نیو ایج اسلام خصوصی نامہ نگار
اسلاموفبز اور جہادی دہشت گردوں کے مابین ہم آہنگی اس
قدر واضح ہے کہ کسی انسان سے اس میں بھول چوک نہیں ہو سکتی ۔ دونوں کا ایک ہی مقصد
ہے یعنی دونوں ہی مینسٹریم مسلمانوں کو پرتشدد انتہا پسندی کے راستے کو اپنانے کی
ترغیب دیتے ہیں ۔ کسی پر امن شخص یا برادری کے مقابلے میں کسی پرتشدد ذات یا
برادری کو برباد کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔مسلمانوں کو اسلاموفبز اور جہادیوں
دونوں ہی سے یکساں طور پر دور رہنا چاہیے
۔وہ دونوں ہی ہمارے دشمن ہیں ۔ دونوں ہی اسلامی عقائد میں تشدد کے جوازوں کو تلاشتے
ہیں۔ اس سریز کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس طرح کے جواز کا کوئی وجود
نہیں ہے۔
اسلاموفوبز اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہادسٹ اسلام کے
حقیقی ورژن کی نمائندگی کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح جیساکہ اسلامی قوانین اور ذرائع کی
روایتی تشریحات میں درج ہے۔ اس کے نتیجے میں، کچھ غیر مسلم امن پسند مسلمانوں کو
بھی شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں حتی کہ بعض تو عداوت کی شکل اختیار کر لیتے
ہیں۔ ایک دوسرے کے تئیں دونوں فریقین اپنے دلوں میں نفرت پھیلاتے معلوم پڑتے ہیں۔
مسلمانوں سے پھر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معذرت خواہ ہو جائیں اور بار بار یہ
بیان کریں کہ اسلام جہادیوں کی دہشت گردی کی کارروائیوں کا جواز پیش نہیں کرتا ہے۔
موجودہ دور کا منظر کچھ اس طرح کا ہو چکا ہے یعنی ایک
ایسی کیفیت بن چکی ہے جس کا سامنا کوئی شریف النفس شخص کرنا پسند نہیں کرے گا ۔ اس
تحریر میں یہ حقیقت ثابت کرنے کے لئے کچھ روایتی اور کلاسیکی دلائل کی نشاندہی کی
گئی ہے کہ اسلامو فوبک دعوی کہ اسلام اور روایتی تھیولوجی کا جہادزم سے تعلق ہے،
یہ دعوی ہرگز درست نہیں ۔ ایسے دعوے محض شرارتی ہیں یا اسلامی تھیولوجی سے
ناواقفیت پر مبنی ہیں۔
جنگ اور امن سے متعلق احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے
روایتی فقہی اصول موجودہ دور کے جہادی نظریات کے برخلاف ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان
روایتی احکام کی روشنی میں تو دہشت گردانہ نظریات کی تردید کی جا سکتی ہے جیساکہ
یہ ضروری بھی ہے ۔کہنا مقصود یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے استعمال کی
جانے والی جدید تکنیکوں کے ساتھ ساتھ ، روایتی اصول ونظریات اور فقہی جزئیات کی
روشنی میں جہادسٹ نظریات کی تردید بخوبی کر سکتے ہیں۔
جیساکہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ جہادسٹ نظریات اور روایتی
نظریات وتشریحات کے مابین کافی فرق ہے ، لہذا اسی فرق کو بیان کرنے کے لیے راقم
الحروف نے کچھ ایسے موضوعات کو زیر مطالعہ رکھا جنہیں جہادی نظریہ ساز موجودہ دور
میں مسلم نوجوانوں کو بہکانے کے لیے مسلسل استعمال کرتے رہتے ہیں، مثلا ‘‘ حاکمیت
کا مسئلہ’’، ‘‘دار الحرب اور دار الاسلام کا تصور’’ ، ‘‘الولا والبراء کا نظریہ’’
،‘‘ مسلم سرزمین کو دوبارہ حاصل کرنا ’’، ‘‘ وطن کے تئیں غداری کا مسئلہ’’ ،‘‘ عام
شہریوں کو نشانہ بنانا’’، ‘‘خود کش حملے’’، ‘‘مشرکین اور کفار کا قتل عام کرنا’’،
‘‘جہاد بالقتال کے شرائط ’’ وغیرہ ۔راقم الحروف کا مقصد یہ ہے کہ ان موضوعات کو
مختلف قسطوں میں زیر تحریر لائے اور یہ واضح کرے کہ اسلاموفوبز کا دعوی کہ موجودہ
جہادی نظریات اسلام کی روایتی تشریحات کی ترجمان ہے ، بے بنیاد اور لغو دعوی ہے جس
کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔سب سے قبل ہم مسئلہ حاکمیت پر بحث پیش کر رہے ہیں۔
روایتی اور جہادسٹ نظریات کے مابین مسئلہ حاکمیت
سلفی جہادسٹ نظریہ ساز صالح سریہ (1933-1974)اپنی کتاب ‘‘رسالۃ
الایمان ’’ میں مسلم حکمرانوں کے تکفیر کرتے ہیں ،عام مسلمانوں کو جاہلی برادری سے
تعلق رکھنے والا قرار دیتے ہیں اور ان کی ریاست کو‘‘ دار الحرب ’’مانتے ہیں۔وہ
مزید کہتے ہیں ‘‘ تمام مسلم ممالک کی موجودہ طرز حکومت بلا شبہ کافر طرز حکومت ہے
اوران تمام ممالک کی برادری جاہلی دور سے
تعلق رکھتی ہے ۔اسلامی ریاست کے نام نہاد تربیتی کیمپ کی درسی کتاب ‘‘مقرر فی
التوحید ’’میں وہ ان تمام لوگوں کو مرتد قرار دیتے ہیں جو قانون خداوندی پر عمل
پیرا نہیں ہوتے۔ ان کی تحریروں میں خواہ وہ ‘‘دابق ’’ ‘‘رومیہ ’’ یا بالخصوص
ہندوستان کے متعلق پروپیگنڈہ کیا گیا رسالہ ‘‘وائس آف ہند’’ہو ان تمام میں وہ
اپنے دعوے کو مستحکم کرنے لئے مسلسل مندرجہ ذیل دو قرآنی آیات نقل کرتے ہیں کہ
جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے سوا کی پیری کرتے ہیں وہ کافر و مشرک اور بے دین
ہے۔
قرآن کی وہ دو آیتیں درج ذیل ہیں:
اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و
حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں۔ (۵:۴۴)
پس(اےحبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے
یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس
فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم
کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں’’ (۴:۶۵)
قرآن مجید کی ان دو آیات کی بنیاد پر جہادی نظریہ ساز
نے اس بحث میں انتہائی توثیق پیدا کی ہے کہ موجودہ دور کے مسلمان جو اسلامی قوانین
کو نافذ نہیں کرتے ہیں وہ سبھی کافر و مرتد ہیں ۔ ان کے مابین فرق کو دیکھنے کے
لئے کوئی بھی شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان دو قرآنی آیات کی روایتی اور کلاسیکی تفسیر
ان مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتی ہیں جو اسلامی قوانین کو نافذ نہیں کرتے ہیں
کیونکہ وہ بدلتے حالات اور قطعی ضروریات کے پیش نظر یقینی طور پر قابل اطلاق نہیں
ہیں ۔
مذکورہ بالا آیات کی کلاسیکی اور روایتی تشریح یہ ہے کہ
‘‘جو شخص اللہ کی نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا یعنی اس کی الوہیت
،ایمان اور سچائی سے انکار کرتا ہے وہ واقعی کافر ہے۔ جہاں تک وہ مسلمان جن کا یہ
عقیدہ ہے کہ یہ آیت حق ہے ،وحیئ الٰہی اور احکام خداوندی ہے لیکن بدلتے ہوئے
حالات یا کسی مجبوری کے تحت اس پیغام کو نافذ کرنے میں ناکام ہے تو وہ کافر نہیں ہے۔
امام فحر الدین رازی اپنی تفسیر کی کتاب ‘‘التفسیر
الکبیر ’’ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
‘‘عکرمہ نے کہا،تکفیر کا حکم جیسا کہ فرمان
الٰہی میں مذکور ہے ‘‘ اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت)
نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں’’ اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے دل میں اور
اپنی زبان سے اللہ کی نازل کردہ احکام کی حقانیت کا انکار کرتا ہے۔ اور جو شخص
اپنے دل میں اللہ کے نازل کردہ قانون کی حقانیت پر یقین رکھتا ہے اور اپنی زبان سے
یہ اعتراف کرتا ہے کہ یہ اللہ کا نازل شدہ قانون ہے اگرچہ وہ اس کے خلاف ورزی کرتا
ہے لیکن پھر بھی وہ اللہ کی وحی پر ایمان رکھنے والا مومن ہی تصور کیا جائے گا ہاں
لیکن وہ اس معاملے میں محض بے عمل مومن کے طور پر جانا جائے گا لہٰذا اسی وجہ سے
اس آیت کے مطابق اسے کافر نہیں سمجھا جائے گا۔ اس حوالہ کو منقول کرنے کے بعد
امام رازی نے فرمایا ‘‘یہ صحیح جواب ہے’’۔ (امام رازی التفسیر الکبیر ۵:۴۴)
شیخ اسامہ ازہری رقمطراز ہیں: ‘‘معروف ومقبول فقہا کی
توضیحات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم نے جان لیا ہے کہ ابن مسعود،ابن عباس، براء بن عازب،
حذیفہ بن الیمان، ابراہیم نخعی، السدی، الضحاک، ابو صالح، عکرمہ، قتادہ، عامر،
الشعبی، عطا، طاوس، اور پھر امام طبری اپنی ‘‘جامع البیان’’ میں، امام غزالی
‘‘المصطفیٰ’’ میں، ابن عطیہ ‘‘المحرر الوجیز’’میں، امام رازی ‘‘فتوح الغیب’’ میں،
قرطبی ابن جازی ‘‘ التسھیل’’میں، ابو ہیان ‘‘البحر المحیط’’ میں، ابن کثیر ‘‘تفسیر
القرآن المجید’’ میں آلوسی ‘‘روح المعانی’’ میں، طاہر ابن عاشر‘‘الطاہر
التنوین’’ میں، اور شیخ شعاروی اپنی تفسیر میں۔ اور اسی طرح دیگر تمام علماءبھی اس
آیت ۵:۴۴کی تفسیر سے ایسے ہی متفق ہیں
۔(جیسا کہ امام رازی کی ‘‘التفسیر الکبیر’’کے حوالے کے ساتھ اوپر مذکور ہے)۔’’
(الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین، عربک ایڈیشن، ص ۲۳)
حاکمیت والی آیات کی کلاسیکل اور جہادسٹ تشریحات کے
درمیان فرق اس قدر واضح ہے کہ مزید وضاحت کی حاجت نہیں۔اسلاموفوبز یہ حق بجانب دعوی کیسے کر سکتے ہیں کہ جہادسٹ نظریہ کلاسیکل اور
روایتی تشریحات پر مبنی ہے؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ اسلاموفوبز نے جہادی نظریہ ساز کے
ساتھ جہادی نظریات کے فروغ میں تعاون کا ہاتھ بڑھا دیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو جہادی
نظریات کے حاملین کو اسلاموفوبز سے بہت خوشی حاصل ہوتی ہوگی۔
اسلاموفبز اور جہادی دہشت گردوں کے مابین ہم آہنگی اس
قدر واضح ہے کہ کسی انسان سے اس میں بھول چوک نہیں ہو سکتی ۔ دونوں کا ایک ہی مقصد
ہے یعنی دونوں ہی مینسٹریم مسلمانوں کو پرتشدد انتہا پسندی کے راستے کو اپنانے کی
ترغیب دیتے ہیں ۔ کسی پر امن شخص یا برادری کے مقابلے میں کسی پرتشدد ذات یا
برادری کو برباد کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔مسلمانوں کو اسلاموفبز اور جہادیوں
دونوں ہی سے یکساں طور پر دور رہنا چاہیے
۔وہ دونوں ہی ہمارے دشمن ہیں ۔ دونوں ہی اسلامی عقائد میں تشدد کے جوازوں کو تلاشتے
ہیں۔ اس سریز کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس طرح کے جواز کا کوئی وجود
نہیں ہے۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/muslims-islamophobia/refuting-islamophobic-claims-that-jihadists-part-1/d/123738
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-that-jihadists-part-1/d/124210
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism