نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
9 اپریل 2013
شام میں جاری خانہ جنگی، صرف اس معنی میں ایک تنازعہ نہیں ہے کہ ، بہت ساری جماعتیں اور گروپ، بشار الاسد کی سفاک حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، بلکہ اس معنی میں بھی کہ ، بہت سارے علماء، اپنے پسندیدہ فرقے یا گروپ کو ابھارنے کے لئے ،فتوی جاری کر رہے ہیں، تاکہ وہ جنگ جیت سکیں ۔ اسد جس کا تعلق شیعہ فرقے کے علوی مسلک سے ہے، اسے سنی اکثریت کے ذریعہ ایک بغاوت کا سامنا ہے۔ بغاوت بہار عرب کا ایک حصہ تھی، جس نے تیونس، مصر اور لیبیا کے ڈکٹیٹروں کو اکھاڑ پھینک دیا ۔ تاہم اسدابھی تک اقتدار پر قابض رہنے کے قابل ہے، اور صورتحال کو اب تک پیچیدہ بنائے رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
یہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک جنگ نہیں ہے، کیونکہ جنگ کرنے والے دونوں متحارب فرقے کے لوگ مسلمان ہیں۔ دونوں فریق ان کے مخالفین کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کر رہے ہیں ۔ وہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، مسلمان اور عیسائی دونوں کی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کر رہے ہیں، گاؤں کو جلا رہے ہیں، اور گاؤں والوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ سرکاری فوجیں سنی آبادی پر کاروائی کر رہی ہیں، اور امریکہ کی حمایت حاصل شدہ فری سیرین آرمی شیعوں کے قتل اور عصمت دری کے ذریعہ بدلہ لے رہی ہے۔ اور دونوں فریقو نے اس جنگ کو جہاد قرار دیا ہے۔
انٹرنیٹ پر ایسے ویڈیوز اپ لوڈ کئے گئے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں جنگجوؤں اور عام شہریوں دونوں کے وحشیانہ قتل کو دکھا تے ہیں۔ ایک منظر میں،ایک بزرگ شخص کو زمین پر لٹا کر ، اس کی گردن کاٹ کر مارنے کے لئے ، ایک چھوٹے سے لڑکے ہاتھ میں چانپڑ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ لڑکا اس کے مرنے تک اس کی گردن پرضرب لگاتا ہے ۔
یہ جہاد نہیں ہے، بلکہ ایک خانہ جنگی ہے جو پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ ایک آمر کے خلاف، ایک بڑے پیمانے پر بغاوت تھی، لیکن بعد میں یہ ایک شیعہ سنی تنازعہ میں تبدیل ہو گئی، اس طرح دو فرقوں کے لوگوں نے، فرقہ وارانہ سطح پر الگ الگ رخ اختیار کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ایک سنی عالم دین اپنی مسجد میں ہلاک کر دیا گیا،اس لئے کہ وہ اسد حکومت کا حامی تھا، اوراس طرح مسلکی جنگ میں حائل دیوار کو ڈھا دیاگیا۔
شیعہ، اسد کی حکومت کے خلاف بغاوت کو ،شیعہ دنیا کے لئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اس لیے اسے بچانے پر بضد ہیں ۔ جیسا کہ عراق، تیونس، مراکش اور یمن وغیرہ ، تمام ہمسایہ ممالک سے نوجوان شیعہ مرد اور لڑکیاں شام میں شیعہ حکومت کو بچانے کے لئے لڑنے کے لئے شام کا رخ کر رہے ہیں، سنی گروہ بھی ، پوری دنیا کے سنیوں کو، سنیوں کی حمایت پر متحرک کرنے کی، پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ، عراق میں القاعدہ کی ملحقہ تنظیم بھی اسد کو زیر کرنے اور وہاں ایک 'اسلامی ریاست' قائم کرنے کے لئے ،جنگ میں شامل ہو گئی ہے۔ مایوسی اس مرحلے تک پہنچ گئی ہے کہ سنی سلفی علماء بھی، آزاد شامی فوج کے حامیوں کو خوش کرنے کے لئے، تمام مسلمانوں کو FSA میں شامل ہونے کے لئے کہتے ہوئے، میدان میں کود پڑے ہیں ۔
