نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
23 اپریل، 2022
گذشتہ چند برسوں
سےہندوستان میں مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر سے دی جانے والی اذان پر غیر مسلموں کے ذریعہ
اعتراض کیا جارہا ہے۔ لاؤڈاسپیکر سے اذان کی مخالفت سب سے پہلے بال ٹھاکرے نے شروع
کی۔ چونکہ وہ ایک سیاسی تنظیم کے سربراہ تھے اس لئے ان کی مخالفت کو مسلمانوں نے
سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا اور اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ لیکن بعد کے دور میں خصوصا
گذشتہ پانچ برسوں میں لاؤڈاسپیکر پر اذان پر اعتراضات مشہور شخصیات کے ذریعہ بھی
اٹھاۓ
جانے لگے۔
2017 میں گلوکار سونو نگم
نے لاؤڈاسپیکر پر اذان پر اعتراض کیا تو مسلمانوں کی تنقید کا شکار ہوئے۔ کچھ عرصہ
قبل الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے بھی لاؤڈاسپیکر پر فجر کی اذان پر
اعتراض کیا جس پر الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کا
استعمال ای آر پی یعنی لازمی مذہبی رواج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے 2000 ء میں
دئے گئے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی مذہب یا مذہبی طبقہ یہ دعوی نہیں
کرسکتا کہ پوجا یا نماز یا مذہبی تہوار منانے کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال مذہب
کا جزوا لاینفک ہے جو آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ ہے۔
مسلمان ہندوستان کے
سیکولر طبقے میں بھی لاؤڈاسپیکر پر اذان کی مخالفت سے سبق لینے اور اپنے طرز عمل کی
اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اب سیکولر مزاج غیر
مسلم دانشوروں کو بھی اپنا مخالف بنا رہے ہیں اور حکومت اور عدالتوں کو یہ موقع دے
رہے ہیں کہ وہ لاؤڈاسپیکر سے اذان کو قانون کے دائرے میں لائیں۔ 2009ء میں سپریم
کورٹ لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی حد متعین کرچکی ہے جس پر عمل کرنا تمام مذاہب کے
پیروکاروں کے لئے لازمی ہے۔
اب حکومتیں مساجد کے خلاف
قانونی اقدام بھی کر رہی ہیں اورمسلمانوں کو لاؤڈاسپیکر کی آواز کم کرنی پڑرہی ہے۔
کرناٹک پولس نے ریاست کی تمام مساجد کو نوٹس جاری کر کے لاؤڈاسپیکر کی آواز کو
مقررہ صوتی سطح تک رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے مساجد کے ذمہ
داروں نے لاؤڈاسپیکر کی آواز کو حد میں رکھنے کے لئے مشین لگائی ہے۔ مہاراشٹر میں
بھی راج ٹھاکرے نے اس کو ایک سیاسی مدعا بنایا ہے اور حکومت کو 3 مئی تک تمام
مساجد سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کا الٹی میٹم دے دیا ہے بصورت دیگر تمام مہاراشٹر میں
لاؤڈاسپیکر پر ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
چھ شہروں میں تو ابھی سے
ہی لاؤڈاسپیکر پر ہنومان چالیسا کا پاٹھ شروع بھی ہوچکا ہے۔ حالات کو بگڑتے دیکھ
مہاراشٹر کے مسلمان حرکت میں آئے اور انہوں نے مساجد سے فجر کی اذان یا تو بغیر
لاؤڈاسپیکر سے دینی شروع کی یا پھر لاؤڈاسپیکر کی آواز کم کردی۔ ممبئی پولیس کے
ایک سروے کے مطابق مہاراشٹر کی 72 فی صد مساجد میں فجر کی اذان یا تو بغیر
لاؤڈاسپیکر کے دی جارہی ہے یا پھر لاؤڈاسپیکر کی آواز بہت کم کر دی گئی ہے۔ اگلے
دو ایک روز میں مہاراشٹر کے ڈی جی پی اور ممبئی کے پولیس کمشنر مشترکہ طور پر
لاؤڈاسپیکر پر ایک پالیسی تیار کریں گے جس پر عمل درآمد تمام مذاہب کے پیروکاروں
کے لئے لازمی ہوگا۔
گووا میں بھی لاؤڈاسپیکر
پر اذان پر اعتراض اٹھنے لگے ہیں اور دھیرے دھیرے یہ ایک قومی مسئلہ بن گیا ہے جس
پر جلد ہی کوئی قومی پالیسی تیار ہو جائے گی۔ شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے
وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر ایک قومی پالیسی بنا کر
اسے پہلے گجرات اور دہلی میں نافذ کریں۔ لہذا دیر سویر اس مسئلے پر ایک قومی
پالیسی بنے گی ۔
اس سب کے باوجود اب بھی
کئی ریاستوں کے مسلمان صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں کر سکے ہیں۔ وہاں اب بھی
مسجدوں سے بلند آواز میں نہ صرف اذان جاری ہے بلکہ اذان کے علاوہ بھی غیر ضروری
اعلانات کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کا ایک
نا عاقبت اندیش طبقہ مسلم دانشوروں کے ذریعہ لاؤڈاسپیکر کے بلند آواز پر اعتراض
کرنے اور آواز کم کرنے کا مشورہ دینے پر لعن طعن کرنے لگتا ہے۔ چند دنوں قبل کلکتے
کے چند روشن خیال سماجی کارکنوں اور دانشوروں نے جب فیس بک پر لاؤڈاسپیکرپر بلند
آواز سے اذان سے ہونے والی صوتی آلودگی اور بچوں کو ہونے والی پریشانیوں کا ذکر
کیا اور لاؤڈاسپیکر کے استعمال کے مذہبی جواز پر سوال اٹھائے تو ایک اردو اخبار نے
ان لوگوں کے لئے یہ سرخی لگائی۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ
کے شرمائیں یہود۔
ان میں سے ایک شخص نے
لکھا تھا کہ فجر کی اذان کی تیز آواز سے بچے چونک کر اٹھ جاتے ہیں اور رونے لگتے
ہیں۔ علی گذھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ایک دانشور نے لکھا تھا کہ لاڑلؤڈاسپیکر کی
آواز کہیں ساؤنڈ پولیوشن کی مرتکب تو نہیں اس سوچ کا مسلم سماج میں فقدان ہے۔ شہر
کے مشہور سماجی کارکن نے اپنے پوسٹ پر لکھا تھا کہ کجھ مساجد میں اذان کی آواز
کافی تیز ہوتی ہے اور وعظ کے دوران بھی مائیک تیز آواز میں جاری ہے۔ اس سے پرہیز
کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے مذاہب کو بولنے کا موقع نہ ملے۔
روشن خیال مسلمانوں کے ان
ہوشمندانہ تبصروں کو بھی اخبار نے منفی رنگ دے کر فیس بک پر ان کے خلاف عوامی رائے
تیار کرنے کی کوشش کی جبکہ 65 افراد نے اس کو لائیک کیا۔ اور 25 افراد نے تائید
میں کمنٹ کئے۔
لاؤڈاسپیکر پر اذان اب
قومی سطح پر بحث کا موضوع بن چکی ہے اور دیر یا سویر لاؤڈاسپیکر پر ایک قومی قانون
بن جائیگا اور مسلمانوں کو مساجد سے لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے یا دیگر اعلانات کرنے
کے لئے آواز کو ایک خاص حد کے اندر رکھنا ہوگا۔ اگر یہ کام مسلمان پہلے خود ہی کر
لیتے تو فخر سے کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اپنے ہم وطنوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے
ایسا کیا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism