نیلو
فر احمد (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن،
نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
نبی
کریم ﷺ اور انکے ماننے والوں کی مدینہ ہجرت کرنے کے کچھ ہی وقت بعد مکّہ والوں نے مومنوں
کے مکّہ میں داخل ہونے یہاں تک کہ حج اور عمرہ کرنے پر بھی پر پابندی لگا دی تھی۔مسلمانوں
کی دلی آرزو کعبہ میں حج و عمرہ کرنے کی تھی۔تقریباً چھ برسوں کے بعد نبی کریم ﷺ اور
ان کے پندرہ سو صحابی پہلی ذی القعد،6ہجری(628CE) کومکہ کے سفر پر عمرہ اداکرنے کی نیت
سے روانہ ہوئے۔ان لوگوں نے احرام باندھا، لبیک کا ورد کیا اور اس طرح مقدس ریاست میں
داخل ہو گئے۔
وہ اپنے
ساتھ کوئی ہتھیار لے کر نہیں آئے لیکن مکّہ کے لوگ ان کا رخ جاننے آئے اور ان کا راستہ
روکنے کا فیصلہ کیا یہاں تک کہ اگر اس کے سبب جنگ بھی ہو جائے۔ پیغمبر محمدﷺ نے تصادم
اور خون سے بچنے کے لئے ایک مشکل اور گھماؤ دار راستے سے جانے کا فیصلہ کیا۔مسلمانوں
نے ہدیبیہ میں قیام کیا، جو کہ مکہ کی سرحد پر واقع ہے۔انہوں نے پر امن انداز میں اپنے
مذہبی ارکان کو ادا کرنے کے لئے مکہ والوں سے بات چیت کا فیصلہ کیا۔مکہ والوں نے چھوٹے
گروہوں میں اپنے لوگوں کو مومنین پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ جنگ کے لئے
آمادہ ہو سکیں، یا پھر وہ واپس چلے جائیں۔نبی کریم ﷺ نے بڑے صبر کے ساتھ ان سے گفت
وشنیدکی اور ہر بار مکہ والوں کو گرفتار کرنے بعد رہا کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمانؓ
کو سفیر کے طور پر مکہ والوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں کو مطمئن کر سکیں جس سے
وہ سہیل بن عمرو کو گفت و شنید کے لئے بھیجیں۔مذاکرات کے بعد، حتمی معائدہ پر وہ راضی
ہوئے، جس کے خوش نویس حضرت علیؓ تھے۔
اس معائدے
کو صلح ہدیبیہ(ہدیبیہ کے امن معاہدے) کے طور پر جانا گیا۔اس کی کچھ شقیں درج ذیل ہیں:
10برسوں تک جنگ بندی رہے گی اور اس دوران دونوں جماعتیں جنگ سے دور رہیں گی، جب کوئی
مومن حج یا عمرہ یا پھر تجارت کے مقصد سے مکہ یا طائف آئے گا اس کی زندگی کی حفا ظت
کی جائے گی، اگر کوئی قریش مدینہ کی مسلم ریاست سے گزرے گا تو اس کی زندگی کی بھی حفاظت
کی جائے گی۔قبول کرنے کے لئے جوسب سے مشکل شک تھی وہ ایک طرفہ تحویل مجرمین سے متعلق
تھی،جو کہتی تھی اگر کوئی قریش اسلام قبول کر کے اور اپنے ولی سے بھاگ کر مدینہ میں
نبی کریم ﷺ کے پاس چلا جاتا ہے تواسے واپس جانے کے لئے مجبور کیا جائے گا لیکن اگر
کوئی مسلمان اپنے ایمان کو ضائع کر کے مکہ بھاگ جاتا ہے تو مکہ والوں پر اسے واپس کرنا
واجب نہیں ہوگا۔ان نقاط کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتیں معاہدہ
پر مکمل طور پر عمل کریں گی، وہ خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گی اور دیگر پارٹی سے لڑائی
کے معاملے میں وہ غیر جانبدار رہیں گے، بدو قبائل جس کو بھی اپنا دوست بنانا چاہیں
آزاد رہیں گے، قربانی کے جانوروں کی ہدیبیہ میں ہی قربانی دی جائے گی اور مکہ نہیں
لائے جائیں گے، دونوں پارٹیوں کے حقوق اورفرائض برابر ہو ں گے۔اس پر بھی اتفاق کیا
گیا کہ مسلمان اس سال بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں گے، اور آئندہ سال حج اور عمرہ
