New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:31 AM

Urdu Section ( 27 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A new angle of sectarianism فرقہ پرستی کا نیا زاویہ

عبدالحمید نعمانی

25 نومبر،2024

ملک میں مختلف طریقوں سے فرقہ پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہیں، تقسیم وطن سے پہلے اور تقسیم ہند کے بعد کے حالات پھر پیدا کرکے بھارت کو ایک خاص سمت میں لے کر مہم زوروں پر ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پروگرام ’سنگم‘ شری کرشن سریواستو کی طرف سے پیش کیا جاتاہے، اس پر پیش کردہ خطابات کی گئی باتیں آج کل موضوع بحث ہیں۔ باتوں کو پیش کرنے کے طریقوں سے اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بہت سی نفرت انگیز غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں۔ان کے ازالے پر توجہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے ذریعے کتب خانہ اسکندریہ کے جلانے کے الزام اور اورنگزیب کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کے تناظر میں کہا تھا کہ مستشرقین ایک عنوان کے تحت ایک ساتھ کئی سارے اعتراضات ومسائل اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں، یہی کچھ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہندوتو وادی عناصر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر کئی جہات سے الگ الگ موضوعات کے ماہرین کو دستیاب میسر پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے اصل حقائق کو سامنے لانا ہوگا، ایسا ماضی میں مسلم اہل علم افراد و اداروں نے کیا بھی ہے، کتب خانہ اسکندریہ کو مسلمانوں کے ذریعے نذر آتش کرنے کے الزام کی علامہ شبلیؒ، مولانا سید سلمان ندویؒ اور دیگر درجنوں اہل علم دھجیاں اڑا چکے ہیں لیکن ملک کے قومی شاعر و معروف ادیب و مصنف کو ان کی تحقیقات کا علم نہیں ہے، اس لیے انہوں نے اپنی معروف او ربہت پڑھی جانے والی کتاب سنسکرتی کے چار ادھیائے میں مستشرقین کے نوالے کی چگالی کرنے کا کام کیا ہے جب کہ بہت سے انصاف پسند اہل تحقیق مستشرقین نے بھی مسلمانوں کے ذریعے کتب خانہ اسکندریہ جلانے کے الزام کی مضبوط دلائل سے تردید کی ہے۔ گزشتہ دنوں جمعیت علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں مطالعہ تاریخ کی ضرورت کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کسی خاص پیش رفت کی بات سامنے نہیں آئی ہے، تاہم اس پر آج نہ کل کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کے مخصوص تناظر میں سب سے زیادہ کام کرنے کے مواقع جمعیت علماء ہند کے پاس ہیں کہ اس کی متحدہ قومیت اور ملک کی بہتر تعمیر و تشکیل کی ایک شاندار تاریخ ہے وہ آسانی سے اس تاثر کی تردید کرسکتی ہے کہ مسلمان راشٹر وادی نہیں ہوسکتا ہے۔ شری کرشن سریواستو نے بھی اس کو دوہرایا ہے کہ جو مسلمان ہوگا وہ راشٹر وادی نہیں ہوسکتا ہے اور جو راشٹر وادی ہوگا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا، ا س سلسلے میں بے ایمانی یہ کی جاتی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، متحد ہ قومیت کے بارے میں جمعیت علماء ہند، مومن کانفرنس، امارت شرعیہ او ران کے رہنما ؤں، مولانا مدنیؒ، مولانا آزاد ؒ، مولانا محمد سجادؒ، مفتی کفایت اللہؒ وغیرہ کی خدمات و کردار کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا جاتاہے۔ یہ زور وشور سے پرچار کیاجاتاہے کہ حب الوطنی، راشٹر واد اور اسلام اور مسلمانوں کے درمیان چھتیس کا آنکڑا اور تضاد تصادم ہے،مسلمانوں کا یہ ذہن اسلام اور اس کے نمائندے، علماء خصوصاً انیسویں صدی کے مسلم دانشوروں، رہنماؤں، سرسید، اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد وغیر ہ ہم نے بنایا ہے، وہ غیرمسلموں میں مبغوض وملعون شخصیات، مسلم حکمراں، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، بابر، اورنگزیب،احمد شاہ ابدالی، ٹیپو سلطان وغیر ہ کو آئیڈیل اور آئیکون بنا کر سماج میں پیش کرتے ہیں، جس کے سبب مسلمانوں میں دیش بھکتی،حب الوطنی کا جذبہ پیدا کر پروان نہیں چڑھ پاتاہے، وہ اسلام کووطن مانتے ہوئے بھارت جیسے ملک کو وطن ماننے کی بجائے اسے ایسا بت سمجھتے ہیں کہ جس کو مٹانا ختم کردینا، مسلمانوں کے لیے، اسلام کی پیروی وعمل کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہ تاثرات و الزامات ہیں جن کو کئی سارے لوگ،اسلام اور مسلم معاملات و شخصیات کے جانکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پورے ملک میں بتاتے اور پرچار کرتے پھررہے ہیں، وہ جدید ذرائع ابلاغ کی سہولتوں کا استعمال کرکے خود کو سامنے لاتے ہوئے، اکثریتی سماج کے فرقہ پرست لوگوں میں اپنا مخصوص گیان بانٹتے نظر آتے ہیں۔

2014 ء میں مرکز میں مودی سرکار کی تشکیل کے بعد سے،اچانک تبدیلی دل ودماغ کے ساتھ بہت سے اسلام اور مسلمانوں کے مسائل کے جانکار و ماہرین سامنے آگئے ہیں، منوج منتشر، پشپیندر کل سریشٹ، شری کرشن سریواستو،وغیر ہ اسی زمرے میں آتے ہیں، وہ سرسید، اقبال،وغیرہ کے حوالے سے فرقہ پرستی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے مختلف فرقوں میں نفرت و دوری پیدا کرنے کا خوب خوب جتن کررہے ہیں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقسیم ہند اور پاکستان بنانے کی راہ ہموار کرنے والوں میں ایک ہی سانس میں جناح کے ساتھ، سرسید، اقبال،مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی لیا جارہاہے، یہ سراسر آر ایس ایس کی ہندوتو وادی لائن ہے، ا سکے نزدیک بھارت اور ہندوؤں کے لیے، مولانا آزادؒ،محمد علی جناح سے زیادہ خطرناک اور فریبی ہیں، گرو گولکر کی کتاب، بنچ آف تھاٹس میں یہ درج تبصرہ اوپر سے نیچے تک گردش کرتا رہتاہے، اس پر تنقید وتردید پیش کرنے کی بجائے مولانا آزادؒ سے قرابت جتلانے والے، مولانا آزاد کو آر ایس ایس سے متاثر قریب باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اب جاکر بجا طور سے یہ شکوہ کیا جارہا ہے کہ ہندوستان کے متعلق،مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کے ذریعے انجام دی گئیں خدمات اور ان کی قربانیوں کو تمام سرکاری، غیر سرکاری اداروں، سیاسی پارٹیوں اور شخصیات نے بھلادیا ہے۔

اس کے اسباب میں سے ایک اہم سبب، ہندوتو اور آر ایس ایس کے متعلق ایک طرح سے سپر اندازی کا روش ورویہ او رکچھ عہدے ومناصب پر قناعت کرکے، مولانا آزادؒ،مدنیؒ اور گاندھی کے بگڑتے بھارت پر خاموشی و تحسین و تبریک کا عمل ہے، مختلف بہانوں و طریقوں سے مسلم رہنما شخصیات کا انہدام، ایک منصوبہ بند عمل کا حصہ ہے، ایسے حالات میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ زیر بحث اور تاریخ کے مختلف ابواب میں درج قابل ذکر شخصیات کا بدلتے حالات میں از سرنو مطالعہ کرکے اہم رونما خطوط کو سامنے لایا جائے، سرسید اور اقبال وغیرہ کو جس طرح غلط رنگ میں پیش کرکے فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ نفرت ودوری کو بڑھانے کا کام کیا جارہا ہے، اس پر توجہ دے کر غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ حالانکہ اصل بات صرف اتنی ہے کہ شری رام کو جس طور سے اقبال نے پیش کیا ہے اس سے بہتر فکر و طریقہ نہیں ہوسکتا ہے اور رامائن کی مختلف روایات اور کہانیوں میں سے مبنی برحقیقت انتخاب ہے اور چین وعرب اور سارا جہاں ہمار ا کہنے میں تنگ نظری اور نفرت ونفی پر مبنی راشٹر واد کی تردید کے ساتھ اپنے وطن سے بھر پور ارضی وابستگی کا اظہار بھی پایا جاتا ہے، اقبال نے ملی ترانہ میں چین وعرب او ر سارا جہاں ہمارا کہنے کے ساتھ، ہندوستان ہمارا بھی کہاہے، یہ ایک طرح سے فکری توسیع وارتقاء او رایک محدود دائر ے سے وسیع تر دائرے کی طرف جانے کی شعوری کوشش و عمل ہے۔ اقبال کے اردو فارسی کلام اور انگریزی، اردو نثری تخلیقات میں 1905ء تک کے کلام کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کو شری کرشن سریواستو، اور ان سے پہلے رام دھاری سنگھ دنکر، بھگوان سنگھ مجنو ں گورکھپوری اور تقسیم ہند کے حامی، لیگی سوچ کے ناقدین ومصنفین او رلیڈروں نے سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے، فکری وشعری توسیع وار تقاء کو تنسیخ و تردید قرار دے کر باتوں کو کچھ سے کچھ بنا کر پیش کرنے کی کوششوں کو کسی طور سے بھی صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

25 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/new-angle-sectarianism/d/133836

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..