مذہبی اقلیتوں کے خلاف
تشدد کے حالیہ واقعات مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتے ہیں۔
اہم نکات:
1. اقوام متحدہ اسلامو
فوبیا کو تسلیم کرتا ہے لیکن مسلمانوں کو اپنے درمیان مذہبی عدم برداشت کو بھی
تسلیم کرنا چاہیے۔
2. بنگلہ دیش میں کے مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
3. پاکستان میں شیعہ
مسجد پر حملہ کیا گیا۔
4. پاکستان میں عیسائی
چرچ کے فادر کو قتل کر دیا گیا۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
22 مارچ 2022
File
Photo
-----
15 مارچ 2022 کو اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے مقابلے
کا عالمی دن قرار دیا۔ اگرچہ، کچھ مغربی اور ایشیائی ممالک نے اپنے کچھ تحفظات کا
اظہار کیا ہے لیکن وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامو فوبیا ایک حقیقت ہے اور اس کا
مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ مسلم میڈیا اس خبر پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گیا کیونکہ
اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو اپنانے کے عمل نے ان کی بے گناہی پر مہر ثبت کر
دی تھی۔ انہیں یہ سوچ کر سکون ملا کہ اب انہیں مذہب کی بنیاد پر ہراسانی یا
امتیازی سلوک کا شکار نہیں بنایا جائے گا اور وہ دقیانوسی تصور نہیں کیے جائیں گے۔
لیکن اسلامو فوبیا سے
لڑنے کے عالمی دن پر اقوام متحدہ کی قرارداد سے دس روز قبل پشاور میں نماز جمعہ کے
دوران ایک شیعہ مسجد میں دہشت گردانہ حملہ کیا گیا جس میں 62 افراد ہلاک اور سو کے
قریب زخمی ہوئے۔ اس سے ایک ماہ قبل فروری میں ایک عیسائی چرچ کے فادر کو پاکستان
میں اسلام پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔
اسلامو فوبیا پر اقوام
متحدہ کی قرارداد کے تین دن بعد، 18 مارچ کو، بنگلہ دیش میں ایک اسکون مندر پر ایک
حاجی صفی اللہ اور ایک اشرف صوفی کی قیادت میں 200 سے زائد افراد نے حملہ کیا۔
مسلم اکثریتی پاکستان اور
بنگلہ دیش میں ہندو، شیعہ اور عیسائی اقلیتوں پر حملوں کے یہ تینوں واقعات
مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ
بنگلہ دیش میں فسادی ہجوم کی قیادت کرنے والے ایک 'حاجی' اور 'صوفی' تھے۔ وہ اس
بات سے واقف نہیں ہیں کہ اسکون کی مذہبی تحریک مذہبی رواداری کے مذہبی فلسفے پر
مبنی ہے جس کی تبلیغ شری رام کرشن پرمھانسا نے کی تھی جس نے اسلام اور عیسائیت کا
احترام کیا تھا اور تین دن تک اسلام پر عمل بھی کیا تھا اور گائے کا گوشت بھی
کھانا چاہا تھا لیکن ان کا ایک شاگرد کسی طرح انہیں ایسا کرنے سے روکنے میں کامیاب
ہو گیا۔
(File
Photo)
-----
پشاور میں شیعہ مسجد پر
دہشت گرد حملہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ایک مسجد میں کیا گیا اور 60 سے
زیادہ بے گناہ مسلمانوں کی جانیں گئیں۔ پھر بھی حکومت پاکستان نے اپنی بے حسی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معمولی واقعے کے طور پر لیا۔ ایسے واقعات پر زیرو ٹالرنس کی
رسمی باتیں کی گئیں اور پھر مسلمان اسے ہمیشہ کی طرح بھول گئے۔ الازہر یا کسی
دوسری ممتاز مذہبی تنظیم یا مفتی کی طرف سے اس حادثے کی مذمت میں کوئی ایک لفظ بھی
نہیں سنا گیا، اور نہ ہی مسلم علماء، مسلم تنظیموں اور مسلم حکومتوں کی طرف سے
ایسے گھناؤنے حملوں کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی کوئی بات سامنے آئی۔
ایسا نہیں ہے کہ معصوم
اقلیتوں کے خلاف یہ تینوں سنگین گناہ جو یکے بعد دیگرے کیے گئے تھے نایاب اور غیر
معمولی تھے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں پر حملے
باقاعدگی سے رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور گزشتہ دس سالوں کے دوران ایسے ہزاروں واقعات
رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2013 میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فرقہ
وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ پاکستان میں 50 کی دہائی میں احمدیہ فرقہ کے خلاف بڑے
پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ پاکستان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں جلوسوں،
اسکولی گاڑیوں اور شیعوں کی مساجد اور رہائشی اور کاروباری کمپلیکس پر سینکڑوں
حملے ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند اسلامی تنظیموں نے کیے جو آج آزاد گھوم رہے
ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان یا برصغیر پاک و ہند کے مسلم دانشوروں اور
مذہبی قیادت کے درمیان اس لعنت سے لڑنے کے لیے ایک اجتماعی طریقہ کار ترتیب دینے
کی ضرورت پر کوئی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا۔
برصغیر پاک و ہند کی
مذہبی قیادت کبھی کبھار رسمی بیانات دیتی ہے مثلا 'اسلام امن کا مذہب ہے'، یا
'اسلام تشدد کی تبلیغ نہیں کرتا' یا یہ کہ 'اسلام دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا'
لیکن کبھی بھی وہ ان تنظیموں کا نام نہیں لیتے جنہیں وہ دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ اس
کے برعکس اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کھلے عام یا ڈھکے چھپے
انداز میں عسکریت پسند تنظیموں کی تعریف یا حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلا، جب
یہ علمائے کرام طالبان کی حمایت کرتے ہیں، تو فطری طور پر ان کے لاکھوں طلبہ اور
چاہنے والے اور پیروکار اپنے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیتے ہیں۔ اسی
طرح، پاکستان میں، جب حکومتی وزراء اور مذہبی رہنما اور مفتیان ٹی ٹی پی یا سپاہ
صحابہ کے زیر اہتمام جلسوں یا ریلیوں میں شرکت کرتے ہیں جو کہ اقلیتوں بالخصوص
شیعوں کی دشمن عسکریت پسند تنظیمیں ہیں، تو لاکھوں مسلمان ان کے فرقہ وارانہ
نظریات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ان اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات
رونما ہوتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن و سنت کی اسلامی تشریحات کی بنیاد پر غیر مسلموں کے خلاف تشدد اور خونریزی کا ہر واقعہ اسلامو فوبیا کو فروغ دیتا ہے۔ جب حاجی اور صوفی کے نام سے مشہور لوگ غیر مسلموں کے خلاف تشدد میں حصہ لیتے ہیں، تو اس سے داڑھی، ٹوپی یا حتیٰ کہ صوفی لباس کے خلاف بھی دقیانوسی تصورات پیدا ہوتے ہیں۔
اس لیے اگر مسلمان اسلامو
فوبیا سے لڑنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے اپنے درمیان مذہبی عدم رواداری کا مقابلہ
کرنے کے لیے ایک اجتماعی طریقہ کار تیار کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ ایسے اقدام کے
لیے ایک بہت ہی موثر پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان کو مذہبی عدم رواداری کے خلاف جنگ میں
پہل کرنی چاہیے جیسا کہ اس نے اسلامو فوبیا سے لڑنے کے لیے کیا تھا۔ اسے مسلم
ممالک میں مذہبی عدم برداشت سے لڑنے کے لیے ایک قرارداد پیش کرنا چاہیے اور مسلم
ممالک کو انتہاپسند مذہبی علماء کے ثانوی مذہبی لٹریچر سے نفرت اور تشدد کے نظریے
کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو
اسلامو فوبیا کے خلاف جنگ محض کاغذ پر کی گئی قرارداد تک ہی محدود رہے گی۔
English
Article: Islamophobia Should Be Fought Along With Muslim
Intolerance
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism