نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
28 مئی 2022
حکیم محمد اجمل خان کا نام
صرف ہندوستان میں طب یونانی کے احیا اور اس کے فروغ کے تعلق سے ہی نہیں جانا جاتا بلکہ
انہیں ایک روشن خیال سیاستداں, اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں
نے ہندوستان میں طب یونانی اور آیوروید کو اس کا جائز مقام دلانے کی کوشش کی اور بہت
حد تک اس میں کامیاب بھی رہے۔اس کے علاوہ انہوں نے یندوستان کی جدوجہد آزادی میں می
بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانے کیلئے جامعہ ملیہ اسلامیہ
کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
حکیم اجمل خان کی پیداش
11 فروری 1868 کو رام پور میں ہوئی۔ ان کا پورا خاندان طبابت کے پیشے سے وابستہ تھا۔
ان کے دادا حکیم شریف خان مغل بادشاہ شاہ عالم کے طبیب خاص تھے۔ان کے والد حکیم محمود
خان بھی ایک طبیب حاذق تھے۔ لہذا حکیم محمد اجمل خان بھی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے
بعد طبابت کے پیشے میں آگئے اور اپنی ذہانت و فطانت کے بل پر اس شعبے کو نہ صرف مقبول
بنایا بلکہ اس کا احیاء بھی کیا۔
حکیم اجمل خاں نے طب یونانی
کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ انہوں نے طب یونانی کو منظم کرنے کیلئے
1906 میں آل انڈیا یونانی و آیورویدک کانگریس نام کی انجمن قائم کی اورتمام یونانی
اور آیوروید کے اطبا ء کو ایک پرچم تلے متحد کیا۔ انگریزوں کی حکومت انگریزی دواؤں
کو فروغ دینا چاہتی تھی اس لئے وہ آیورویدک اور یونانی طریقہ علاج کو غیر قانونی قرار
دینے کے لئے ایک قانون لانا چاہتی تھی۔ اس قانون کے تحت تمام ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے
کیلئے رجسٹریشن لازمی ہوتا اور یونانی اور آیورویدی طبیبوں کو رجسٹریشن کے لئے نا اہل
قرار دیا جاتا۔ حکیم اجمل خان نے سمجھ لیا کی برطانوی حکومت کا یہ اقدام ہندوستان کی
قدیم طبی حکمت کا گلا گھونٹنے اور یونانی اور آیوروید طریقہ علاج کو بے کار ثابت کرنے
اور اسے ختم کرنے کی کوشش ہے۔ لہذا انہوں نے ملک کے تمام اطباء کو ایک پلیٹ فارم پر
متحد کیا اور ایک کانفرنس منعقد کی جس میں ملک کے تقریبا 400 حکیم اور طبیب شریک ہوئے
اور قدرتی طریقہ علاج کی افادیت بیان کی۔ اس کے بعد حکومت برطانیہ اپنے اقدام سے پیچھے
ہٹنے پر مجبور ہوئی۔
حکیم اجمل خان طب یونانی کو
فروغ دینے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ انہوں نے اس شعبے میں نئے نئے ریسرچ اور تجربات کئے
اور اپنے نسخوں مدون کرکے یونانی انڈیکس تیار کرنے میں مدد کی۔ وہ چاہتے تھے کہ یونانی
طبیب اور حکیم جدید طبی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر طب یونانی کو فروغ دیں۔ اور اس کی خامیوں
کو دور کریں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ یونانی دواؤں کو جدید ایلوپیتھی کی طرح عوام کے
لئے آسان شکل میں پیش کیا جائے اس لئے وہ یونانی دواؤں کو خمیرہ اور معجون کی بجائے
ٹیبلٹ اور کیپسول کی شکل میں تیار کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔۔انہوں یونانی طبیبوں کو
مشورہ دیا کہ وہ نئی نئی بیماریوں پر تحقیق کریں اور ان کے علاج کے لئے نئی نئی جڑی
بوٹیوں کی دریافت کریں۔ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور دین کا اچھا علم بھی رکھتے تھے اس
لئے ان کا یہ ایمان تھا کہ دنیا میں ایسی کوئی بیماری نہیں ھے جس کا علاج نہیں ہوسکتا۔
حکیم اجمل خان کو خدا نے طبی
بصیرت عطا کی تھی اس لئے کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں جادو ھے۔وہ صرف مریض کا چہرہ
دیکھ کر بیماری کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ وہ ماہر نباض بھی تھے اور نبض پر ہاتھ رکھ
کر بیماری کی تشخیص کر لیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ نبض دیکھنا بھی ایک فن ھے اور مختلف
طبیب اپنی اپنی بصیرت کے مطابق نبض دیکھ کر بیماری کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
حکیم اجمل خاں کے بتائے ہوئے
نسخوں کو,بیاض اجمل اورافادات مسیح الملک کی شکل میں کتابی شکل میں محفوظ کرلیا گیا
ھے جن سے یونانی طب کے طلبہ اور یونانی اور قدرتی دوائیں بنانے والی کمپنیاں بھی استفادہ
کرتی ہیں۔
طب یونانی کو آگے بڑھانے کی
جو تحریک حکیم اجمل نے شروع کی تھی وہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہی۔ 1952 میں آل
انڈیایونانی طبی کانفرنس کا قیام ہوا۔ 1990ء میں آل انڈیا طبی کانگریس کا قیام عمل
میں آیا۔ طب یونانی کے احیا اور فروغ میں حکیم اجمل خان کے کارہائے نمایاں کو دیکھتے
ہوئے حکومت ہند نے ان کے یوم پیدائش 11 فروری کو عالمی یوم طب یونانی قرار دیا۔ اس
کے فروغ کیلئے جکومت نے سنٹرل کاؤنسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن قائم کیا۔ حکیم اجمل
خان کی تحقیق اور ان کے نسخوں کو جمع کرکے یونانی انڈیکس مرتب کیا گیا ھے جو طب یونانی
کے طلبہ کے لئے ایک انتہائی مفید کتاب ھے
حکیم اجمل خان صرف ایک طبیب
ہی نہیں تھے بلکہ وہ ادب, سیاست اور عالمی تاریخ کا بھی گہرا علم رکھتے تھے۔ وہ عربی,
فارسی اور اردو میں شاعری بھی کرتے تھے لیکن انہوں نے شاعری کو صرف تفریح طبع اوراپنی
جمالیاتی حس کو صیقل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ انہوں ہندوستانی سیاست میں بھی عملی حصہ
لیا اور خلافت تحریک میں گاندھی جی کے رابطے میں آئے۔ وہ کانگریس اور مسلم لیگ کے صدر
بھی رھے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ وہ مسلمانوں
کی تعلیم کے متعلق اپنا الگ نظریہ رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان جدید تعلیم حاصل
کریں مگر انگریزی زبان میں نہیں بلکہ اہنی مادری زبان میں تاکہ وہ اپنی تاریخ اور اپنی
مذہبی شنازخت کے ساتھ معاشرے کی تعمیر وترقی میں ہاتھ بٹا سکیں۔ وہ اس بات سے واقف
تھے کہ برطانوی حکومت انگریزی پڑھانے کے بہانے مسلمانوں پر اپنی زبان اور اپنی تہذیب
تھوپنا چاہتی ہے ۔ اپنے ایک خطبے میں وہ کہتے ہیں:
" ۔ 1839ء میں جب لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کے ذریعہ تعلیم
دینے کے موافق رائے دی تو ہندوستان برابر اس رائے میں مبتلا رہا۔ اس کے بچوں کو تمام
علوم ایک ایسی اجنبی زبان کے توسط سے پڑھائے گئے کہ خود جس کے حاصل کرنے میں بڑی مدت
اور سخت محنت درکار ہے ۔لیکن ایسا کیوں نہ ہوتا۔ ہندوستان کو علوم کی روشنی پہنچانا
مقصود ہی نہیں تھا۔ جو اصلی مقصد تھا یعنی ہندوستانی تہذیب و تمدن کو نیست ونابود کردینا
اس کے لئے اس سے مؤثر اور کارگر کوئی تدبیر نہ تھی۔ چنانچہ لارڈ ولیم۔بینٹنک کی حکومت
نے اس بات کا علی الاعلان اظہار کر دیا کہ حکومت کا مقصد ہندوستان میں مغربی زبانوں
اور مغربی علوم کی نشرواشاعت ھے اور تمام وہ روپیہ جو تعلیمی کاموں کے لئے منظور ہوتا
اسی مقصد پر صرف ہونا چاہئے۔۔ عربی و سنسکرت کی تعلیم پر جو رقم صرف ہوتی تھی وہ اس
خیال سے بند کردی گئی کہ یہ صرف روپیہ کو ضائع کرنا ہی نہیں بلکہ پرستاران باطل کے
پیدا کرنے میں معاون ہونا اور اس مشرقی تہذیب کو مدد دینا ھے جو تمدن مغربی کی سب سے
بڑی حریف اور مد مقابل ہے ۔ اس طرح ایک ایسے طبقہ کے پیدا کرنے کی کامیاب کوشش شروع
ہوئی جس میں صرف جسم ہی نہیں بلکہ دماغ بھی تعبد کی زنجیروں میں ۔جکڑے ہوئے ہیں۔"۔
حکیم اجمل ایک ماہر تعلیم
بھی تھے اور اپنی تعلیمی صلاحیتوں کے بل پر جامعہ ملیہ کے شیخ الجامعہ بھی بنائے گئے۔
وہ تعلیم پر اپنے واضح افکارو نظریات رکھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں حقیقی تعلیم اس کوشش
کا نام ھے جو فرد وجماعت کے متضاد اغراض کی اس طرح آمیزش کرے اور شخصی حقوق اور ملی
فرائض میں ایسا امتزاج پیدا کردے کہ اگرچہ انفرادی نشوونما بدرجہ اتم موجود ہو لیکن
اس نشونما کا مقصد ملت کے مقاصد مہمہ اور اس کا نصب العین قرار دیا جائے۔"۔
لیکن انہیں یہ شکایت تھی کہ
مسلمانان ہند نے تعلیمی مساعی میں وقتی ضروریات کو مقاصد مہمہ پر فضیلت دے دی جس کی
وجہ سے وہ صحیح معنوں میں ایک قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنی علمی اور تہذیبی برتری
ثابت نہیں کرسکے۔۔
انہوں نے مغربی فلسفیوں اور
مفکرین کے افکار کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا مگر ان کے افکار کے طلسم۔میں گرفتار ہونے
کی بجائے ان کا معروضی تجزیہ کیا اور انہیں اپنی تہذیبی کسوٹی پر پرکھا۔ انہوں نے اپنی
قوم کے نام نہاد دانشوروں پر اس بات کے لئے تنقید کی کہ انہوں آنکھ بند کرگے مغرب کے
افکار کو قبول کرلیا۔ وہ کہتے ہیں۔
"لیکن انسان کی گمرہی کا عجیب حال ھے۔ ہم جب فلاسفہ فرنگ کے خیالات
کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم۔ہوتا ھے کہ ایک عرصہ تک با ایں ہمہ ادعائے علم و بصیرت
وہ اس حقیقت کو بے نقاب نہ دیکھ سکے۔ تھے۔ وہ اپنے زعم میں جماعت کو فرد کے اغراض کے
پورا ہونے یا ان کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ و آلہ جانتے تھے ۔چنانچہ
میکاولی و ہابس لاک اور اسپینسر کے نام سارے ان دوستوں کے لئے جن کے دماغ کو دانش مغرب
کے طلسم ہوشربا نے اجتہاد و تفقہ کے لئے یک قلم ناقابل بنا دیا ھے کسی چیز کی صحت کی
آخری دلیل میں سب کے سب یکسر گمراہی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اور خود یوروپ کے نظام
جماعتی کی ناپائداری اصل و محنت کی روزافزوں کشمکش , انارکسٹ اور نہیلسٹ فرقوں کی تمام
نظام جماعتی کو تباہ و برباد کر دینے کی کوششیں سب اسی گمراہی کا نتیجہ ہیں۔۔"۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے بخوبی
اندازہ ہوجاتا ھے کہ وہ صرف طبابت کے شعبے ہی میں دماغ نہیں کھپاتے تھے بلکہ ادب, تاریخ
اور فلسفہ کا بھی گیرا علم رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے خیالات ونظریات میں ایک حسین
توازن قائم ہوگیا تھا۔ وہ جدید سائنس کے مخالف نہیں تھے مگر وہ جدید سائنس کو اپنی
تہذیب اور اقدار کی قیمت پر حاصل کرنے کے خلاف تھے۔ وہ اپنی مادری زبان میں بچوں کو
جدید تعلیم دینے کے حق میں تھے ۔آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ روس, چین اور جاپان نے اپنے
بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی ہے تو وہ سائنس کے میدان میں انہوں ان انگلینڈ
اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے ۔ تو ہمیں حکیم اجمل خاں کی علمی بصیرت کا قائل
ہوجانا پڑتا ھے۔
اجمل خازں نے یونانی , آیورویدک
طریقہ علاج کی اہمیت سو سال قبل سمجھ لی تھی۔ آج حکومت ہند آیوش منترالیہ قائم کرکے
یونانی, آیورویدک اور نیچروپیتھی طریقہ علاج کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ھے تویہ حکیم
اجمل خان کے ہی خواب کی تعبیر ھے۔۔
English
Article: Hakeem Ajmal Khan's Contributions To The Renaissance
Of Unani System Of Medicine
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism