نیلو فر احمد
15 جون، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
اسلام میں شادی دو لوگوں کے
درمیان ایک قانونی معاہدہ ہے نہ کہ ایک مقدس
رسم ہے۔ عقد نکاح میں بہت ساری شرائط و ضوابط واجب ہیں، جبکہ شادی کے وقت دوسری اور
شرائط بھی ہو سکتی ہیں جن پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
شادی کے وقت شوہر کی طرف سے
بیوی کو احترام کی ایک نشانی کے طور پر دیا گیا تحفہ واجب ہے اور جسے مہر کہا جاتا ہے۔ یہ بیوی کا قانونی حق ہے۔ یہ نقد یا
جنس میں ہو سکتا ہے۔ رقم متغیر ہے اور دونوں فریقین کی طرف سے اس پر اتفاق کیا جانا
چاہئے۔
اس مقصد کے لئے قرآن مجید
میں استعمال الفاظ میں سے ایک صدقہ ہے (4:4)،
جس کے معنی تحفہ کے ہے جو نیک نیتی میں اور ایک اچھے کام اور
سخاوت کے طور پر دیا جاتا ہے نہ کہ اپنا درجہ
بڑھانے کے لئے دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں
دیگر استعمال ہونے والا لفظ اجر
(33:50) ہے۔ اس لفظ
کا معنی انعام کے ہیں اور یہ اجرت کو ظاہر
کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اس
عورت کو بطور تحفہ دیا جاتا ہے جو اپنے
خاندان اور اپنے گھر کی حفاظت کو چھوڑ کر نئے اور انجان ماحول میں ہم آہنگی کے لئے جا رہی ہو۔
مہر ادا کرنے سے کوئی بھی
مستثنی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو بتایا گیا ہے، " اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما
دی ہیں جن کا مہر آپ نے ادا فرما دیا ہے (33:50) "۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس بی بی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا
ہاتھ مانگنے آئے تو پہلی چیز جو نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا، وہ یہ تھی کہ، "آپ کے پاس مہر کے طور پر دینے کے
لئے کچھ ہے کیا؟" انہوں نے کہا کہ ان کا پاس
ایک گھوڑا اور ایک کاٹھی ہے۔ انہوں
نے 480 درہم میں کاٹھی کو بیچ دیا اور اسے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ اس مال
سے دلہن اور نئے گھر کی فوری ضروریات کو پورا کیا گیا۔ اس طرح جہیز کا تصور یا گھریلو
سامان اور تحفوں کی لامتناہی مقدار کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔
کچھ ممالک میں اس قانونی ضرورت
کو مذاق بنا دیا گیا ہے، یا تو مہر کے طور پر بہت بڑی رقم طے کر دی جاتی ہے اور
اس کے بعد اسے ادا بھی نہیں کیا جاتا، یا پھر
مضحکہ خیز طور پر بہت ہی چھوٹی رقم طے کی جاتی، جسے ادا کرنے کی ضرورت نہیں
محسوس کی جاتی ہے۔ اکثر بیوائوں کو اپنے شوہر کے مستر مرگ پر مہر کو معاف کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ مہر شوہر پر تازندگی قرض رہتا ہے اور اس کی موت کے بعد
اس کے ورثاء کو یہ قرض منتقل ہو جاتا ہے جو اس کی ادائیگی کا پابند ہوتا ہے۔
مہر واحد بیوی کی ملکیت ہے
اور اس پر نہ تو والدین اور نہ ہی کسی دوسرے رشتہ دار کا کوئی حق
ہوتا ہے۔ کبھی کبھی مرد رشتہ دار مہر کو ایک نظر عورت کے دیکھے بغیر ہی اسے غیر قانونی طور پر لے جاتے ہیں اور جو اس پورے عمل کو فروخت ہونے کے جیسا احساس کراتا
ہے۔
ادائیگی کے طریقے پر انحصار
کرتے ہوئے مہر کی دو اقسام ہے: معجل یا فوری
اور موجل یا ملتوی۔ ملتوی ادائیگی کی اجازت ان لوگوں کے معاملے میں ہے جو نکاح کے بعد کی کسی تاریخ میں جن کا مال پانا متوقع ہے۔ لیکن ادائیگی میں غیر ضروری تاخیر ہونا معاہدہ کے لئے صحیح نہیں ہے۔ کچھ لوگ متقی ہونے کی کوشش میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شرعی مہر مقرر
کرنے کے لئے تیار ہیں جسے کچھ بزرگ لوگوں نے
ناقابل یقین طور پر بہت ہی کم
32.25روپیہ طے کیا ہے! یہ کہنا مشکل ہے انہیں کہاں سے یہ عدد حاصل ہوئی ہے۔
شریعت یا اسلامی قانون نے
کسی بھی رقم کو نہ تو طے کیا اور نہ ہی سفارش کی ہے جسے شرعی مہر کہا جا سکتا ہو۔ اگر صدیوں تک افراط زر کی شرح کا حساب لگایا جا
سکے تو شاید اس رقم کی قوت خرید کئی ہزار گنا
کم ہو جائے گی۔ ایک بزرگ صحابیہ کا مشہور واقعہ ہے جنہوں نے مہر کی
زیادہ سے زیادہ حد لگانے پر مسجد میں حضرت
عمر سے سوال کیا تھا۔
بعض علماء کے مطابق اگر نکاح
نامہ میں مہر کا کوئی ذکر نہیں ہے تو بھی اسے
دینا فرض ہے اور بیوی کے مطالبے پر قانون اسے دلائے گا۔ اس معاملہ میں مہر کی رقم اس طبقے کے یا اس کے والد کے خاندان کی عورتوں
کے مہر کو دیکھ کر مقرر ہوگاجسے مہر مثل کہا جاتا ہے یا دولہے کی مالی حالت، دلہن کی سماجی حیثیت، اس زمانے
اور جگہ کے مقبول رواج اور دولہا اور
دلہن مہر کی جس رقم پر متفق ہوں ، اس کی بنیاد پر مقرر کیا جائے گا۔ مہر کی رقم
کی اوپری حد پر کوئی قید نہیں ہے، لیکن رقم حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے۔ مہر کی
رقم "سونے کے ڈھیر" سے لے کر کچھ بھی ہو سکتی ہے، جس پر دونوں فریقین متفق
ہوں اور یہ ناقابل واپسی ہوتی ہے۔
سورۃ النساء میں کہا گیا ہے، " اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا
کیا کرو...." (4:4) اور "... ایک فرض کے طور پر ...." (4:24)۔ امام مالک کے مطابق، اگر فریقین اس بات پر متفق
ہیں کہ کوئی مہر نہیں ہوگا تو نکاح درست نہیں ہو گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ، امام
شافعی اور امام احمد کے مطابق، نکاح درست ہوگا،
لیکن مہر پھر بھی ایک ذمہ داری رہے گی۔
یہ "کتاب والے لوگوں
......." کی خواتین کے معاملے میں بھی ایک ذمہ داری رہے گی (5:5)۔ مولانا عمر احمد عثمانی کے مطابق، دولہا جو زندگی
بھر محنت کرتا ہے اسے مہر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ
مہر کو دلہن کو ادا کی جانے والی رقم ہونا
ضروری ہے۔
ان دنوں شادیوں میں خوب دکھاوا
کیا جا رہا ہے اور اس پر اصراف بیجا کیا جا
رہا ہے۔ اگر غیر ضروری چیزوں پر بہت زیادہ
خرچ کرنے کے بجائے، مہر کی ادائیگی کو اولین
ترجیح دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ایک مذہبی
فریضہ کو مکمل کرنا ہوگا اور یہ قرآنی احکامات اور نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کےمطابق ہوگا اور جو
دلہن کو کچھ تحفظ فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ اس رقم کا سود مندانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتی ہو۔
مصنفہ قرآن کی اسکالر ہیں
اور عصر حاضر کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔
ماخذ: http://dawn.com/2012/06/15/the-importance-of-mehr/
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/the-importance-of--mehr-/d/7629
URL: