موصل کے خلیفہ یوکرین میں
کافر پوتن کے لیے لڑیں گے۔
اہم نکات:
1. داعش کے سابق جنگجو
یوکرین میں پوتن کے لیے لڑیں گے۔
2. پہلے انہیں اردگان
نے آذربائیجان میں لڑنے کے لیے رکھا تھا۔
3. موصل کے سابق خلفاء
کو کرائے کا سپاہی بنا دیا گیا ہے۔
4. نام نہاد خلیفہ
بغدادی کے جنگجوؤں کا یہ انجام ہمارے اسلامی علماء اور تنظیموں کے دل توڑ دے گا۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
14 مارچ 2022
جیسے جیسے یوکرین میں جنگ
طول پکڑتی اور شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، اطلاعات کے مطابق ہر ملک اپنے مخالف پر
بالادستی حاصل کرنے کے لیے مایوس کن ذرائع کا سہارا لے رہا ہے۔
ایک طرف یوکرین کے صدر
زیلنسکی نے جنگجوؤں کی کمی سے مجبور ہو کو غیر ملکی جنگجوؤں کو روس کے خلاف لڑنے
کی دعوت دی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان کے 16,000 سے زیادہ رضاکاروں نے
لڑنے کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے۔ ان رضاکاروں میں جنگی تجربے والے اور ناتجربہ
کار سابق فوجی اور باورچی اور مزاح نگار جیسے عام لوگ شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ
یہ جنگ اب ایک ڈرامائی موڑ اختیار کرنے والی ہے۔
بیرون ملک مقیم کئی
یوکرائنی شہری بھی اپنے ملک کی خاطر لڑنے کے لیے یوکرین پہنچ چکے ہیں۔
دوسری طرف، روسی صدر پوتن
نے مبینہ طور پر داعش کے سابق جنگجوؤں کی خدمات طلب کی ہیں تاکہ وہ 'نیو نازیوں'
اور منشیات کے عادی افراد سے لڑ سکیں۔
روس نے باضابطہ طور پر
اعلان کیا تھا کہ وہ 2014-2015 کے دوران داعش کے خلاف لڑنے والے شامی جنگجوؤں کی
خدمات حاصل کرے گا۔ لیکن یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ روس شام سے داعش کے 16,000
سابق جنگجوؤں کی خدمات حاصل کرنے جا رہا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو اس کے خطے
میں اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
عرب بہاریہ کے دوران،
داعش نے عوامی بغاوت کو ہائی جیک کر لیا تھا اور بشار الاسد کی سربراہی میں شیعہ
اکثریتی ملک شام کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اگرچہ، امریکہ بظاہر داعش کے
خلاف لڑ رہا تھا اور شامی ڈیموکریٹک فورسز اور فری سیرین آرمی کی مدد کر رہا تھا،
لیکن اسے داعش سے لڑنے سے زیادہ بشار الاسد کو زیر کرنے میں دلچسپی تھی۔ 2016 کے
دوران، صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ
امریکی حکومت نے داعش کو شکست دینے کے لیے ایس ڈی ایف کو سنجیدگی سے اور مؤثر
طریقے سے تربیت نہیں دی تھی۔ ان کا اشارہ شاید شام میں امریکی حکومت کے خفیہ کھیل
کی طرف تھا۔ جواب میں ان کے حریف امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہلیری کلنٹن
اور براک اوباما داعش کے مشترکہ بانی ہیں۔ یہ ایک سنگین الزام تھا اور اس نے خطے
میں امریکی خفیہ سیاسی کھیل کو بے نقاب کر دیا۔ آخر کار داعش نے موصل پر قبضہ کر
کے اپنی نام نہاد خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا۔
امریکہ بشار الاسد کی
حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس قدر بے چین تھا کہ اس نے پوتن کو داعش پر بمباری
کرنے سے روکنے کی کوشش کی تاکہ شام کے شہروں کی طرف ان کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔
اوباما کے ساتھ ملاقات کے دوران پوتن نے کہا تھا کہ وہ 'جگر خوروں' کے ساتھ اتحاد
نہیں کر سکتے اس ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں داعش کے ایک جنگجو کو اپنے مردہ
حریف کے جگر کو کاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
جنگ کے دوران سعودی عرب
اور قطر نے اپنی مدد سے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے مقصد سے داعش کو مالی امداد
فراہم کی تھی۔ یہ محض قیاس آرائیوں پر نہیں بلکہ سعودی حکومت کے ایک وزیر کے بیان
پر مبنی ہے۔ جب امریکا نے داعش یا ایس ڈی ایف کی مدد سے اسد حکومت کو گرانے میں
ناکامی کے بعد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام میں شام پر براہ راست حملہ
کرنے کا فیصلہ کیا تو سعودی انٹیلی جنس کے وزیر بندر بن سلطان نے روسی صدر پیوٹن
سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اور ان سے کہا کہ "عراق اور شام میں
سرگرم دہشت گرد گروہ ہمارے کنٹرول میں ہیں، اگر آپ شام کے خلاف ہماری لڑائی میں مداخلت
نہیں کرتے ہیں، تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں سوچی
اولمپکس میں خلل پیدا نہ کریں۔ (جو اس دوران منعقد کیا جا رہا تھا)۔" سعودی
عرب کی طرف سے روس کو یہ کھلی دھمکی تھی کہ اگر اس نے شام کو امریکی حملے سے بچانے
کی کوشش کی تو وہ سوچی میں داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بے لگام کر دیں گے۔
اس سے پوتن کو غصہ آیا اور انہوں نے اپنی فوج کو 2 منٹ کے موڈ (اٹیک موڈ) پر جانے
کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے سعودی عرب کو خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے شام
پر حملہ کیا تو روس سعودی عرب پر حملہ کر دے گا۔ اس سے ایک رکاوٹ پیدا ہو گئی اور
شام تباہ ہونے سے بچ گیا۔
تاہم، 2020 میں، داعش کو
لیونٹ سے مکمل طور پر نکال دیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد داعش نے اپنا اصل چہرہ ظاہر
کیا۔ اس نے افغانستان، سری لنکا، فلیپن اور بنگلہ دیش میں دہشت گردانہ حملے شروع
کر دیے۔ لیکن اس سلسلے کا سب سے حیران کن واقعہ ستمبر 2020 میں ترکی کے صدر
ایردوان کا آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں داعش کے ان جنگجوؤں کی خدمات حاصل
کرنا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ترکی نے آذربائیجان میں عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے
خلاف لڑنے کے لیے داعش کے 4000 جنگجو کرائے پر بھیجے تھے۔ اس سے قبل بھی ترکی داعش
کی خفیہ حمایت کر چکا تھا کیونکہ ایس ڈی ایف
کی سربراہی کرد کر رہے تھے جو ترکی میں کردوں کے لیے ایک آزاد ملک کے لیے
لڑتے رہے ہیں۔
اب داعش کے سابق جنگجوؤں
کے یوکرین کے خلاف روسی فوجیوں میں شامل ہونے کی خبروں نے داعش کا اصل چہرہ بے
نقاب کر دیا ہے۔ یہ ان اسلامی تنظیموں اور علماء کے لیے سبق ہے جنہوں نے انہیں
خلافت کا حقیقی علم بردار قرار دیا تھا۔ انہیں پیسے کے عوض کوئی بھی ملک، خواہ
مسلم ہو یا غیر مسلم، رکھ سکتا ہے۔ وہ کرائے کے غاصبوں کے گروہ میں سمٹ کر رہ گئے
ہیں جن کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہے اور ان کا کام صرف زمین پر فساد (خونریزی)
مچانا ہے۔ روس نے 15-2014 میں ان کے خلاف کریک ڈاؤن اس لیے نہیں کیا کہ وہ شیعوں
کا حامی اور سنیوں کا دشمن تھا بلکہ اس لیے کہ داعش امریکہ اور سعودی عرب کے
ہاتھوں کی کٹھ پتلی تھا جو نہیں چاہتے تھے کہ خطے میں شام کے ساتھ روس کے تجارتی
اور اقتصادی تعلقات بحال ہوں اور فروغ پائیں۔ اب جبکہ پوتن کا مقصد پورا ہو چکا ہے
اور شام میں ان کے تجارتی مفادات کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور داعش اب صرف کرائے کے
فوجیوں کا گروہ بن کر رہ گیا ہے، روس اپنے حقیقی پیشہ ور فوجیوں کو کھوئے بغیر
انہیں یوکرین کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ چونکہ، یوکرین روس سے لڑنے کے لیے غیر
پیشہ ور افراد کو استعمال کر رہا ہے، اس لیے روس بھی اپنے پیشہ ور فوجیوں کو
نوزائیدوں کے خلاف لڑانا بے سود سمجھتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے
ندوی، قاسمی، نعمانی اور اصلاحی علماء اس بات پر غور کریں کہ داعش نے آذربائیجان
میں کس قسم کی خلافت قائم کی ہے یا یوکرین میں خلافت کے قیام کے کیا امکانات ہیں۔
داعش کرائے کے جنگجوؤں کا
ایک گروہ تھا جسے مغربی طاقتوں نے تیار کیا، تربیت دی، مالی امداد دی اور صرف مشرق
وسطیٰ میں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے میدان میں اتارا۔
انہوں نے پوری دنیا کے سنیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خانہ جنگی کو شیعہ سنی
تنازعہ بنا کر پیش کیا حالانکہ درحقیقت یہ روسی اور یورپی سیاسی اور اقتصادی
مفادات کا تصادم تھا۔ نیٹو نے داعش سے لڑنے کے نام پر پورے خطے کو تباہ کر دیا
لیکن یوکرین کو بچانے کی ہمت نہیں پیدا کر سکا کیونکہ ان کا مقابلہ ایک طاقتور ملک
روس سے ہے۔ نیٹو ممالک یوکرین میں فوجی اور جنگی طیارے بھیجنے کے بجائے روس کی
طاقتور فوج کے خلاف لڑنے کے لیے باورچی، کامیڈین اور گلوکاروں کو بھیج رہے ہیں۔ وہ
یوکرین، جارجیا اور پولینڈ کو میدان جنگ نہیں بنانا چاہتے جیسا کہ انہوں نے مشرق
وسطیٰ کو بنایا کیونکہ وہ یورپی ممالک کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔
English
Article: ISIS in Ukraine: Putin to Hire Ex-ISIS 'Liver-Eaters'
To Fight 'Neo-Nazis' In Ukraine
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism