دہشت گردی سے متاثر کسی بھی خطے
میں امریکی فوج کی موجودگی تنازع کو طول دیتی ہے اور اسے بڑھاتی ہے۔
داعش کے قیدیوں
کا شام میں جیل سے فرار ہونے کا حالیہ واقعہ خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ
کی علامت ہے۔
بن لادن کا قتل یا موصل سے
داعش کو نکالنے کا مطلب دہشت گردی کا خاتمہ نہیں تھا۔
شام اور عراق
کے بڑے حصوں کو تباہ کرنے کے بعد بھی، امریکہ داعش اور القاعدہ کو ختم کرنے کا دعویٰ
نہیں کر سکتا۔
داعش کے خلاف پانچ سال کی
جنگ کے باوجود لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیو ایج اسلام
ایڈیٹ ڈیسک
امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد
عراق اور شام کی صورتحال کے بارے میں پروین سوامی کا تجزیہ درست ہے۔ اب آہستہ آہستہ
عراق اور شام میں امریکہ کا کھیل واضح ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں شام میں ایک جیل
پر داعش کا حملہ اور سیکڑوں سخت گیر داعش دہشت گردوں کا فرار ہونا اس بات کا اشارہ
ہے کہ داعش اس خطے میں دوبارہ منظم ہو رہا ہے جبکہ امریکہ کے دو ہزار سے زیادہ فوجی
اب بھی وہاں تعینات ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور اور جدید ترین
فوجوں میں سے ایک امریکی فوج کی موجودگی صرف دہشت گردی کو جنم دیتی ہے اور دہشت گرد
گروہ طاقت کھونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ 2014 میں عراقی فوج موصل کی طرف پیش
قدمی کرتے ہوئے، ٹینک اور دیگر ہتھیار چھوڑ کر دلچسپ طریقے سے فرار ہو گئی تھی جسے
داعش نے قبضے میں لے لیا تھا۔ جلد ہی داعش نے موصل میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور خلافت
قائم ہو گئی۔ عرب بہاریہ کو داعش نے امریکہ کی خفیہ مدد سے ہائی جیک کیا تاکہ خطے میں
ایران کے سیاسی عزائم کو نشانہ بنانے اور شام کے ساتھ روس کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات
کو نقصان پہنچانے کے لیے بشار الاسد حکومت کو گرایا جا سکے۔ سعودی انٹیلی جنس کے وزیر
بن دار بن سلطان نے پوتن کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ شام میں لڑنے والے دہشت گرد گروہوں
کو سعودی عرب کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران
امریکہ سعودی عرب کا اتحادی تھا۔ ایک طویل خانہ جنگی ہوئی جس کے نتیجے میں لاکھوں جانیں
گئیں اور شامی اور عراقی شہری بے گھر ہوئے اور بڑے پیمانے پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت
کرنے پر مجبور ہوئے۔ خطے سے ان کے نکلنے کے بعد داعش کا دوبارہ عروج، امریکہ کے حقیقی
ارادے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس کے عزائم پر بہت سارے سوالات کھڑے کرتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے عسکریت پسند اسلامی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی یہ صرف ایک تازہ مثال
ہے کہ اس نے طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان کو تباہ کرنے کے
بعد، افغانستان میں طالبان کو اقتدار میں آنے میں مدد کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داعش کے رہنما کی موت کو دہشت
گردی کے خلاف سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ سچائی کچھ اور ہے
امریکی چھاپے
میں داعش لیڈر کی ہلاکت پر ایک عظیم فتح کے جشن میں ماضی کے تجربے کو نظر انداز کیا
جا رہا ہے۔
پروین سوامی
6 فروری 2022
An
ISIS convoy (Representational image) | Twitter/@Intlatm
-------
قیدی M060108 — سیاہ جلد، اس کے اغوا
کاروں کے ریکارڈ کے مطابق 218.5cm، 101kg — کو 2008 میں نئے سال
کے دن کے فوراً بعد، ام قصر، عراق میں خاک آلود جیل کیمپ میں لے جایا گیا۔ آنے والے
ہفتوں میں، خفیہ تفتیش کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ M060108 نے القاعدہ میں اپنے ساتھیوں کو ایک کے بعد ایک دھوکہ
دیا۔ لیکن اس نے ایسا کیوں کیا؟ دستاویزات میں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے؛ دوسرے
قیدیوں کو رائفل کے بٹوں سے مارا گیا، جنسی طور پر ذلیل کیا گیا، کالی مرچ کا چھڑکاؤ
کیا گیا، چلچلاتی ہوئی دھوپ میں باندھ کر چھوڑ دیا گیا۔
گزشتہ ہفتے چند سیکنڈوں کے
لیے امریکہ کی خصوصی افواج نے اس قیدی کو دوبارہ دیکھا، اس سے پہلے ہی اسلامک اسٹیٹ
کے خود ساختہ خلیفہ نے اپنے خاندان کے ساتھ خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
جیسا کہ 2011 میں اسامہ بن
لادن کا قتل، یا 2019 میں اسلامک اسٹیٹ کے پہلے خلیفہ ابراہیم عواد البدری کا قتل،
امیر محمد عبدالرحمٰن، جسے ابو ابراہیم الہاشمی بھی کہا جاتا ہے، کے قتل کو دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔
یہاں تک کہ جب سابق امریکی
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 2019 میں خلافت کی "100 فیصد" شکست پر خوشی کا اظہار
کیا تھا، داعش عراق اور شام میں عبدالرحمٰن کی قیادت میں دوبارہ منظم ہو رہی تھی، اور
افریقہ اور ایشیا میں پھیل رہی تھی۔ حالیہ ہفتوں میں، دہشت گرد گروہ نے اپنے عراق-شام
کے مرکزوں میں جدید ترین حملے کیے ہیں۔ داعش سے متاثر تحریکیں دو براعظموں میں پھول
چکی ہیں۔
2003 میں عراقی تاناشاہ صدام حسین کی حکومت کی تباہی کو مشرق وسطیٰ
میں جمہوریت اور امن کے نئے دور کے آغاز کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن اس کی جگہ ایک
طویل اور خطرناک شورش کا دور شروع ہوا ۔ جس کا نتیجہ ریاستی اداروں کی تباہی، مذہبی
اور نسلی تصادم، غربت اور غیر ملکی قبضے کی شکل میں سامنے آیا۔
کس طرح سخت ترین امریکی تشدد نے جہادیت کو جنم دیا
بہت سی دوسری فوجوں کی طرح امریکہ
اور اس کے اہم اتحادی برطانیہ نے بھی بربریت کا جواب بربریت سے دیا۔ عراقی قصبے الحدیدہ
میں 2005 میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد امریکی اور برطانوی فوجیوں نے مبینہ طور پر
درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ فلوجہ کو زمیں بوس کر دیا گیا، کیونکہ امریکی اور
برطانوی فوجی اسے باغیوں سے چھڑانے کے لیے لڑ رہے تھے۔ صرف 2009 میں ہی برطانوی فوجیوں
پر تشدد اور جنسی زیادتی کے 33 الگ الگ الزامات سامنے آئے۔
جنرل رابرٹ لی نے دسمبر
1867 میں فریڈرکس برگ کے میدان جنگ میں ہونے والے قتل عام کا سروے کرتے ہوئے کہا تھا
کہ ’’یہ اچھی بات ہے کہ جنگ بہت خوفناک ہے، ورنہ ہم اس کے عادی ہو جائیں گے‘‘۔ تاہم،
صدر جارج بش نہیں جھکے۔
القاعدہ — جس نے مظالم کے
خلاف قوم پرستوں کے غصے اور ساتھ ہی ساتھ عراق کی شیعہ اکثریت کے ہاتھوں سنیوں کے حاشیے
پر ڈال دئے جانے کے خوف سے اپنے مظالم کا جواز
پیش کرنے کی کوشش کی — بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد کے اعتبار سے 9/11 سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔
خلیفہ کا
عروج
عبدالرحمٰن کی سب سے مستند سوانح
عمری، جسے صحافی فیرس کلیانی نے لکھا ہے، اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ 1976 میں
موصل میں ایک مولوی کے ہاں پیدا ہوا تھا، جو دو بیویوں سے اپنے والد کے سات بچوں میں
سب سے چھوٹا تھا۔ عبدالرحمٰن نے اسلامی تعلیمات میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے سے پہلے،
صدام حسین کی فوج میں اٹھارہ ماہ کی لازمی فوجی سروس مکمل کی تھی۔
2003 سے، جیسے جیسے پورے عراق میں انتشار پھیلتا گیا، لگتا ہے کہ عبدالرحمٰن
انصار الاسلام کے قریب ہوتا گیا، جس نے جلد ہی خود کو القاعدہ میں ضم کر لیا۔ بعد میں،
القاعدہ کے اہم کمانڈر، اردنی احمد فدیل النزل کی موت کے بعد، عبدالرحمٰن کا ممبر بن
گیا۔
2007 میں، عبدالرحمٰن کے تفتیشی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ، اس نے موصل
میں مذہبی عدالتیں چلانے کا عہدہ سنبھالا اور اغوا اور تاوان کے دیگر معاملات کو بھی
سنبھالا۔
کرد پیشمرگا فوج کے ہاتھوں
2008 میں اپنے گھر سے گرفتار ہونے والے عبدالرحمن داعش کی دیگر اہم شخصیات کے ساتھ
جیل میں بند ہوا۔ 2009 میں کیمپ بوکا کے بند ہونے کے بعد، اس کے سابق طلباء داعش کی
ریڑھ کی ہڈی بن گئے۔
اس کے بعد کی عبدالرحمٰن کی
زندگی کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ کچھ عرصے کے لیے انھیں موصل کے الامام الادھم
کالج میں مذہبی ججوں اور علماء کی تربیت کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا چارج دیا
گیا۔ اس پر الزام ہے کہ کچھ معاملوں میں اس نے 2014 میں سنجر کے سقوط کے بعد یزیدیوں
کے قتل کرنے اور یزیدی خواتین کو باندی بنا کر رکھے جانے کو مذہبی جواز فراہم کیا۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ انتہا
پسندی ایسے حالات میں پروان چڑھتا ہے جہاں حکومت اور سماجی ڈھانچے تشدد سے تباہ ہو
گئے ہوں۔ لیکن واشنگٹن اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
عرب بہاریہ عرب خزاں میں تبدیل
2010 سے پورے مشرق وسطیٰ میں
آمرانہ حکومتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے گئے، جسے عرب بہاریہ کے نام
سے جانا گیا۔ امریکہ نے شام میں ایک اہم بغاوت کے پیچھے اپنا تعاون پیش کیا اس امید
میں کہ وہ اپنے قدیم دشمن بشار الاسد کی حکومت کو معزول کر سکے، اور خطے میں ایرانی
اثر و رسوخ کو روک سکے۔ 1848 کے یورپی انقلابات کی طرح، جس سے عرب بہار یہ کو نام ملا،
ہر ملک میں بغاوتوں کے کافی مختلف نتائج برآمد ہوئے۔ شام میں جہادیوں کو فتح حاصل ہوئی
جوکہ ایک بہترین منظم قوت تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تباہی
کا بیج خود بشار الاسد نے بویا تھا۔ نوجوانوں کے غصے سے لڑتے ہوئے جو اس کی لبرل معاشی
اصلاحات کی پیداوار تھی- جس نے ترقی تو کی،
لیکن نوکریاں نہیں پیدا کیں- الاسد نے اسلام پسند سیاسی مہم اخوان المسلمین کو جگہ
دی اور عراقی جہادیوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔
اپنے مفاد میں امریکہ نے عراق
میں ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف استعمال کرنے اور شامی حکومت کو گرانے کے لیے ایک
آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے پیش نظر داعش کو نظر انداز کیا اور اس کے عروج کو
ممکن بنایا۔
اگرچہ اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوا،
لیکن شام اور عراق کے بڑے حصے بامعنی ریاستی کنٹرول سے باہر رہے۔ آئی ایس کے پاس اب
بھی ایک اندازے کے مطابق 10,000 جنگجو موجود ہیں، اور وہ اہم علاقوں کو کنٹرول کرتے
ہیں۔ اس نے پورے ایشیا اور افریقہ میں جہادیوں کو متاثر کیا ہے۔
گزشتہ سال، اقوام متحدہ نے
ریکارڈ کیا کہ داعش کا تشدد پورے افریقہ میں بڑھ رہا ہے، جس کا خطہ شمالی مالی سے لیکر
ملک کے مرکزی علاقے کے ساتھ ساتھ نائجر یا اور برکینا فاسو تک پھیلا ہوا ہے۔ تیل کی
دولت سے مالا مال موزمبیق میں، جہادیوں نے کامیابی کے ساتھ پالما کے قصبے پر حملہ کیا۔
صومالیہ میں الشباب کے دہشت گردوں کے خلاف 14 سالہ جنگ نے ملک کے استحکام کی طرف کوئی
قابل ذکر پیش رفت نہیں کی۔
اسی طرح نائجیریا کو بوکو
حرام سے لڑنے میں بہت کم کامیابی ملی ہے، جو کہ ایک ایسا جہادی گروپ ہے جس نے 2002 سے دہشت گردانہ حملوں میں ہزاروں جانیں
لی ہیں۔ یہ شورش نائجریا اور شمالی کیمرون
تک پھیل گئی ہے۔
ان لامتناہی جنگوں سے تھک
کر مغربی حکومتیں اس افراتفری سے پیچھے ہٹ رہی ہیں جو انہوں نے نائن الیون کے بعد شروع
کیا تھا۔ گزشتہ سال فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے افغانستان میں اپنے آپریشن بارکھان
کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ عراق میں تعینات
2,500 امریکی فوجی، یا شام میں تعینات 900 فوجی وہاں کب تک رہیں گے۔
افغانستان کی طرح وہ ممالک
بھی عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں – جن سے
ان خطوں میں بےچینی پھیل سکتی ہے جو ہندوستان کی توانائی کی سلامتی کے لیے اہم
ہیں۔ چند ہندوستانی—صرف 66، ایک اندازے کے مطابق—داعش کے ساتھ لڑے، لیکن ایسا مانا
جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ نے جدید تربیت حاصل کی تھی، اور انہوں نے افغانستان میں خودکش
حملے کیے تھے۔ اگر مستقبل میں ہندوستان کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑے پیمانے پر تشدد
کو جنم دیتی ہے، تو اسلامک اسٹیٹ کی بھرتی میں اضافہ ہوگا، جس کے سنگین نتائج برآمد
ہوں گے۔
عبدالرحمٰن کی کہانی میں کوئی
سبق نہیں ہے سوائے اس کے کہ مائیں اپنے چھوٹے
بچوں کو سکھاتی ہیں: ماچس کی تلی کے ساتھ مت کھیلو۔ امریکہ کی عراق جنگ سے بھڑکی ہوئی
آگ ممکن ہے کہ کئی سالوں تک بھڑکتی رہے۔
English
Article: The Role of the
U.S. in War on Terror Has Always Been Doubtful
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism