مندروں کی مسماری اسلام
میں حرام ہے: شیخ حسینہ کو اسلامی مجرموں کو سزا دینے اور ہندو اقلیتوں کے تحفظ پر
توجہ دینی چاہیے، ہندوستانی مسلمان ان کی ذمہ داری نہیں
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ
بنگلہ دیشی مجرموں کے خلاف ہماری آواز اٹھائیں اور انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے
خلاف پرتشدد واقعات کا حوالہ دے کر اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے سے روکیں۔
____________________
1. شیخ حسینہ نے کہا ہے
کہ مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی اور ملک کی ہندو برادری کو تحفظ فراہم کیا جائے
گا۔
2. انہوں نے ہندوستان کے
مجرموں کے خلاف بھی سخت اقدامات کرنے کے لئے کہا ہے۔
3. بنگلہ دیش میں ہندوؤں
کے ظلم و ستم کو ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے مقابلے میں جائز
قرار نہیں دیا جا سکتا۔
4. اسلام عبادت گاہوں،
گرجا گھروں یا مندروں کو تباہ کرنے سے منع کرتا ہے۔
......
نیو ایج اسلام سٹاف رائٹر
23 اکتوبر 2021
بی بی سی اردو کی ایک
رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران ہندو برادری کی مندروں پر حملے
کے دو دن بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی اور ملک
کی ہندو برادری کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ شیخ حسینہ کی حکومت بنگلہ دیش میں ہندو
برادری کے تحفظ کی مسلسل بات کر رہی ہے لیکن بدھ کو وزیر اعظم نے جس طرح ہندو
سیکورٹی کو ہندوستانی قیادت سے جوڑ دیا وہ بے مثال تھا۔ شیخ حسینہ نے بھارت سے بھی
کہا ہے کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت اقدامات کرے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ
----
میری رائے میں شیخ حسینہ
کو اپنے الفاظ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ انہیں ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات کو نظر
انداز کرتے ہوئے اپنے مجرموں کو سزا دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ بنگلہ دیش میں
ہندوؤں پر ظلم و ستم کا ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے تقابل کر کے
جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام کے مطابق صرف مجرموں کو ہی سزا دی جائے گی اور
کسی پر ناحق ظلم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں ہندو
اقلیت میں ہیں اور وہاں کچھ عبادت گاہیں ہیں جن کی حفاظت کی ذمہ دار بنگلہ دیشی
حکومت ہے۔ اس مضمون میں ہم غیر مسلم عبادت گاہوں کے تحفظ کے بارے میں اسلامی نقطہ
نظر اس امید کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ مندروں پر حملے کرنے والے انتہا
پسند اسلام کے بھولے بسرے پیغام کو دوبارہ یاد کریں گے گے اور ایسے مزید مذموم
کارروائیوں سے باز رہیں گے۔
اسلام عبادت گاہوں کو
تباہ و برباد کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہ اسلامی سرزمین پر اور اس سے باہر غیر مسلموں
کے گرجا گھروں، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ پیارے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہدایات، عہد اور معاہدوں کے ذریعے اس تحفظ کو آئینی
حیثیت عطا کی ہے۔ پیغمبر اسلام اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے لوگوں کو جو
دینی حقوق اور آزادیاں عطا کی ہیں وہ اس سلسلے میں قابل ذکر اور ٹھوس ثبوت ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے روایت ہے کہ
"درحقیقت نجران اور اس کے اتحادی خدا کی حفاظت میں ہیں اور
رسول خدا ان کی حفاظت کی ضمانت دے رہے ہیں۔ ان کی دولت، جان، زمین اور مذہب کی
حفاظت کی جائے گی۔ اور ضمانت میں ان کے پادری، راہب، حاضر و غیر حاضر اور ان کے
وفود اور ان جیسے افراد سب شامل ہیں۔ انہیں ان کے (مذہب) کو تبدیل کرنے پر مجبور
نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں ان کے کسی حقوق سے محروم کیا جائے گا۔ ان کے
درمیان کوئی خوف یا خطرہ نہیں ہوگا، اور کسی راہب، پادری، یا خادم کو اس کی ملکیت
سے محروم نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ مالدار ہو یا غریب۔" (اس حدیث کو امام
ابو یوسف حنفی نے الخراج ص 78 میں نقل کیا ہے)
حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کے دور خلافت میں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی بھی لشکر کے سربراہ کو فوجی مہم پر جانے سے پہلے کہتے تھے
کہ زمین میں فساد مت مچانا اور حکم عدولی نہ کرنا... کھجور کے درختوں کو نہ غرق
کرنا اور نہ ہیں جلانا۔ کسی جانور کو قتل نہ کیا جائے۔ پھل دینے والے درخت نہ کاٹا
جائے۔ چرچ کو منہدم نہ کیا جائے۔ بچوں، بوڑھوں یا عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا
جائے۔ تم جلد ہی ایسے لوگوں سے ملو گے جنہوں نے خود کو کوٹھیوں میں محصور کر لیا
ہوگا۔ انہیں چھوڑ دو وہ جو چاہیں کریں اس لئے کہ انہوں نے خود کو الگ کر لیا ہے۔
(اس کو امام بیہقی نے سنن الکبری میں اور امام مالک نے موطا وغیرہ میں روایت کیا
ہے)
حضرت ابوبکرؓ نے یزیدؓ بن
ابی سفیان کو شام کی طرف بھیجتے ہوئے ارشادفرمایا: "کسی عبادت گاہ کو برباد
نہ کرنا اور کسی بوڑھے، کمزور شخص، شیر خوار یا چھوٹے بچے یا عورت کو قتل نہ
کرنا" (سنن کبریٰ میں امام بیہقی نے روایت کیا ہے)
امام شیبانی کی ایک حدیث
کے مطابق، حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے حکام کو یہ نصیحت کرتے تھے:
"کسی گرجا گھر، کلیسا یا زرتشتی مندر کو مسمار نہ کرو"
(ملاحظہ ہو کتاب الحجۃ علی اہل المدینہ اور امام شافعی کی کتاب الام 7:320)
کلاسیکی فقہاء اور مفسرین
اس تصور کی تائید میں کہ مسلمانوں کو ان غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے
سے منع کیا گیا ہے جن کے ساتھ انھوں نے اسلامی سرزمین کے اندر یا باہر دونوں طرح
کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، قرآنی آیت 22:40 کا حوالہ دیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آیت کریمہ میں
فرماتا ہے:
"وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ
انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ
فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ
کا بکثرت نام لیا جاتا ہے، اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین
کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے۔‘‘ (22:40)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت
حسن البصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’غیر مسلم شہریوں کے عبادت گاہوں کی حفاظت
اہل ایمان کو کرنی چاہیے۔‘‘ (احکام القرآن از امام الجصاص 5/83)
امام قرطبی نے اپنی تفسیر
قرطبی میں آیت 22:40 کے تحت لکھا ہے: "اس آیت قرآنی میں غیر مسلم شہریوں کے
گرجا گھروں، ان کے مندروں اور ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی ممانعت
ہے۔"
امام طبری نے اسلام کے
دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن الخطاب کے درج ذیل عہد کو ذکر کیا ہے جس میں یروشلم میں
عیسائیوں کی جان، مال اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی:
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ اللہ کے بنددے اور مسلمانوں کے
امیر عمر کا یروشلم کے لوگوں کے لئے عہد ہے۔ میں انہیں ان کی زندگی، ان کی
جائیداد، ان کے گرجا گھروں، اور ان کے صلیبوں، ان کے بیماروں، ان کے صحت مندوں اور
ان کی پوری برادری کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اُن کے گرجا گھروں پر قبضہ نہیں
کیا جائے گا، نہ انہیں منہدم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی تعداد کم کی جائے گی۔ نہ
ان کے گرجا گھروں اور صلیبوں کی اور نہ ہی ان کی جائیداد سے کسی اور چیز کی بے
حرمتی کی جائے گی۔ انہیں ان کے دین کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور ان
میں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔" (تاریخ الطبری 2/449)
ولید بن عبد الملک نامی
ایک اموی حکمران کے ایک مشہور واقعہ ہے کہ اس نے دمشق کے چرچ کی زمین کا ایک پلاٹ
لیا اور اسے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ جب حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کو اس کا علم ہوا
تو انہوں نے حکم دیا کہ مسجد کا کچھ حصہ گرا دیا جائے اور زمین عیسائیوں کو واپس
کر دی جائے۔ ذیل میں متعلقہ روایت کا ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے:
ترجمہ: "جب حضرت عمر
بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو عیسائیوں نے ولید کی طرف سے ایک چرچ کی
جائیداد پر قبضے کی شکایت آپ سے کی۔ حضرت عمر نے وہاں کے اپنے گورنر کو حکم دیا کہ
جو حصہ مسجد میں شامل کر لیا گیا ہے اسے عیسائیوں کو واپس کر دیا جائے۔
مذکورہ بالا شواہد اہم
ہیں اور اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ اسلام اسلامی سرزمین کے اندر یا باہر، امن
اور فساد ہر حال میں غیر مسلم عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کرنے سے منع کرتا ہے۔
بنگلہ دیش کی مندر پر
حملہ کرنے والے انتہا پسند مسلم افراد کو اس مضمون کے پیغام پر سننا چاہیے اور
اپنی غلطیوں پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے بہت بڑا ظلم کیا ہے اور بنگلہ دیشی حکومت
کو انہیں قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم
کو اپنے الفاظ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اپنے مجرموں کو درج ذیل قرآنی آیت کی
تعلیم دینی چاہیے:
’’اور تمہیں کسی قوم کی
عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور
نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ
دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے " (5:2)۔
اور جہاں تک ہندوستانی
مسلمانوں کی بات ہے تو ہندوستانی قانون اب بھی نافذ ہے، یہاں مسلمانوں اور غیر
مسلموں کی اکثریت ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ لہٰذا،
ہم مسلمانوں کو بنگلہ دیش کے ان مجرموں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے اور
انھیں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بہانہ بنا کر اپنے اعمال
کو جواز فراہم کرنے سے روکنا چاہیے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism