New Age Islam
Wed Nov 19 2025, 12:48 PM

Urdu Section ( 6 May 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

New Age Islam Group of Scholars Refute Obscurantist Pakistani Mullah Mufti Muneeb’s Fatwa نیو ایج اسلام کے اسکالرز کا مفتی منیب کے اس فتوی کا رد کرنا جس نے کشمیر میں ہندوؤں سے معاملت کو حرام قرار دیا

نیو ایج اسلام گروپ آف اسکالرز

 (انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام مترجم)

دار الافتا جامعہ نعیمیہ کراچی پاکستان کے مفتی منیب الرحمن نے واضح طور پر پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ کے زیر اثر ایک فتویٰ جاری کیا ہے ، جس سے ہر مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔  اپنے ان متعدد پیش روؤں کا  انداز بیان اپناتے ہوئے جنہوں نے  اپنے متنازعہ حکمرانوں کے مفادات کی خدمت کی تاریخ رقم کی ، مولوی منیب الرحمن  لکھتے ہیں: " کشمیر کے مسلمانوں کے لیے  غیر مسلموں کو اپنی جائیداد بیچنا جائز نہیں۔"مولوی منیب کی  یہ بات  ہمارے اسلامی اصولوں کی سمجھ کے خلاف ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بات کریں تو کشمیری مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کے ساتھ معاملات قائم  کرنے اور ہر طرح کے لین دین میں مشغول ہونے کی اجازت ہے ، جیسا کہ  وہ سیکڑوں سالوں سے یہاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیکڑوں سالوں سے متعدد مذہبی جماعتیں کشمیر میں مشترکہ طور پر رہ رہی ہیں۔ یہ کشمیر کی جامع اور رواداری پر مبنی  ایسی ثقافت ہے جسے کشمیریت کا نام دیا جاتا ہے ۔ کشمیر کی یہ ثقافت  اسلام کی آمد کے بعد سے ہی جاری  وساری رہی اور اس کے فروغ میں خاص طور پر تصوف کا عظیم کردار رہا  ۔جس طرح پہلے کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی زمین تجارت کی غرض سے بیچنے میں کوئی دقت وپریشانی نہیں ہوتی تھی ، آج بھی اگر وہ مکان کی تعمیر یا تجارت وغیرہ  کی غرض سے اپنی زمین جائداد غیر مسلموں کو بیچنا چاہیں اور اس میں مسلمانوں یا اسلام کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ  نہ ہو  تو وہ بیچ سکتے ہیں اس معاملہ میں انہیں  کسی قسم کی مذہبی پابندی محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ یہاں بہ بات بھی خیال رہے کہ  کسی غیر ملکی مولوی کو  یہ حق ہرگز  نہیں پہنچتا کہ کسی  کی نیت پر سوال اٹھائے اور محض اپنے تعصبات کی بنا پر یہ شکوک پیدا کرے کہ اس سے  مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچے گا ۔

 معاملت کے لغوی معنی ہیں لین دین یا سلوک وبرتاو۔اصطلاح فقہ میں معاملت کا مطلب ہے امور دنیا سے متعلق شرعی احکام جیسے بیع وشرا  اور انسانی سلوک وبرتاو۔ معاملت ایک ایسا معاشرتی رشتہ ہے جو متعدد معاشی اور غیر معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ بالعموم تمام معاشی سرگرمیاں اس وقت تک جائز ہیں جب تک کہ وہ اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کریں۔

بظاہر مفتی منیب کا فتوی فلسطینی مفتی شیخ محمد حسین کے ذریعہ جاری کردہ فتوی سے متاثر ہوا ہے جس نے اسرائیل کے یہودیوں کو زمین فروخت کرنے کا عدم جواز پیش کیا تھا۔ فلسطین و اسرائیل کا معاملہ مسئلہ کشمیر وبھارت سے بالکل مختلف ہے۔ فلسطین اور اسرائیل دو  متضاد سیاسی ادارے ہیں جو ایک دوسرے کے علاقہ کو دشمن کا علاقہ سمجھتے ہیں۔ جموں وکشمیر اور بھارت دو مختلف سیاسی ادارے یا ممالک نہیں ہیں بلکہ  جموں و کشمیر ایک ریاست ہے  جو اب بھارت کے اندر ایک یونین  علاقہ ہے اور تمام آئینی حقوق اور تحفظات کا حقدار ہے۔

ریاست جموں و کشمیر نے اس وقت ہندوستان میں شمولیت اختیار کی جب اس کے سابق حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1949 کو ہندوستان کے ساتھ الحاقی دستاویز پر دستخط کیے تھے کیونکہ ان پر  ایک قاتلانہ اور سفاک پاکستانی قبائلی حملے کا  دباؤ تھا  جس سے ان کی چھوٹی فوج نمٹنے کے قابل نہیں تھی۔ ہندوستانی آئین کے ذریعہ اس دستاویز میں ایک خاص حیثیت کی ضمانت دی گئی تھی جس کے مطابق اسے کچھ مراعات حاصل تھیں۔ ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مساوی بناتے ہوئے 5 اگست 2019 کو اس  خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا گیا۔ یہ 1947 کے بعد سے ہندوستان کے اندر ایک ریاست رہی ہے  اور اس ریاست کے تمام وزرائے اعلیٰ مسلمان رہے ہیں۔ ریاست کے مسلمان ہندوستان کے تمام شہریوں کے لئے آئین میں درج تمام مذہبی اور سیاسی حقوق کے حقدار رہے  ہیں۔

آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کی ضمانت منسوخ کرنے کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ جموں وکشمیر کے باشندے آئین کے سامنے حق مساوات  کھو بیٹھے ہیں بلکہ انہیں تو  بھارت کی آئین کی نظر میں پہلے سے بھی زیادہ حق مساوات کا درجہ مل گیا ہے ۔ اب انہیں کوئی خاص حیثیت یا حقوق نہیں ہیں۔ اس زمین کے تمام قوانین کا اطلاق ریاست یا یونین علاقوں کے شہریوں پر بھی ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب نہ صرف بھارت کے ہندو  بلکہ مسلمان اور دیگر مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے  تمام افراد کو ریاست میں جائیداد خرید وفروخت، ملازمت ، کاروبار اور رہائش کا حق حاصل ہوگا اور اسی طرح کشمیری باشندوں کو بھی  دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کے حقوق حاصل ہوں گے۔

جہاں تک مفتی منیب الرحمٰن کے  فتویٰ کا معاملہ ہے جو کہ کشمیر کے مسلمان اور باقی بھارت کے ہندوؤں کے درمیان اراضی کی خرید و فروخت کا مخالف ہے ، تو یہ فتوی  مکمل طور پر "دشمن علاقے" کے نظریہ پر مبنی ہے۔ مفتی منیب کی نظر میں بھارت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لئے ایک دشمن کا علاقہ ہے اور بھارت  کے ہندو اسلام کے دشمن ہیں۔ لہذا یہ فتوی ایک غلط تاثر پر مبنی ہے جس کی تائید قرآن و حدیث سے نہیں ملتی۔ مفتی منیب کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر IOK (بھارت مقبوضہ کشمیر) ہے اور جموں و کشمیر کے مسلمان پاکستانی ہیں ، بھارت ایک دشمن علاقہ ہے اور بھارت کے ہندو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ان کا یہ نظریہ نہ صرف سیاسی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی غلط اور ناقص ہے۔ قرآن و حدیث تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن نہیں سمجھتا۔ اسلام حالت  امن میں مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ اچھے سلوک، معاشرتی اور معاشی تعلقات کا جواز  دیتا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دیتا ہے جو ان سے لڑتے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:

ترجمہ : ‘‘اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے’’ (سورہ ممتحنہ ۶۰ ، آیت ۸)

مفتی منیب اپنے فتوی میں خود کچھ ایسی احادیث کا حوالہ دیتے ہیں جو مسلمانوں کو مشرکوں کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف  وہ یہ کہہ کر کہ ہندوستان کے تمام ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں لہذا ان کے ساتھ کاروباری تعلقات نہیں ہونی چاہیے تو وہ اس طرح اپنے ہی فتوے کی اساس کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ فتویٰ ایک لا شعور ذہنیت کا کی عکاسی  ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی سرزمین کو باقی بھارت کے ہندو زبردستی قبضہ کر لیں گے اور ہندوؤں کو کشمیر لایا جائے گا اور یہاں مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لئے آباد کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا  قانون ان کو اپنی زمین غیر کشمیریوں کو فروخت کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ وہ اپنی اراضی نہ صرف ہندوؤں کو بلکہ ہندوستان کے بقیہ مسلمانوں کو بھی بیچ سکتے ہیں اگر وہ چاہیں۔ اسی طرح ریاست کے سکھ، پنڈت اور عیسائی بھی کسی بھی غیر کشمیری کو اپنی زمین بیچ سکتے ہیں یا اجارہ پر دے سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلق سے کسی بھی قسم کی لا شعوری رکھنا  پوری طرح سے غلط   ہے۔

در حقیقت کشمیری عوام  اس آسانی سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ وہ اپنی اراضی کو سرمایہ کاروں کو  اور اپنی تجارتی دکانوں  کو صنعتی منصوبوں میں تعاون کے لئے کرائے پر دے سکتے ہیں۔ اس سے ریاست میں معاشی اور صنعتی ترقی ہوگی۔ اب تک وہ اپنی ثقافتی شناخت اور صدیوں پرانی روایات کے نام پر گھیٹو میں رہ رہے تھے۔  کشمیریت میں شامل وسعت نظری کا دائرہ کار  آہستہ آہستہ ختم ہوگیا اور گذشتہ چند دہائیوں میں کشمیریت کا ایک تنگ نظریہ تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ثقافتی گھیٹوازم نے نہ صرف کشمیریوں بلکہ ہندوستان ، پاکستان اور افریقی ممالک میں بہت سے دیگر برادریوں کو بھی  بہت نقصان پہنچایا ہے اور ان کی معاشی اور سیاسی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

 اپنے محدود معاشی وسائل کی مدد سے کشمیری عوام معاشی صنعتی اور سیاسی طور پر ترقی نہیں کرسکے۔ انہوں نے اپنے کھوکل کئے ہوئے  فخر ومباہات کو مستحکم کیا جب کہ پاکستان اور ان کے کشمیر میں رہنے والے اتنہا پسندوں نے دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے نوجوانوں اور ان کی اسلامی شناخت کا استحصال کیا اور انھیں وادی میں نظام مصطفی یا اسلامی خلافت کا کھوکھلا اور غیر حقیقت پسندانہ خواب فروخت کیا۔ ان کے پاس کشمیری عوام کی معاشی ترقی کے لئے کوئی روڈ میپ نہیں تھا جس کی مدد سے انہیں ہندوستانی آئین کے ذریعہ فراہم کردہ حقوق اور مواقع کی مدد حاصل ہو۔

60 سال سے زائد عرصہ سے کشمیری عوام  کو خصوصی درجہ حاصل تھا لیکن وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اس کے برعکس خصوصی درجہ نے انہیں صرف جڑتا کی حالت میں دھکیل دیا۔ جبکہ بھارت  کی دیگر ریاستوں کے مسلمان ، اقلیت میں زندگی گزارنے کے باوجود ، ہر شعبے میں دوسری جماعتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور معاشی تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں ترقی حاصل کر رہے ہیں، جبکہ کشمیری عوام اس سوچ پر راضی رہے کہ کوئی بھی ان کے امن کو پریشان نہیں کرسکتا ہے۔

بقیہ ہندوستان کے مسلمان ہندوؤں کو اپنا دشمن نہیں مانتا کیوں کہ انہوں نے ان کو گھروں سے نہیں بھگایا تھا۔ یوں کہیے کہ مسابقت کی کمی نے کشمیریوں کو سستی کی کیفیت میں ڈال دیا۔

نئی مساوی حیثیت نے کشمیریوں کو تعلیم ، صنعت اور کاروبار کے میدان میں مسلم اور غیر مسلم سمیت، دولت مند اور وسائل مند افراد اور اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کشمیریوں کے پاس زمین ہے اور بقیہ بھارت کے لوگوں کے پاس دولت اور مہارت ہے۔ وہ مل کر ریاست اور اپنی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔

جہاں تک  ہندووں کو زمین بیچنے کا مسئلہ ہے تو اسلامی شریعت مسلمانوں کو زمین کسی سے بھی بیچنے سے روکتا ہے اگر اس میں نقصان ہو ،خاص  ہندووں سے زمین بیچنے کی بات ہی چھوڑیے ۔اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:

ابن ماجہ (۲۴۸۲) کی روایت ہے کہ حذیفہ بن یمان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘جو شخص کوئی مکان بیچے اور اس کے مساوی قیمت طے نہ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی ’’

اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنا مکان یا زمین کسی خاص قوم کو نہیں بیچنی چاہیے بلکہ یہ مفہوم ہے جب تم اپنی زمین فروخت کرو  تو  اس کی مساوی قیمت کا خیال رکھو ، ایسا نہ ہو تم اس کے بدلے نقصان اٹھاو  بلکہ فائدہ مند سرمایہ کاری کے لئے استعمال کرو جیسے زمین خریدنا یا کاروبار کرنا۔

کبھی کبھی حکومت  سڑک، ریلوے لائن وغیرہ جیسے عام منصوبوں کی غرض سے  بازار کی قیمتوں پر عام ہندوستانیوں کی زمین خریدتی ہے۔ اس طرح کی زمین کا حصول ہندوستان بھر میں ہوتا ہے ۔ اگر جموں و کشمیر میں بھی اس طرح کا  سرکاری منصوبہ ہوتا ہے تو اسے فرقہ وارانہ زاویہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔

چونکہ جموں و کشمیر میں پنڈتوں سکھوں اور عیسائیوں کی بھی آبادی ہے اس لیے نئی آئینی دفعات کے تحت وہ بھی کاروباری لین دین اور غیر ریاستی سرمایہ کاروں کے ساتھ اراضی کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے بھی دانشمندی ہوگی کہ وہ اس موقع کو اپنی معاشی ترقی کے لئے استعمال کریں۔ اگر وہ ابھی بھی گھیٹو میں رہے تو دوسری کمیونٹیز آگے بڑھیں گی اور وہ خود  پیچھے رہ جائیں گے۔ کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ثقافتی سستی کو ختم کریں اور نئے مواقع اور چیلینجز کے لیے بیدار ہو جائیں۔ انہیں اپنے مسائل کو مفتی منیب الرحمٰن جیسے پاکستانی پروپیگنڈا کرنے والوں کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔

دستور ہند کشمیری عوام کو مساوی حقوق ، عزت اور مواقع کی ضمانت دیتا ہے اور اسی لئے کشمیری عوام کے لئے ہندوستان کو "دشمن کا علاقہ" نہیں مانا جاسکتا اور یہ بھی خیال رہے کہ ہندوستان کے ہندو کشمیری مسلمانوں کو اپنا دشمن نہیں مانتے ہیں۔ حقیقت میں وہ انصاف مساوات اور منصفانہ سلوک کے مطالبے میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لہذا کشمیری مسلمان کسی بھی نتیجہ خیز کوشش میں بقیہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔

کشمیری عوام نے  آغاز میں ہی دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا تھا اور سیکولر ہندوستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ بنگلہ دیشیوں نے تو شروع  میں اس خطرناک دو قومی نظریہ کو قبول کر لیا تھا لیکن جب انہیں پاکستان کے اندر مشرقی پاکستان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا تو انہوں نے بھی اس  خطرناک دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا۔ آج عملی طور پر پاکستان کی تمام نسلی اقلیتیں ، بلوچ ، سندھی ، پشتون اور مہاجر مزاحم ہیں اور پاکستان کے ساتھ اتحاد سے باہر ہونا پسند کریں گے۔ وہ ایک زبردست جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہزاروں پاکستانی گولیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور مسلسل ظلم و ستم سہنے کے باوجود ان کا جذبہ بیدار ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مفتی منیب الرحمٰن کے پاس ان کی جدوجہد کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ الفاظ نہیں ہیں۔ اس کا مقصد وہی ہے جو پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ کا ہے۔ عسکریت پسندی سے کشمیر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد وہ فتووں کے ذریعے سادہ کشمیری مسلمان کو گمراہ کرکے ہندوستان میں تقسیم کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے جو اسلام کے ان بنیادی اصولوں ، قرآن مجید کی معروف آیات اور احادیث کی روایتوں کی متضاد ہے جو باہمی رواداری کی تعلیم دیتے ہیں۔

5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی کشمیر ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔ بھارت نے ریاست کشمیر میں رہائش پانے یا نوکری حاصل کرنے یا جائیداد خریدنے پر ہندوستانی شہریوں پر پابندی ختم کردی ہے۔ تاکہ تمام ہندوستانیوں کے لئے قانون برابر ہوں۔ ہندوستان کا ایک حصہ ہونے کے ناطے کشمیر ایک خاص درجہ حاصل کر رہا تھا جسے اب ختم کردیا گیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے خصوصی حیثیت کی منسوخی کو ہندووں کے ساتھ معاملات کے عدم جواز کا شرط قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی خیال رکھنا درست ہوگا کہ ہندو کشمیری عوام کی اراضی خرید کر انہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 بہر کیف  مسلمان آبادی کے تناسب کی مختلف درجہ بندی  کے ساتھ پورے ملک میں اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ لہذا پاکستان کے مفتی منیب کی جانب سے حالیہ جاری کردہ فتویٰ جس میں انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ معاملت کو حرام قرار دیا ہے اس خیال سے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ یہ در اصل  کشمیریوں کے علاقے پر قبضہ کرنے کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پرانے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ اسلامی فقہاء کے مطابق معاملات تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ جس طرح غیر  کشمیری ہندوستانی مسلمان پرامن بقائے باہمی کے ساتھ بھارت میں  رہتے ہیں اور اپنے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ معاملت کرتے ہیں، اسی طرح کشمیری مسلمان بھی ہندوؤں کے ساتھ لین دین، خرید وفروخت جیسے معاملات  کر سکتے ہیں۔

بھارت کے عظیم فقیہ اعلی حضرت امام احمد رضا اپنی کتاب ‘‘المحجۃ الموتمنہ ’’ میں رقمطراز ہیں:

‘‘موالات ومجرد معاملت میں زمین وآسمان کا فرق ہے دنیوی معاملت میں جس سے دین پر ضرر نہ ہو سو امرتدین مثل وہابیہ دیوبندیہ وامثالہم کے کسی سے ممنوع نہیں۔ذمی تو معاملت میں مثل مسلم ہے: لھم مالنا وعلیہم ماعلینا۔ ان کے لئے ہے جو ہمارے لئے اور جو ان پر ہے ہم پر۔

 یعنی دنیاوی منافع میں ہماری طرح ان کو بھی حصہ دیا جائے گا اور دنیوی مواخذہ ان پر بھی وہی ہوگا جو ایك مسلمان پر کیا جائے گا)اور غٖیر ذمی سے بھی خرید وفروخت،اجارہ واستیجار،ہبہ واستیہاب بشروطہاجائز اورخریدنا مطلقًا ہر مال کا کہ مسلمان کے حق میں متقوم ہو اور بیچنا ہر جائز چیز کا جس میں اعانت حرب یا اہانت اسلام نہ ہو اسے نوکر رکھنا جس میں کوئی کا م خلاف شرع نہ ہو،اس کی جائز نوکری کرنا جس میں مسلم پر اس کا استعلاء نہ ہو،ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینا یا اس کا کام کرنا بمصلحت شرعی اسے ہدیہ دینا جس میں کسی رسم کفر کا اعزاز نہ ہو،اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعتراض نہ ہو حتی کہ کتابیہ سے نکاح کرنا بھی فی نفسہٖ حلال ہے،وہ صلح کی طرف جھکیں تو مصالحت کرنا مگروہ صلح کہ حلال کو حرام کرے یا حرام کو حلال،یونہی ایك حد تك معاہدہ و مواعدت کرنابھی،او رجو جائز عہد کرلیا اس کی وفا فرض ہے،اور غدر حرام الی غیر ذلك من الاحکام’’’

فقہا نے اس معاملت کو حرام قرار دیا ہے جس میں اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانا مقصود ہو۔ اور ایسی معاملت جس میں مسلمانوں یا اسلام کو ضرر پہنچانے کا اندیشہ ہو وہ بلاتخصیص مسلم اور غیر مسلم دونوں کے ساتھ ناجائز ہے۔ 

جیساکہ امام احمد رضا اعلی نے بلا تخصیص اس کی صراحت کی ہے:

‘‘معاملت مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائز ہے جبکہ اس میں نہ کوئی اعانت کفر یا معصیت ہو نہ اضرار اسلام وشریعت ورنہ ایسی معاملت مسلم سے بھی حرام ہے چہ جائیکہ کافر ’’

ارشاد باری تعالی ہے : (ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ) گناہ وظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو  (۵:۲)

اس آیت کریمہ میں مطلقا ظلم وعدوان کی امداد وتعاون سے منع کیا گیا ہے خواہ یہ ظلم وزیادتی مسلمانوں کی جانب سے ہو یا غیر مسلموں کی جانب سے۔تو معلوم یہ ہوا کہ اس آیت کریمہ کا صرف یہ مفہوم اخذ کر لیا جائے جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ صرف غیر مسلموں کے ظلم وزیادتی کی امداد ترک کی جائے اور مسلموں کے ظلم وعدوان کی امداد باقی رکھی جائے تو یہ مفہوم سراسر غلط ہے کیونکہ  آیت کی دلالت عموم پر ہے ، یعنی ظلم وعدوان کسی کا طرح کا ہو اور کسی بھی جانب سے ہو اس کی مدد کرنا حرام ہے ۔

معلوم یہ ہوا کہ اس آیت کریمہ میں مطلقا اللہ تعالی نے گناہ وزیادتی کی امداد ومعاونت سے منع فرمایا ہے لیکن مفتی منیب الرحمن نے اس آیت کریمہ کا استعمال صرف کشمیر ی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے عدم معاملت قائم کرنے کے سلسلے میں کیا ہے جبکہ ان کے اپنے وطن پاکستان کا حال یہ ہے وہاں گناہوں اور ظلم وزیادتی کی بھرمار ہے ، تو مفتی منیب صاحب آخر اپنے ملک کے لوگوں کو ظالموں سے عدم معاملت کا فتوی کیوں نہیں دیتے ؟  پاکستان میں در پیش درجنوں ظلم وزیادتی پر مبنی ایسے مسائل ہیں جن میں مفتی منیب صاحب اپنی ملک کی سالمیت کی خاطر یا کسی اور وجہ سے  سکوت فرماتے ہیں اور ان صورتوں میں معاملت کو حرام قرار دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے لیکن بات جب کشمیر کی آئی تو فورا لکھ پڑے گویا کہ وہ اپنے وطن پاکستان کے  کشمیری پالیٹکل نظریات کی حمایت کا مقصد رکھتے ہیں، نہ کہ کشمیری مسلمانوں کی بہتری کا خیال۔ پاکستانی  مسلم ہمدردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب چین میں مسلمانوں پر زیادتی ہوئی تو انہوں نے  چائنا سے معاملت اور لین دین حرام کرنے پر ایک بھی فتوی نہیں دیا ، بلکہ کسی پاکستانی نے بھی اس سمت آواز نہیں اٹھائی ، کیونکہ اس سے  ان کے اپنے مفاد کو نقصان پہنچ سکتا تھا ، اگر مسلم ہمدردی اور اخوت ایمانی بیدار ہوتی  تو چین اور روہنگیا میں مسلمانوں پر ظلم  کے خلاف ضرور آواز اٹھاتے مگر کشمیر کے مسئلہ انہیں اپنے پاکستان کا مفاد نظر آرہا ہے اس لیے کشمیری عوام کو ورغلانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ 

جموں وکشمیر کا یونین علاقہ ہندوستان کا وہ حصہ ہے جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں اور دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کے برابر انہیں تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اگر کشمیر میں کوئی بھی نوجوان بھارتی افواج یا ملکی مفادات کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ نہ صرف ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلامی قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن کو پہلے اس گناہ اور جارحیت کے خلاف فتویٰ جاری کرنا چاہئے جو کشمیریوں کو بھارت کے خلاف بغاوت پر برین واشنگ کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مفتی منیب کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے  کہ جس طرح ہندوستان کے کسی بھی حصے کے مسلمانوں کو اپنی زمین اور جائیداد خریدنے یا بیچنے کی اجازت ہے، اسی طرح کشمیر کے مسلمانوں کو بھی ہندوؤں یا دیگر  غیر مسلموں کے ساتھ اپنا لین دین اور معاملت قائم رکھنے کی اجازت ہے  اور اس مسئلہ میں اسلام  انہیں منع نہیں کرتا ۔

اپنے فتوی میں مفتی منیب نے خود کہا ہے کہ ، "سوائے مرتدین عام حالات میں یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ خرید وفروخت اور دیگر مالی لین دین کی اجازت شریعت نے دی ہے"۔ اس سلسلے میں انہوں قرآن وسنت سے دلائل کا حوالہ بھی دیا ہے مگر فتوی کا دوسرا  نقطہ جس میں انہوں  نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے  کہ کشمیر میں ہندوؤں کے ساتھ معاملت کرنے سے  مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا ، یہ محض ان  کا ضعف ایمان اور  ایسا وہم ہے جس کا حقیقت سے کوئی  تعلق نہیں۔

ان دلائل وجزئیات سے مفتی منیب کا فتوی بآسانی قابل رد ہو جاتا ہے ۔لہذا مسلمانوں کو  اس فتوی پر عمل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے خود کشمیری مسلمانوں کا ہی نقصان ہوگا  اور پاکستانی پالیٹیکس کو فائدہ پہنچے گا ۔ضرورت ہے کشمیری مسلمان اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کریں اور بلا خوف وخطر اپنے معاملات کو قائم رکھیں۔ ہم نے ماضی میں متعدد مفتیوں کو دیکھا ہے جو اپنی حکومت کے دباو یا کسی لالچ میں آکر اس طرح کے فتوے صادر کرتے رہتے ہیں ، اس سے  امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور  فکری  ترقی میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے ۔

جہاں تک ہندوستان اور اس کے کشمیری  خطے کے مسلمانوں کی بات ہے تو سب سے پہلے قوت ایمان پیدا کریں اور یہ یقین رکھیں کہ ہر حال میں اللہ تعالی ہی محافظ ہے اور اسی لئے مسلمانوں کو عالم اسباب سے ہونے والے نقصان کے بارے میں فکر مند  نہیں رہنا چاہیے ۔انہیں ہندووں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ معاملت ، تجارت، لین دین کو جاری رکھنا چاہیے ۔ان کی یہ باہمی رواداری اور   مجرد معاملت، ظلم وزیادتی کی اعانت نہ کرے  (جیساکہ قرآن میں ہے سورہ  ۵ آیت ۲)   تو بلاشبہ ایسی معاملت قرآن وسنت کی روشنی میں جائز ہے  جس کے حرام ہونے کا فتوی دینا افراط سے خالی نہیں ۔واللہ اعلم بالصواب  

---

URL for English article: https://www.newageislam.com/debating-islam/new-age-islam-group-scholars/d/121744

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/new-age-islam-group-scholars/d/121769

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..