کے لئے واپس آئیں اور تین دنوں تک مکہ میں قیام کرنے کی اجازت ہوگی، اس دوران مسلمان
صرف ایک مسافر کے ہتھیار لے کر آئے گا نہ کہ جنگ کے ہتھیار، ان تین دنوں کے لئے مکہ
والے شہر کو چھوڑ دیں گے اور جب مسلمان واپس جارہے ہوں گے تو وہ اپنے ہمراہ کسی کو
نہیں لے جا سکیں گے۔
اس معائدے
میں نبی کریمﷺ نے اپنی حکمت کے ذریعہ دور رس اور اعلیٰ ترین اہداف اپنے ذہن میں رکھے۔
آپﷺ کے کچھ صحابہ اس معائدے پر ناراض بھی ہوئے اوراسے توہین آمیز قرار دیا۔انہوں نے
احرام سے باہر آنے سے انکار کیا۔ نبی کریمﷺ نے اپنی اہلیہ امّ سلمہؓ سے مشورہ کیا۔انہوں
نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ وہ خود جاکر اس عمل کو کریں جو احرام سے باہر آنے کے لئے ضروری
ہوتے ہیں۔آپﷺ نے ان کے مشورے پر عمل کیا۔جیسے ہی ان کے صحابہ نے دیکھا ان لوگوں نے
بھی ویسا ہی عمل کیا۔نبی کریمﷺ ہمیشہ اپنے بیان کا پاس رکھتے تھے۔ابھی جب وہ ہدیبیہ
میں ہی تھے انہیں ایک سخت ترین فیصلہ لینا پڑا۔ایک نو مسلم ابو جندال نے اپنی بیڑیاں
توڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روتا ہواحاضر ہوا اورگزارش کی کہ اسے مکہ والوں کے تشدد
سے بچایا جائے۔اس کی حالت دیکھ کر تمام صحابہ غصے میں تھے۔لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنی
زبان کا پاس رکھا اور اس کی کوئی مدد نہیں کہ سوائے اس کے کہ ابو جندال کے والد سے
یہ وعدہ لیا کہ اس پر تشدد نہیں کیا جائے گا۔مدینہ واپس آنے پرایک اور نو مسلم ابو
بسیر جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ آ گئے تھے ان کے رشتہ دار وں نے ان کی واپسی کا مطالبہ
کیااور نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان کے مطابق ہی عمل کیا۔ابو بسیر بعد میں مکہ سے نکل بھاگنے
میں کامیاب رہے اور بدر کے پاس ایک گھاٹی میں چھپے رہے اور شام کی جانب جانے والے مکہ
کے لوگوں کے کارواں پر حملہ کرتے رہے۔
کئی
اور نو مسلموں نے بعد میں ان کا ساتھ دیا اور اس راستے سے کسی کارواں کے گزرنے کو ناممکن
بنا دیا۔عاجز آکر خود مکہ والوں نے اس ایک طرفہ تحویل مجرمین سے متعلق معاہدے کو ختم
کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ سے رابطہ کیا۔اس کے بعد نو مسلمان مومنوں کی جماعت میں شامل
ہو سکتے تھے۔ہدیبیہ سے واپسی پر آپﷺ پر سورۃالفتح کی پہلی آیات کا نزول ہوا (48:1)جس
میں اللہ نے اس معاہدے کے فتح ہونے کا اعلان کیا۔بعد میں صحابہ کرامؓ کو بھی سمجھ میں
آ گیا کہ معاہدے کے دور رس اور فائدے مند اثرات تھے۔ مکہ کے لوگوں کا نبی کریم ﷺ کے
ساتھ معاہدہ ظاہر کرتاہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو لوگوں اور ایک ریاست کا رہنما مان
لیا تھا۔اس طرح حکمت،صبر اور دور اندیشی کے ذریعہ نبی کریمﷺ نے احترام، اور اخلاقی
اتھاریٹی کا قیام کیا اور عدم تشدد اورمخلصانہ مذاکرات کے ذریعہ مختلف عقائد کو لوگوں
کے درمیان پر امن حل پیدا کیا۔
مصنفہ
قرآن کی اسکالر ہیں اور عصر حاضر کے مسائل میں قرآن کی معنویت پر لکھتی رہتی ہیں۔
بشکریہ۔
ڈان، لاہور
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/the-pact-of-hudaibya--symbol-of-islam-s-deep-commitment-to-peace/d/5702
URL: