ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
19جنوری،2024
2024 ء وطن عزیز ہندوستان
میں عام انتخابات کا سال ہے۔ اس حوالے سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکاہے۔ آئندہ
کس جماعت کے سیاسی اہداف کیا ہوں گے اور وہ کس نظریے او رپروگرام کے ساتھ عوام میں
جائیگی،اس کے انفرادی و اشتراکی سیاسی فیصلوں کا دارومدار کن بنیادی نکات پر ہوگا؟
فی الوقت مختلف مزاج اور مختلف نظریات والی سیاسی قوتیں بھی ایک دوسرے سے قریب نظر
آرہی ہیں، باہم مذاکرات کا عمل جاری ہے،البتہ سب کے اپنے اپنے جماعتی مقاصد،
ترجیجات،قبل اور بعد از انتخابات امور کے حوالے سے معاملہ فہمی، حکمت عملی اور ان
سے منسلک سیاسی تقاضے اس کلیدی سیاسی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور ایسا
ہی بظاہر دیکھنے کا مل رہاہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال پر
اگرایک نظر ڈالی جائے تو چیز یں بڑی حد تک صاف ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لئے کوئی راکٹ
سائنس درکار نہیں۔قومی سطح پر بی جے پی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس کے بعد
کانگریس کی ملک گیر سطح پر موجودگی تسلیم کی جاتی ہے۔ ادھر علاقائی سیاسی جماعتوں
کا ایک جم غفیر ہے، جن کے اپنے اپنے علاقائی مفادات ہیں۔ ادھر بیشتر اپوزیشن سیاسی
جماعتیں تو کانگریس کی مخالفت میں وجود میں آئی ہیں۔ اب نظریاتی طو رپران کے
درمیان سیکولر زم او ربی جے پی کا خوف،یہ دوایشو ہیں جسے اپوزیشن کو ’انڈیا‘ نام
کے ایک سیاسی گٹھ جوڑ میں اکٹھا توکردیا ہے۔لیکن آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
1996 ء میں جب اٹل بہاری واجپئی اپنی حکومت کیلئے اعتماد کا ووٹ
حاصل کررہے تھے تب انہوں نے غیر کانگریسی جماعتوں کو اپنے جماعتی ایجنڈے کے تین بنیادی
ایشوز کو ترک کرکے اپنے مشترکہ قومی ایجنڈے کی بنیاد پر ان کی حمایت طلب کی تھی۔
جس پر شیوسینا کے علاوہ ایک بھی سیاسی جماعت ان کے ساتھ نہ صرف آئی سب نے سیکولرزم
کو بنیاد بنا کر بی جے پی کی یکطرفہ مخالفت کی۔ مگر اٹل جی کی تعریف کے سب نے پل
باندھے۔ وہ ایک دوراندیش سیاستداں ہی نہیں تھے بلکہ بہترین نباض ہونے کی حیثیت سے
انہوں نے وہ کھیل کھیل دیا جس نے مستقبل کے ہندوستان کی سیاست کو ایک ایسی بنیاد
فراہم کردی جو پہلے مرحلے میں تو بظاہر ایک بھی حلیف پید ا نہ کرسکی، مگر مستقبل
کی قومی سیاست کے تناظر میں اس نے دوہدف حاصل کرلئے۔ پہلا بی جے پی اب بیشتر
سیکولر سیاسی جماعتوں کے لئے اچھوت نہیں رہی اور دوسرے 1998 کے عام انتخابات کے
وقت تو جیسے ان کی ایک لائن سی لگ گئی، جس میں دوچار کو چھوڑ کر سب ہی سیکولر بڑے
لیڈر ان ان کے ساتھ آگئے۔کانگریس او ربائیں بازو کی جماعتیں اس سے الگ رہیں۔بقیہ
تو سب ہی نے اس حوض میں ہاتھ دھوئے۔ مت بھولئے 1977 ء میں جن سنگھ جنتا پارٹی میں
ضم ہوئی تھی۔ اس وقت توبائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں اور ساری اپوزیشن ایک
ساتھ کانگریس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور اس کو شکست دی۔
آج پھر ’انڈیا‘ کے نام سے
ایک اتحاد قائم کرکے کچھ اس مزاج کی کوشش ہورہی ہے مگر یہ بودی بھی ہے اور اندر سے
بے پناہ کمزور بھی! اس گٹھ بندھن میں کرشمائی قیادت کا فقدان ہے۔ اس وقت جے پرکاش
نارائن کی قیادت میں تمام اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پرآگئی تھی۔پس منظر میں ایمرجنسی
اور اس کی زیادتیاں تھیں، بچہ بچہ اندرا۔سنجے اور کانگریس مخالف تھا۔ ’نوٹ بھی
دینگے ووب بھی دینگے‘ جیسے نعرے عوام میں مقبول تھے۔ پورا ملک ایک سیاسی انقلاب
برپا کرنے کی ٹھان چکا تھا۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ اندرا گاندھی او رسنجے گاندھی اپنی
لوگ سبھا سیٹ تک نہ بچا سکے؟ یہ اتحاد 27مہینے میں پارہ پارہ بھی ہوگیا۔ آج وطن
عزیز ہندوستان میں ایسی کوئی صورتحال دور دور تک نہیں ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا
زمینی سچائی یہی ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی مقبول ترین قومی لیڈر ہیں۔ سابقہ دس
برسوں میں ریاستی اور قومی دونوں سطح پر وہ اپنے پارٹی نظریے اور عوامی حمایت کو
اس پائیدان پر لے گئے کہ کانگریس جس نے لگ بھگ ساڑھے پانچ دہائی ملک کا اقتدار
سنبھالا اوراتنی لو ک سبھا سیٹ بھی نہ لاسکی کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت حاصل
کرپاتی! وہ جماعت جو کبھی 409 سیٹ تک لائی،وہ 54 پر آگئی او روہ بی جے پی جو ایک
وقت محض 2لوک سبھا ارکان رکھتی تھی وہ آج تین سو اوپر او راپنے حلیفوں کے ساتھ
ساڑھے تین سو پر ہے۔ اس کا نظریہ او رقومی ترقیاتی ایجنڈا بالکل وا ضح ہے۔ وہ ہر
انتخاب میں متواتر کامیابی حاصل کررہی ہے۔ جس کے پاس ورکر وں کا ایک زبردست کیڈر
ہے۔ آر ایس ایس جیسی منظم ملک گیر تنظیم ہے جس کی رسائی آج ہر گاؤں اور گھر تک
ہوچکی ہے جس کا انتخابی نظم اور بوتھ انتظام بے مثل ہے۔عوام سے خواص تک اور قومی
سے بین الاقوامی سطح تک مقبولیت اپنی انتہا پر ہے۔ اس کامقابلہ ایک ایسے جم غفیر
سے ہے جس کوئی کل ابھی سیدھی نہیں!
جن وعدوں کے اہداف کے
ساتھ وہ اقتدار میں آئی، اس نے بیشتر پورے کئے۔آرٹیکل 370اور 35اے،رام مندر کی
تعمیر، کامن سول کوڈ کی طرف تین طلاق بل لاکر پیش قدمی،پاکستان سے بندمذاکرات،
کامیاب خارجہ پالیسی او رہندوستان کی اکثریت میں جوش و جذبہ اور نوجوانان ہند میں
نظریہ ہندوتو کو لیکر ایسا عزم پیداکرنے میں کامیاب ہے جس کے مقابل انڈیا اتحاد جو
ایشوز لے کر آرہا ہے وہ اس کو مات نہیں دے پائیں گے۔ 2024ء میں عام انتخابات جذبات
پرزیادہ لڑے جائیں گے او ربے روزگاری،مہنگائی، بدعنوانی،جیسے ایشوز براہ راست روز
مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوئے بھی ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کی نفسیات کو متاثر کرنے
میں مکمل ناکام رہیں گے۔ذات کی بنیاد پر مردم شماری، رام مندر کی افتتاحی تقریبات
میں شرکت نہ کرنا، اقلیت نواز ی کی پالیسی،چین کے ہندوستان کی زمین پرقبضے کے تعلق
سے کی جانے والی سیاست اور مودی حکومت کوگھیر نا، یہ سب فیصلے اس اتحاد کی زمین کو
مزید مخدوش کررہے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی عوام کے جذبات و حذباتیت کے رخ کو
موڑنے کا کوئی حربہ ہے، نہ مودی جی کی ٹکر کاکوئی لیڈر او رنہ ہی ملک میں ایسی
کوئی غیر معمولی سیاسی یا سماجی بے چینی ہے جو اپوزیشن کو وہ حوصلہ وزمین فراہم
کرتی ہو جس سے سیاسی فضا میں کوئی انقلابی تبدیلی پیدا ہوسکے؟
اب آئیے مسلمانان ہند کی
طرف او ران حالات کی طرف جن کا ادراک بھی ضروری ہے۔ کس کو آپ ووٹ دینگے؟ یہ میرا
مضمون نہیں ہے۔حالات او رزمین سے آگاہی میرا عنوان ہے! فیصلہ او رفیصلے آپ کو خود
کرنے ہیں۔ البتہ چند گزارشات حاضر خدمت ہیں۔
کانگریس کو آپ جتو ااور
بی جے پی کو ہرانہیں پارہے ہیں! نریندر مودی وزیراعظم نہ بنیں اس کو آپ روک نہیں
پارہے ہیں! مخالفت کو آپ اپنی انتہا پر لے جانے کے باوجود کسی نتیجہ سے دور ہیں،
وہ کہیں آپ کے ساتھ کھڑے ہی دکھائی نہیں دے رہے ہیں! شہریت کا قانون، جموں کشمیر
ریاست کی خصو صی حیثیت تبدیلی کاقانون، تین طلاق بل، راجیہ سبھا میں سیکولر سیاسی
جماعتوں کو اکثریت کے باوجود سب کا قانون بن جانا کیا آنکھیں کھولنے کے لئے کافی
نہیں تھا یا ہے؟
میں صرف اتناکہنا چاہتا
ہوں کہ فیصلہ وہ کریں جو آپ کاضمیر کہے۔مگر اس طرز عمل کو ضرور ترک کردیجئے جس میں
جماعت خاص کے خلاف اپیلیں،برملا اعلانات، اس کے نامزد امیدواروں کو ہرانے کیلئے ہر
حد سے گزرنا، راست مخاصمت مول لینا، ہر حال او رہر قیمت پر ہرانے کے لئے راست
ٹکراؤ۔یہ سب بطور رویہ درست نہیں۔البتہ اس کا فیض فریق ثانی کو یقینی ہے۔ متعدد
مثالیں موجود ہیں۔ ایک تلخ نصیحت شعلہ بیان مقررین کے جھانسے میں نہ آئیں، ملت کی
زیادہ باتیں کرنے والے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں؟ معاذاللہ!
اللہ نے الحمداللہ آپ میں
سے ہر ایک کو عقل سلیم عطا کی ہے اور ادراک کی صلاحیت سے بھی نواز ا ہے۔ خود
انحصار ی کا مزاج بنائیے! کوئی آپ کو نہ بیساکھی بنائے او رنہ آپ کسی کی بیساکھی
بنیں!
سیاست کو سیاست کی حد تک
لیں، آپ سب صاحب رائے ہیں، موافقت یا مخالفت سیاسی ہو او رسیاسی بنیادوں پر ہو! اس
میں نفرت اور منافرت کی زمین بالکل نہ ہو! جمہوریت کا عقلی جواز رائے کے بالغ اظہار
میں ہے جس کا استعمال آ پ باشعور قوم کی طرح کریں۔
19 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism