New Age Islam
Mon Nov 04 2024, 01:55 AM

Urdu Section ( 5 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Principle of ‘Quisas’ قصاص کا اسلامی اصول

 

نیاز اے شاہ

31 اکتوبر 2013

قانون قصاص کا ماخذ اسلامی قانون کا اصل مصدر  ‘قرآن ’ ہے ۔ قرآن میں لفظ  ‘قصاص’  کا استعمال ‘برابری ’ کے معنیٰ میں کیا گیا ہے ۔

ہم سرسری طور پر اصول قصاص  ، اس کے مقاصد،   اس کے مستثنیات اور ان مستثنیات کے مقاصد کا جائزہ لیتے ہیں ۔ میں اصول قصاص کو پاکستان پینل کوڈ سے منسلک کرنا چاہوں گا اور یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان پینل کوڈ قصاص کی لفظی اور معنوی طور پر  صحیح عکاسی کرتا ہے لیکن میں  یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس قانوں کی صحیح توضیح کرنے اور سخت  عدالتی نگرانی کے تحت اسے نافذ کرنے کی  ضرورت ہے  ۔

قرآن کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جان  ایک محترم اور مقدس شئی ہے  اسے ناحق  نہیں لیا  جا سکتا ۔ تاہم انصاف کرنے کے لئے زندگی لی جا سکتی ہے ۔‘‘...........اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے.......’’ (6:151)اسلام کے نظام انصاف میں قتل اور ضرر پہنچانے کی صورت میں‘‘ برابری ’’ ایک بنیادی قانون ہے ۔ ارادتاً قتل کی صورت میں قرآن قصاص کی اجازت دیتا ہے ، ‘‘اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں.........پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے’’۔

قصاص کے قانون کی اصل انسانی مساوات اور معاشرے میں ان کی  جانوں کا تحفظ ہے  (جیسا کہ اس کی توثیق قرآن 5:45 میں کی گئی ہے)۔ اس آیت کے شان نزول کے سیاق و سباق سے قصاص کے مقاصد کی اچھی طرح وضاحت ہو تی ہے جو کہ اس طرح ہے: اس قانون کا مقصد قبل از اسلام کے اس معمول کو مٹانا تھا جہاں کچھ بااثر قبائل اور افراد کے خون کو  معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے خون سے کم قیمتی سمجھا جاتا تھا  ۔

آزاد اور مردوں کے مقابلے میں خواتین اور غلاموں کے خون کو  بھی کم اہم سمجھا جاتا تھا ۔ قرآن تمام انسانوں کی جانوں کو یکساں قیمتی اور اہم بناتے ہوئے اس معمول کو ممنوع قرار دیتاہے : جان کے بدلے جان ، لیکن ایک استثنا دی گئی ہے یعنی رحم و کرم کے مقصد کے لئے معافی۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قرآن دردناک عذاب کی وعیدیں سناتا ہے ۔

قرآن اراداً قتل کے مجرم پائے جانے والوں کے لئے دوراستے فراہم کرتا ہے پہلا قصاص (یعنی مجرم کو بھی اسی طرح قتل کر دیا جائے جس طرح اس نے مظلوم کا قتل کیا تھا ) دوسرا  یہ ہے کہ مجر م کو مقتول کے وارثین معاف کر دیں ۔ دوسرے راستے کی صورت حال  یہ ہے  کہ مقتول کے وارثین قاتل سے مناسب  ‘دیت ’ (خون بہا ) کا مطالبہ کریں گے اور مجرم پر یہ ضروری ہوگا کہ وہ بطریق احسن ‘دیت ’ (خون بہا ) اد کرے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ دیت مناسب ہو  اور اسے بطریق احسن ادا کر دیا جائے ، دیت کے مطالبہ اور اس  کی دائیگی کی معالمے میں  عدالتی نگرانی میں ججوں نے اس پر  اتفاق کیا ہے اس  لئے  کہ اسے ایک خفیہ معاملہ رکھنا پرخطر ہو سکتا ہے۔

مقتول کے وارثین  دیت بھی معاف کر سکتے ہیں جسے کبھی کبھی تیسرا راستہ بھی سمجھا جاتا ہے، یعنی اللہ کے نام پر مجرم کو معاف کرنا ۔قصاص(جان کے بدلے جان) کے قانون میں دیت ایک مستثنیٰ اور سزا میں ایک تخفیف ہے ۔ اس تخفیف کی قرآنی (2:178)  بنیاد  اللہ کی جانب سے ‘‘رحم اورنجات ’’ ہے ۔ انسانی مساوات اور  زندگی کا تحفظ  قصاص کے انتہائی  اہم مقاصد ہیں ۔ معافی ایک استثناء ہے جس کا منشاء رحم و کرم کے مقاصد کا حصول ہے۔ اسی لئے دیت مستحق و  سزاوار معاملات میں رحم و کرم کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے  ادا کیا جانا چاہئے ۔ دیت کا استعمال قصاص کی معنویت سے  روگردانی کرتے ہوئے معاشرے کے غریب اور کمزور لوگوں کی کے خون کو خریدنے کے لئے نہیں کیا جانا چاہئے ۔

پی پی سی  کے متعلقہ دفعات کو  جو کہ برطانیہ سے لئے گئے تھے  قرآن و سنت  کے خلاف قرار دیا گیا تھا (پی ایل  ڈی  1983 پیشاور) عدالت عظمیٰ نے (پی ایل  ڈی   1989 دفع 633) کی حمایت کی اور قصاص کو پاکستان پینل کوڈ میں شامل کرنے پر زور دیا۔

موجودہ قانون(دفع 302، 309) قصاص کے بارے میں  قرآن کا عکس ہے ۔ وہ قصاص کی اجازت دیتا ہے اور دیت یا دیت کے بغیر قصاص سے دست برداری کی  بھی اجازت دیتا ہے ۔ دفع 210 میں صلح پر عدالتی نگرانی فراہم کی گئی ہے۔

پی پی سی   کے (دفع 311 ) میں سنگین ترین صورت حال (یعنی فساد فی الارض کی صورت حال)میں عدالت کو تعزیری سزا کا حق دے کر مزید تحفظ فراہم کیا گیا ہے ، اگر چہ مقتول کے وارثین نے  قاتل کو معاف کردیا ہو۔

عدالتی نگرانی  کے  دو اہم کردار ہیں : پہلا اس با ت کو یقینی بنانا کہ مقتول کے وارثین مناسب دیت کا مطالبہ کریں اور مجرم  اسے بطریق احسن ادا کرے، دوسرا یہ کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ کیا ایسی کوئی سنگین ترین صورت حال پائی جا رہی ہے جو تعزیری سزا کا مطالبہ  کرتی ہو۔

 خلاصہ یہ ہے کہ اس قانون کا وجود ہے لیکن قرآن کی صحیح معنویت کے مطابق اس کی معقول تشریح کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور قرآن میں مذکور اس کے مقاصد کے حصول کے لئے عدالت کی نگرانی میں  اس کے سخت نفاذ کی ضرورت ہے ۔

گہری عدالتی نگرانی کے بغیر معاشرے کے سرمایہ دار اور بااثر لوگ اس قانون کا استعمال اپنے مفادات کے لئے کریں گے جو  کہ نہ صرف قرآن  کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ اس سے قبل از اسلام کے عربی معاشر کی روایت کا احیا ءبھی ہوتا ہے جہاں شاہزیب  خان جیسے مظلوم کا خون کم قیمتی ہے۔

یاز اے شاہ ہل یونیورسٹی، برطانیہ میں قانون کے ایک سینئر لیکچرار ہیں ۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

ماخذ: http://www.dawn.com/news/1053308/the-principle-of-qisas

URL:

https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/the-principle-‘quisas’/d/14245

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-principle-‘quisas’-/d/14291

 

Loading..

Loading..