ڈاکٹر یامین انصاری
8دسمبر،2024
طویل عرصہ سے یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے یاہر طبقہ کی زبان ہے۔ ایک طبقہ ہے جس نے آزادی کے بعد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبا ن ہے۔ ”نیو انڈیا“میں تو کھلے عام اردو دشمنی کا مظاہرہ کیا جانے لگاہے۔حالانکہ ملک کی اکثریت اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔اتفاق نہ کرنے کی بہت ساری وجوہات بھی ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ خود اس بات کی گواہ ہے کہ یہ زبان نہ صرف ہندو یا مسلمانوں کی ہے، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی اس زبان میں طبع آزمائی کی ہے۔ نہ جانے کتنے ادبا وشعر ا کی تخلیقات اردو زبان وادب میں چار چاند لگا تی ہیں۔ یہاں تک کہ اردو صحافت کی تو تاریخ ہی غیر مسلم صحافیوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اردو کے پہلے اخبار ’جام جہاں نما‘ سے لے کر فی الوقت ملک کے سب سے مقبول اردو روز نامہ ’انقلاب‘ تک، سینکڑوں اخبار ورسائل،ٹی وی چینل اور میڈیا ہاؤس اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اردو صحافت کو کسی مخصوص فرقہ یا طبقہ تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
عصر حاضر کے صف اوّل کے مصنف،محقق، صحافی اور ادیب سہیل انجم کی زیر تبصرہ کتاب ا س بحث پر کافی حد تک لگام لگاتی ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے یا ہر طبقہ کی زبان ہے۔ ’اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلم صحافیوں کی خدمات‘ اپنے آپ میں ایک مکمل دستاویز ہے۔ 368 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے ناشر ’نعمانی کیئر فاؤنڈیشن‘ لکھنؤ ہیں، جب کہ فخرالدین احمد میموریل کمیٹی‘ حکومت اتر پردیش کے مالی تعاون سے یہ حال ہی میں شائع کی گئی ہے۔اس نایاب کتاب کی قیمت 500/ روپے رکھی گئی ہے۔ صاحب کتاب نے کتاب کا انتساب اردو کے اولین ہری ہردت اور سدسکھ لعل کے نام کرکے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔یوں تو صحافت اور دیگر موضوعات پر سہیل انجم کی اب تک دودرجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کچھ کتابیں راقم الحروف کے زیر مطالعہ بھی رہیں۔ مگر اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلم صحافیوں کی خدمات نامی تازہ تصنیف ان کا انتہائی اہم کارنامہ ہے۔ یہ کتاب یقینا اردو صحافت کی تاریخ میں ایک اہم باب کااضافہ ہے،بلکہ صحافت کی درس تدریس میں بھی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”جہاں تک اردوصحافت کی بات ہے تو اس کا آغازہی ہندوؤں کے ہاتھوں ہوا۔ اس لئے اگر کوئی یہ کہتاہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو وہ اس زبان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ اردو صر ف مسلم حلقوں تک محدود ہوتی جارہی ہے۔تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج بھی جبکہ اردو زبان کے لئے حالات کوئی بہت زیادہ سازگار نہیں ہیں، اردو کی زلف گرہ گیر کو سلجھانے میں بے شمار غیر مسلم بھی پیش پیش ہیں“۔’غیر مسلم صحافیوں کی کہکشاں‘نامی مضمون میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ 2022 میں اردو صحافت کے 200/سال مکمل ہونے پر اس حوالے سے ملک بھرمیں متعدد پرگروام اور کانفرنسیں ہوئیں، کچھ کتابیں بھی سامنے آئیں۔ لیکن اردو صحافت میں غیر مسلم صحافیوں یا شخصیات کا کیا کردار رہا ہے یا ا ن کی کیا خدمات رہی ہیں، اس پر کوئی مکمل کتا ب یا دستاویز نظر سے نہیں گزری۔ زیر تبصرہ کتاب نہ صرف اس کمی کو پورا کرتی ہے، بلکہ اردو صحافت کی تاریخ میں یہ ایک روشن باب کااضافہ ہے۔ اسی لئے یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اگرچہ سہیل انجم خود اتنے بھر سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کی تشنگی ابھی باقی ہے۔ وہ اس سلسلہ میں مزید کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ابتدامیں میرا خیال تھا کہ سواسو یاڈیڑھ سو صفحات پرمشتمل کتاب تیار ہوجائے گی، لیکن جب میں نے کام شروع کیا تو وہ پھیلتاگیا۔ حالانکہ میں اس کام سے مطمئن نہیں ہوں۔ یہ ایک نامکمل اور ادھورا کام ہے۔ اگر مزید تحقیق کی جائے اورغیر مسلم صحافیوں کی سوانح اور ان کے اخبارات کی تفصیلات پیش کی جائیں توکم از کم ایک ہزار صفحات کی کتاب تیار ہوسکتی ہے“۔ سہیل انجم کی یہ تشنگی اس وقت ہے جب کہ انہوں نے مذکورہ کتاب میں 50/ سے زائد غیر مسلم صحافیوں کے احوال اور ان کی خدمات کو پیش کیا ہے۔ ان میں ہری ہردت، سدسکھ لعل، منشی نول کشور سے لے کر لالہ لاجپت رائے، لالہ دینا ناتھ دیش بندھو گپتا، جمنا داس اختر اور فکر تونسوی تک او رکلدیپ نیر، خوشتر گرامی، وجے کمار چوپڑہ، موہن چراغی سے لے کر نند کشور کرم، سردار امر سنگھ، سردار جمیت سنگھ، مخمور جالندھر ی،پنڈت مکندرام، چندر بھان خیال، دیس راج مضطر، دیویندر اسراور پی پی مسیح تک کے اہم نام شامل ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں اس سبھی غیر مسلم صحافیوں کے اخبارا ت کے نام ان کی سن اشاعت اور ایڈیشن وغیرہ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ یہی نہیں، کتاب کے پیش لفظ اور ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی کے مقدمہ کے بعد’اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ: ایک مختصر جائزہ‘ ’اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما‘، اردو صحافت کی خصوصیات“، غیر مسلم صحافیوں کی کہکشاں‘ اور ’اخبار سوراجیہ کی قربانیاں‘ جیسے عنوانات سے مضامین شامل کرکے اردو صحافت کی ایک جامع تاریخ بیان کرد ی ہے۔
زیر تبصرہ کتا ب کا ایک اور گوشہ انتہائی اہم اور توجہ طلب ہے۔ مصنف نے اس گوشے میں مختلف مذاہب کے اخبارات کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ جیسے ’ہندو مذہب کے اخبارات‘ ’سکھ مذہب کے اخبارات‘، ’عیسائی مشنریوں کے اخبارات‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان میں ہندو مذہب کے اخبارا ت کاذکر کرتے ہوئے سہیل انجم لکھتے ہیں کہ ”ہندومذہب میں زیادہ تر اخبارات آریہ سماج، برہمو سماج، قومی سنیاس دھرم او ر کھتریوں اور کایستھوں نے نکالے۔ اخبارات کے اجراء میں آریہ سماجی پیش پیش رہے۔“ لیکن مصنف نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ اخبارات کس زبان میں تھے۔ جس طرح سکھ مذہب کے اخبارات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”انیسویں صدی میں سکھ مذہب کے اخبارات کا اجرا ء زیادہ تر 1890ء کے بعد ہوا اور اہم بات یہ ہے کہ ارد و سے سے زیادہ پنجابی زبان(گرومکھی) میں اخبارات نکلے“۔اسی طرح عیسائی مذہب کے اخبارات کے گوشے میں بھی زبان کی وضاحت نہیں ہے۔ حالانکہ ان اخبارات کے نام سے ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ اردو زبان میں ہی رہے ہوں گے۔جیسے’مفید الاسلام‘، ’خیر خواہ خلق‘، کوکب عیسوی‘، شمس الاخبار‘ اور ’کوکب ہند‘ وغیرہ۔ جب کہ ’نور افشاں‘ نامی اخبار کے بارے میں وضاحت ہے کہ یہ اخبار بیک وقت اردو اور انگریزی زبانوں میں نکلتا تھا۔ اس کے علاوہ ’ہند سماچار‘ کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون ’ہند سماچار کی کہانی، وجے چوپڑہ کی زبانی‘ کتاب میں شامل ہے۔ ہند سماچار چونکہ اپنے زمانے کا سب سے مقبول اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اخبار تھا، لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دے کر سہیل انجم نے ایک اہم کام کیا ہے۔ وہیں ’اردو صحافت اور سنتوش بھارتیہ‘، ’اردو اخبارات کی ڈائریکٹر یز‘ اور ’اردو کا ایک امریکی مرد مجاہد‘ کے عنوان سے کتا ب میں شامل مضامین بھی قابل تعریف ہیں۔ یہ امریکی مرد مجاہد ڈاکٹر برائن کیوسلور ہیں۔ ان کے بارے میں سہیل انجم لکھتے ہیں ”ڈاکٹر برائن کیوسلور عالمی نشریاتی ادارے’وائس آف امریکہ‘ واشنگٹن کی ارد و سروس کے سربراہ رہے۔ جب وہ اس کے چیف تھے تو کہا جاتا تھا کہ برائن کیوسلور اور وائس آف امریکہ واشنگٹن کی ارد و سروس ایک دوسرے کے لازم وملزوم ہیں۔“
کتاب کے آخری حصہ میں مصنف نے ایک انتہائی اہم مضمون ’اردو صحافیوں کی خدمت میں چند گزارشات‘ کے ذریعہ اردو موجودہ صحافیوں، بالخصوص نوجوان صحافیوں کو ایک خاص پیغام دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”اردو صحافیوں کی جو آخری نسل ہے وہ تو اپنا کام کرچکی ہے۔ دوسری نسل بھی اپنا کام مکمل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ البتہ جو تیسری نسل ہے اس کو ابھی اس راستے پر بہت دور تک جاناہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ صحافت کے رموز ونکات سے واقف ہو۔ خبر سازی کیا ہوتی ہے۔جملے کیسے لکھے جاتے ہیں۔ کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ او رجامع انداز میں اپنی بات کیسے کہی جاسکتی ہے۔ کس قسم کی خبروں کے لئے کس قسم کے الفاظ کا انتخاب کرناہوتا ہے۔ مضامین کیسے لکھے جاتے ہیں“۔ صحاب کتاب نے واقعی نئی نسل کے موجودہ صحافیوں کی توجہ اہم نکات پردلائی ہے۔آج کل ان نکات پر بہت کم عمل کیا جاتاہے، جس سے خبروں، تجزیوں اور مضامین میں پختگی اورروانی نہیں آتی ہے۔کیونکہ قاری کو کیسے کسی خبر یا مضمون کی طرف راغب کیا جائے، یہ اپنے آپ میں ایک ہنر ہے۔ لہٰذا نئی نسل کے صحافی سہیل انجم کی تازہ ترین اس کتاب کے دیگر مشمولات کے ساتھ ’اردو صحافیوں کی خدمت میں چند گزارشات‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔امید ہے کہ سہیل انجم کی یہ کتاب بھی ان کے مداح او ربالخصوص صحافی حضرات اسی ذوق وشوق سے پڑھیں گے اور ان کی پذیرائی کریں گے، جیسے پہلے کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اردو صحافیوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہئے، تو بیجا نہ ہوگا۔
8 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/non-muslim-journalists-promoting-urdu/d/133973
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism