مسلم بچیوں کا تعلیمی
کیرئیر داؤ پر لگا ہوا ہے
اہم نکات:
1. قرآن میں چہرے کو
ڈھانپنے یا برقع پہننے کا حکم نہیں ہے
2. علمائے بغیر کسی
جواز کے ایک آنکھ والے برقع پر اصرار کرتے ہیں
3. پٹیشن داخل کرنے
والوں کا کہنا ہے کہ حجاب صرف ایک روایت ہے
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
26 فروری 2022
(From
the Files)
-----
حجاب معاملے پر کرناٹک
ہائی کورٹ میں 11 دن تک سماعت اور بحث ہوئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ حجاب کوئی ضروری مذہبی عمل نہیں ہے۔ انھوں
نے ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا حوالہ دیا کہ ’’ہمیں اپنی
مذہبی ہدایات کو تعلیمی اداروں سے باہر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آئین
کے آرٹیکل 25 کے تحت صرف ای آر پی یعنی ضروری مذہبی عمل کو ہی تحفظ حاصل ہے۔ دلچسپ
بات یہ ہے کہ پٹیشن داخل کرنے والے کالج کے طالب علموں کا موقف یہ تھا کہ چہرہ
ڈھانپنا ایک ضروری مذہبی عمل ہے اور اس لیے انہیں حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے کی
اجازت دی جانی چاہیے لیکن ان کے وکیل قرآن یا حدیث سے کوئی حوالہ نہیں دے سکے جس
سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ ضروری مذہبی عمل ہے۔
غالباً انہوں نے سورہ
احزاب کی آیت نمبر 59 کا محمد پکتھال کا ترجمہ نقل کیا ہے جو اس طرح ہے: ’’اے نبی
ﷺ، اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے
اردگرد باندھ لیں (جب وہ باہر جائیں)۔ یہ بہتر ہو گا، تاکہ وہ پہچانی جائیں اور
پریشان نہ ہوں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔" پٹیشن کنندگان کے
وکیل نے یہ بھی کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر چہرے کو ڈھانپنے کی ضرورت نہ ہو تب
بھی حجاب (سر کو ڈھانپنا) ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چہرہ ڈھانپنا ضمیر کی آواز پر
مبنی روایت ہے اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ضروری مذہبی عمل ہے یا نہیں۔
یہ صرف ایک کپڑا ہے جو سر اور چہرے کو ڈھانپتا ہے۔
کیا اب دلیل اس بات پر ہے
کہ یہ ضمیر کی آواز پر مبنی روایت ہے جبکہ پہلے کہا جاتا تھا کہ چہرہ ڈھانپنا ایک
مذہبی حکم ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ حجاب کے حوالے سے قرآن مجید کی ایک اور آیت کا
ترجمہ نقل کیا جائے: سورہ نور کی آیت 31-30 میں ہے: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی
نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے،
بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ
نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود
ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ
کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے
بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی
کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے
جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ
جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب
اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ،"
یہاں سورہ احزاب کی آیت
(59) کا محسن خان کا ایک اور ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
کس طرح قرآن کے مفسرین اور مترجمین نے تراجم کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے
اپنے فرقہ وارانہ خیالات کو قرآن میں داخل کر دیا ہے: اے نبی اپنی بیویوں سے کہو
اور آپ کی بیٹیاں اور مومنین کی عورتیں اپنے تمام بدن پر اپنی چادریں اوڑھ لیں
(یعنی راستہ دیکھنے کے لیے دونوں آنکھوں یا صرف ایک آنکھ کے علاوہ خود کو مکمل طور
پرڈھانپ لیں)۔ یہ بہتر ہوگا کہ انہیں (آزاد عزت دار خواتین کے طور پر) جانا جائے
تاکہ پریشان نہ ہوں۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔" کچھ اسلامی اسکالرز کا
اصرار ہے کہ خواتین کو ایک آنکھ کے سامنے سوراخ کے ساتھ پورے جسم کا برقع پہننا
چاہیے۔ محسن خان نے اپنے ترجمے میں یہ عقیدہ ڈالا ہے حالانکہ قرآن یا حدیث میں اس
کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ برقع کے حامی اسے قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں کر سکے۔پکتھال
یا دوسرے ایماندار مترجمین کے تراجم میں چہرے کو ڈھانپنے یا پورے جسم کے پردہ کو
لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔سورہ نور کی آیت نمبر 31 کی اردو تفسیر میں مولانا
شبیر عثمانی لکھتے ہیں: " جسم کا سب سے زیادہ نمایاں حصہ چھاتی ہے۔ اس پر
پردہ ڈالنے کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے اور جاہلیت کے رواج کو ختم کرنے کا طریقہ
بھی بتایا گیا ہے۔ جاہلیت کے دور میں عورتیں خمار (دوپٹہ) استعمال کرتی تھیں جسے
وہ سر پر ڈالتی تھیں اور پھر اسے کندھوں پر لپیٹ کر سینوں کو ڈھانپتی تھیں۔
(From
the Files)
-----
اس طرح چھاتی کی شکل
نمایاں رہے گی۔ گویا یہ حسن کی نمائش ہے۔ قرآن نے سکھایا کہ دوپٹہ سر پر باہر ہونا
چاہیے اور پھر اسے چھاتی کے گرد لپیٹ لینا چاہیے تاکہ کان، گردن اور چھاتیاں پوری
طرح ڈھکی رہیں۔" یہاں چہرے کو ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے۔ تنازعہ اس وقت شروع
ہوا جب کالج انتظامیہ نے چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی لگا دی۔ کلاس میں کچھ لڑکیوں
نے پرنسپل سے کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن ہمیں منع
کر دیا گیا ۔اطلاعات کے مطابق پی ایف آئی کے اسٹوڈنٹس ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا نے
پابندی کے خلاف احتجاج کے لیے پریس کانفرنس کی تھی۔ لڑکیوں نے پرنسپل سے رابطہ کیا
اور کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت مانگی لیکن ہمیں منع کر دیا گیا، طالبات نے پریس
کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
اگر عدالت کا حکم ان کے
خلاف جاتا ہے تو لڑکیوں کو یا تو حجاب ہٹانا پڑے گا یا کالج چھوڑنا پڑے گا۔ مؤخر
الذکر صورت میں ان کا تعلیمی کیریئر ختم ہو جائے گا۔ ان کا اپنے مقاصد کے حصول اور
اپنی برادری اور ملک کی خدمت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک آنکھ
والے مفسرین اور علمائے کرام کے ساتھ ساتھ قدامت پسند تنظیمیں بھی ذمہ دار ہوں گی۔
لڑکیوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ تعلیم پر چہرے کے پردے (حجاب) کو ترجیح دیں
گی جس کی قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ انہیں ایک بڑی الجھن کا سامنا کرنا
پڑے گا۔
English
Article: Hijab Controversy: Unable to prove from Quran and
Hadith that Face Veil is Obligatory in Islam, Petitioners Now Rely on Tradition
and Voice of Conscience
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism