نکولس ہینن
16 نومبر 2015
11/26 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں اور پیرس پر حملوں کے درمیان بہت مماثلت ہے دونوں نرم اہداف (soft targets) پر شدید حملے تھے۔ یہ دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ دہشت گرد جو کر رہے ہیں اس سے ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ لوگوں کو متاثر کرنے اور انہیں دہشت زدہ کرنے کے لیے اس طرح کے حملے انجام دیتے ہیں، تاکہ اس کی ساخت تبدیل کی جا سکے اور عقلمندی کے ساتھ غور و فکر کرنے اور معاملات انجام دینے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے۔ یہ لوگوں کی سوچ بدلنے کی ایک کوشش ہے۔ بدقسمتی سے، چارلی ہیبدو پر اس طرح کے حملے کے 10 ماہ کے بعد رونما ہونے والے اس حملے سے مجھے حیرت نہیں ہوئی۔
دہشت گردوں کا مقصد لوگوں کے درمیان اپنی گرفت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہے، اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس متعدد طریقے ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو غیر محفوظ محسوس کروانا چاہتے ہیں، اور اب تک وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔ چونکہ فرانس میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اسی لیے اس کا رد عمل انتخابی مہم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بڑی آبادی عوامی جماعتوں کو ووٹ دیتی ہے، جس میں بائیں اور دائیں دونوں بازو کی پارٹیاں شامل ہیں۔ خاص طور پر عوامی جماعتوں کے سیاست دانوں کا رد عمل شدت کے مطالبے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ دائیں یا بائیں بازو کا سوال نہیں ہے؛ بلکہ یہ عوامیت، اس کے فروغ اور اس کے جذباتی اثرات کا سوال ہے۔ یہ خطرناک ہے کیوں کہ یہ (عوامی) کمزوری میں اضافہ کرتا ہے اور عقلمندی اور سمجھنے کی صلاحیت کی سطح کو کم کرتا ہے۔
دہشت گرد سماجی کشیدگی کی تلاش میں ہیں، کہ جس سے یورپ میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ بہت سے نوجوان جہادیوں نے کسی قسم پسماندگی کی وجہ سے داعش (ISIS) میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ جن معاشروں میں رہتے ہیں ان میں اچھی طرح شامل نہیں ہیں۔ اکثر جہادیوں کی عمر کے 18 سے 25 سال کے درمیان ہے، ان کی تعلیم بری ہے، وہ بہت کم ثقافتی اقدار سے واقف ہیں اور ان کا ریکارڈ مجرمانہ ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے لیکن ہم اس میں عمومیت نہیں پیدا کر سکتے اس لیے کہ داعش میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس معیار پر کھرے نہیں اترتے۔ شادی شدہ مرد و عورت اور بچے بھی ہیں جن وجہ سے تحفظ فراہم کرنے میں اور بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ اگر حالات ایسے ہوتے کہ لوگوں کا تعین کیاجا سکتا اور اس بات کی نشاندہی کی جا سکتی کہ یہ ایک خاص کمیونٹی خطرے میں ہے تو اسے تحفظ فراہم کرنا آسان ہو جاتا۔ اس کی وجہ سے صرف نگرانی کے کاموں میں اضافہ ہوگا، لیکن ہمیں آزادی اور سلامتی کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کی وجہ سے خود کو آزادی سے محروم کر دینا پاگل پن ہو گا۔
اگرچہ، مجھے فرانسیسی معاشرے کی طاقت پرشبہ ہے، لیکن یہ اب بھی سماجی تاریکی کا شکار ہونے سے بہت دور ہے۔ جب شامی پناہ گزین یہاں آئے تو بہت سے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نے اتنا سخت رد عمل ظاہر کیا۔ یہ داعش کے پروپیگنڈے کے لئے ایک دھچکا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ یورپ میں مسلمانوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں، یہ ان کے لئے ایک مناسب جگہ نہیں ہے، وہ مغربی معاشرے میں فٹ نہیں ہوتے، اسی لیے ، مسلمانوں کو مسلم ملکوں میں ہی رہنا ہوگا۔ یہ حقیقت داعش کے پروپیگنڈے کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے کہ بہت سے لوگ شام (مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں)سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں، جو کہ ایک مقدس سرزمین مانی جاتی ہے۔
اس مقام پر ہمیں 11/9 سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کہ کسی دہشت گردانہ حملے کی تکمیل کا انحصار مجرم پر نہیں بلکہ اس کے متاثرین پر ہے۔ 11/9 کی کامیابی ٹوئن ٹاورز کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ افغانستان اور عراق پر حملہ کا نتیجہ تھا۔ اور حیرت کی بات ہے کہ یہی عراق اس کے بعد داعش کی جائے پیدائش بن گیا۔ اگر ہم مؤثر طریقے سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہمارے جذبات سے بے نیاز ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کےسماجی و ثقافتی پس منظر اور تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ داعش غلط مغربی پالیسیوں کی ایک پیداوار ہے، جس کی شروعات عراق پر حملے کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کی قیمت ہم ادا کر رہے ہیں۔
(بروایت؛ منجولا نارائن)
ماخذ:
hindustantimes.com/analysis/we-ve-been-paying-since-the-iraq-invasion-former-is-hostage/story-
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/the-terrorists-enemies-islam;-they/d/105301
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-terrorists-enemies-islam-/d/105377