے پیش کردہ نظریات کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ انہوں نے سیاسی اسلام کے قیام یا شریعت پر مبنی حکومت کے قیام کی بات نہیں کی۔ اس کے برعکس ان کی تعلیم یہ تھی کہ انسان کا دل اچھا ہونا چاہیے اور دین و ایمان کسی بھی حال میں ہاتھ سے نہ نکلے۔ یہی نرسی کی کوشش تھی۔

نرسی کی تحریروں میں مثبت عمل (مثبت حرکت) اور عدم تشدد

 سب سے بڑی بات یہ تھی کہ، نئی جمہوریت نے مذہبی اداروں کو ختم کر دیا تھا اور اس سے جو ایک خلا پیدا ہوا تھا، اسے ریاست کی سرپرستی میں سائنسی مادیت، جارحانہ سیکولرازم اور مثبتیت نے مزید گہرا کر دیا۔ ان چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے سعید نورسی اور ان کے پیروکاروں نے جمود یا عسکریت پسندانہ موقف اختیار نہیں کیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے غیر متشدد مزاحمت کے ذریعے اس نئی جمہوریہ کے بنیادی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال اقدامات اٹھائے۔

 اگرچہ، کچھ علماء اور عوامی تحریکوں نے مذہب کے خارجی پہلوؤں، مثلا سیاست اور شریعت (اسلامی قانون) پر زور دیتے ہوئے مسلمانوں کے لیے حل تلاش کرنے کی کوششیں کیں، لیکن نورسی نے خود کو ان سب سے الگ کر لیا۔ اس نظریے کے برعکس، کہ مسلمانوں کے مسائل کو صحیح ماحول اور موزوں حکومت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، نورسی کا نقطہ نظر اس سے بالکل مختلف تھا۔ اپنے رسالے میں، نورسی نے اسلام کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے تین اہم مراحل کا خاکہ پیش کیا۔

 پہلے مرحلے میں ایمان آتا ہے، جس میں عقیدے کی مضبوط بنیاد کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ نورسی کا کہنا تھا کہ جب یہ ابتدائی مرحلہ مضبوط ہوتا ہے، تو ایمان لوگوں کی زندگیوں اور عوامی حیات میں اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ انفرادی اور اجتماعی دونوں شعبوں میں دین و ایمان کے عملی اطلاق سے عبارت ہے۔ نورسی کا ماننا تھا کہ پہلے دو مراحل کی بنیاد اگر مضبوط ہو تو، تیسرا مرحلہ، جو کہ شریعت کی پیروی سے عبارت ہے، فطری طور پر انسان کی زندگی میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ اور اس طرح اسلام کے اصول، سیاست اور حکومت میں باضابطہ طور پر اثر انداز ہو جائیں گے۔

 اگر چہ، بہت سے مسلمان عملی اور قانونی پہلوؤں (دوسرے اور تیسرے مرحلے) پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن نورسی نے پہلے مرحلے یعنی ایمان کے قیام اور اس کے استحکام کو ترجیح دی۔ نورسی کے نزدیک، مسلمانوں کے درمیان ایمان کو مضبوط و مستحکم بنانا نہ صرف بنیادی مقصد تھا بلکہ مسلم افراد اور اس کے نتیجے میں پوری امت مسلمہ کو بااختیار بنانے کی کلید بھی تھی۔ جیسا کہ شریف ماردین نے بجا طور پر کہا ہے، نورسی کا نقطہ نظر غزالی جیسے علماء سے مختلف تھا؛ کیونکہ اسلامی سماجی تعلقات اور عبادت کی شکل و صورت پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے، نورسی نے اپنی توجہ اور توانائی ان شعبوں پر صرف کی، جن کی مدد سے مسلمان اپنے دین و مذہب کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ ماردین کے مطابق مسلمانوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں رہنمائی کے لیے ایک 'خاکے' کی ضرورت ہوتی ہے، اور نورسی نے اس ضرورت کو تسلیم کیا اور اس پر توجہ دی۔

 یہ سہ جہتی روڈ میپ، جس کا خاکہ سعید نورسی نے پیش کیا ہے، اس کا مقصد ترکی میں مسلم کے درمیان ابھرتے ہوئے چیلنجوں کا حل پیش کرنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نورسی کا نقطہ نظر جدید سیکولر ترکی کے عصری مسائل تک ہی محدود نہیں ہے؛ کیونکہ ان کا نقطہ نظر عصری مسائل سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ جیسا کہ شریف ماردین نے کہا، نرسی کا نظریہ، صنعتی تہذیب اور عقلیت پسند فلسفے کی بنیاد میں پائے جانے والے وسیع تر مسائل کا جواب ہے۔ نورسی نے ہمیشہ اسلام کے مفہوم کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا، اور اس ناخوشگوار صورت حال کو صرف ترکی کا نہیں، بلکہ ایک عالمی مسئلہ مانا۔

 نورسی کے نزدیک، مسلمانوں کی زندگی میں ایمان کا عملی مظاہرہ اور شریعت کی پابندی، ایمان کا بنیادی مظہر ہے۔ نورسی کا کہنا تھا کہ ایک معاشرے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت ایمان کے معاملات کو مومنین کی زندگیوں میں عملی طور پر اتار بھی دے، اور صحیح معنوں میں شریعت کا نظام قائم بھی کر دے۔ اس لیے نورسی کی فکر اسلامی ریاست کے قیام پر مرکوز نہیں تھی بلکہ ان کا مقصد حیات، دل و دماغ کی اسلامی ریاست کو فروغ دینا تھا۔ کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کو درپیش بے شمار چیلنجوں کی جڑ ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔

مغربی معاشرے کے تناظر میں، جدیدیت میں مذہب کی تلاش کرتے ہوئے، فلسفی چارلس ٹیلر نے، سماجی ڈھانچے کی ڈھانچہ جاتی اور تصوراتی سطح پر ایک انقلابی تبدیلی کا اشارہ کیا ہے۔ لہذا، نورسی نے، ٹیلر کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے، اسلام کو ایک ایسے دور کے ساتھ ہم آہنگ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، کہ جب سائنس کی مدد سے کفر و بے دینی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ نورسی کو یقین تھا کہ اگر کسی سائنسی فریم ورک کے اندر دین و ایمان پر حملہ کیا جاتا ہے، تو ایسی صورت میں دین کی سب سے بہتر مدد یہ ہو سکتی ہے، کہ سائنس کے فوائد کو اجاگر کیا جائے۔

 نورسی نے اس وقت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دین و ایمان کی ایک نئی تعبیر و تشریح پیش کرنا ضروری سمجھا۔ اس کوشش میں، نورسی نے اپنے مشن کا ایک اہم پہلو مثبت عمل (مثبت حرکت) کو قرار دیا، اور اس کے نفاذ کے لیے عملی طور پر کچھ رہنما خطوط بھی وضع کر دیے۔ نورسی کے نزدیک، مثبت عمل کا مقصد ہمیشہ، تباہ ہو چکے یا فاسد ہو چکے اسلامی روثے کی تعمیرنو کرنا یا ان کی اصلاح کرنا تھا، کیونکہ تباہی یا بدعنوانی کبھی بھی کسی قوم کی تعمیر و ترقی کا راستہ نہیں بن سکتی۔ انتہائی سخت ترین حالات میں بھی، نورسی اور ان کے طالب علموں نے مثبت عمل کو ترجیح دی، اور مثبت عمل کو اپنے غیر متشدد مزاحمتی طریقہ کار کا ایک اہم عنصر بنا لیا۔ اس غیر متشدد مزاحمت کا مقصد امت کو نقصان پہنچانے سے بچنا ہے۔

 سیاسی اسلام یا شریعت پر مبنی نظام حکومت قائم کرنے کے بجائے، نورسی کی توجہ بنیادی طور پر ایمان کی درستگی و پختگی، اور لوگوں کے اندر تبدیلی پیدا کرنے پر تھی۔ اور اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں، عدم تشدد پر مبنی مثبت عمل ہی نورسی کا اصل جہاد تھا، جس میں پوری توجہ، تعمیری کوششوں اور انفرادی تبدیلی پر تھی، تاکہ مطلوبہ تبدیلی پیدا کی جا سکے۔

 نتیجہ

 مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا وغیرہ جیسی ہستیوں کے نام غیر متشدد جدوجہد کے لیے مشہور ہیں۔ کتاب کے آخری باب میں، ان ہستیوں کے ساتھ نورسی کا بھی شمار کیا گیا ہے، جنہوں نے عدم تشدد کے ذریعے سماجی اصلاح کے لیے قدم آگے بڑھائے۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے گاندھی کی طرح، سماجی عدم مساوات کے خلاف لڑنے والے منڈیلا کی طرح، معاشی ناانصافی کے خلاف لڑنے والے لوتھر کنگ کی طرح، نورسی نے شہریوں کے ایمان و عقیدے کی آزادی کے لیے غیر متشدد جدوجہد کی۔ اور یوں ادب اور مطالعہ نورسی اور ان کے شاگردوں کے لیے غیر متشدد جہاد بن گیا۔ گاندھی نے نمک ستیہ گرہ کیا۔ منڈیلا نے کرسی صدارت جیت لی۔ کنگ نے انقلاب کا آغاز 'I Have A Dream' کے ساتھ کیا۔ نورسی نے اپنی شاہکار تصنیف 'رسالہ نور' لکھ کر تبدیلی کا انقلابی پرچم بلند کیا۔ آج بھی رسالہ کی گونج پوری دنیا میں سنی جا سکتی ہے۔ آپ غیر متشدد جہاد کے ذریعے خدا کی طرف بڑھنے والے مومنین کے قدموں کی آہٹ بھی سن سکتے ہیں۔

 یہ کتاب، راہ عمل واضح کرتی ہے، کہ کس طرح عدم تشدد کی اسلامی تعلیم کے ذریعے، چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے اور کس طرح مادی ہتھیاروں کا سہارا لینے کے بجائے مکالمے اور روحانی جہاد پر بھروسہ کیا جائے۔ دور حاضر کے ہنگامہ خیز حالات کا اندازہ لگانے کے لیے اس کتاب کا پڑھنا انتہائی ضروری ہے۔

English Article: ‘Nonviolent Spiritual Jihad: The Nursi Model of Struggle’; A role model to tackle the contemporary problems

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/nonviolent-spiritual-jihad-nursi/d/131805

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..