سلفی سنی علماء نے، شیعوں کے خلاف 'جہاد' میں شامل ہونے کے لئے ، مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے فتوی جاری کیا ہے۔ سعودی عالم محمد العارفی کے بارے میں خبر ہے کہ ، انہوں نے ایک فتوی جاری کیا ہے ، جس میں انہوں نے مسلمان لڑکیوں کو اور مطلقہ اور بیوہ عورتوں کو، شام کے جنگجوؤں کو عارضی شادی کے لئے پیش کرنے، اور جنت میں اپنی جگہ محفوظ کرنے کو کہا ہے۔ تاہم، اس کے بعد العارفی نےاس الزام کی تردید میں ایک ویڈیو جاری کیا ہے، اور یہ کہا ہے کہ جو اس فتوی میں یقین رکھتا ہے وہ پاگل ہے ۔ انہوں نے فتوی کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ یہ اسلام کے احکام و تعلیمات کے خلاف ہے ۔ لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو چکا۔ فتوی انٹرنیٹ پر اسلامو فوب سائٹس کے ذریعہ ، اور اسد حکومت کے ذریعہ بھی مخالفین کی شبیہ خراب کرنے کے لئے ، بڑے پیمانے پر شائع کیا گیا، جس نے تیونس کی لڑکیوں کے ایک گروپ کو شام کا رخ کرنےکے لئے ترغیب دی ۔ میدان جنگ سے واپس لوٹنے والے کچھ جہادیوں نے بتا یا کہ انہوں نے ، شام میں، تیونس کی 13 نوعمر لڑکیوں کو دیکھا جو جنسی طور پر جہاد میں شامل ہونا چاہتی تھیں ۔ رحمہ نامی ایک دوسری نوجوان لڑکی، اپنے گھر سے غائب ہو گئی مگر چند دنوں کے بعد واپس آگئی ۔ اس نے بھی 'جنسی جہاد' میں شامل ہونے کے لئے شام کا رخ کیا تھا۔ تاہم اس کی ماں نے کہا کہ، وہ ایک مذہبی متشدد لڑکی نہیں تھی بلکہ اسے، اس کے سلفی ساتھی طالب علموں کے ذریعہ جہاد میں شامل ہونے کا جھانسا دیا گیا تھا۔ ایک اور مثال میں، ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیا اور اسے 'جنسی جہاد' میں مشغول ہونے کے قابل بنانے کے لئےاس کے ساتھ شام کا رخ کیا ۔
فتوی نے تیونس کے سیاسی حلقوں میں خدشات پیدا کر دئے ہیں ۔ حکومت کو فتوی پر تنقید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرنا پڑا، اور یہ کہنا پڑا کہ وہ اس سے متاثر نہ ہوں، اور شام کی جنگ میں شامل نہ ہوں ، اس لئے کہ یہ کوئی مقدس جنگ نہیں ہے ۔ تیونس کے مذہبی امور کے وزیر نورالدین الخادمی نے کہا کہ فتوی "ملک کے لئے نئی اور اجنبی چیز ہے" اور لوگوں کو اس کی پیروی کرنے کے لئے پابند نہیں کیا گیا ہے ۔
اگرچہ، عارضی شادی شیعہ کمیونٹی میں قابل قبول ہے اور سنی اس سے اجتناب کرتے ہیں،لیکن الاسد کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے، سنی علماء نے جنگجو اور نوجوان لڑکیوں کے درمیان چند گھنٹوں کے عارضی شادی کی اجازت دے کر ، اپنے ہی عقیدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ، وہ ایک جنگ جیتنے کے لئے کس حد تک گر سکتے ہیں ، جب کہ اسلام جنگ کے میدان میں اخلاقی یا فوجی قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
ایک اور سوڈانی عالم یاسر اجلونی، جس نے شام میں 17 سال گزارے ہیں، اس نے بھی، غیر سنی خواتین کی عصمت دری کاجواز دیتے ہوئے ، ایک فتوی جاری کیا ہے،، قرآن کی اصطلاح ملک الیمین(باندیوں) کا حوالہ دے کر خاص طور پر دروز (druze)اور غیر مسلم خواتین سمیت علوی شیعہ فرقے کی عورتوں کی عصمت دری کو جائز قرار دیا ہے ۔ اجلونی اپنی اس بات میں ایک قدم اور آگے چلے گئے کہ ،خواتین قیدیوں (سبایا) سے زبردستی کسی بھی مہر کے بغیر شادی کی جا سکتی ہے، اور اس کے بچے اس کی قانونی اولاد ہوں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ فتوی کا فوری اثر ہوا کیونکہ اس کے فوراً بعد ہی حلب سے عیسائی خواتین کی عصمت دری کی خبر ملی تھی ۔
اس سے قبل، مصر کے ایک عالم شیخ اسحاق ہوائینی نےبھی، مال غنیمت کی طرح ، جو کہ فوجیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، دشمن کی عورتوں کو قیدی بنانے اور ان کی عصمت دری کرنے کی اجازت دی ۔
تاہم، وسیع تر اسلامی کمیونٹی اور علماء نے، ان غیر اسلامی اور غیر انسانی فتوی کی مذمت کی ہے، لیکن وہ ماحول بگاڑ چکے ہیں، اور اسلام کو بدنام کر چکےہیں، اس لئے کہ اسلام کسی بھی صورت میں آزاد جنسی اختلاط اور زنا کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلامو فوب سائٹس جو اسلام کے خلاف اس طرح کے چٹ پٹے مواد کی بناء پر چلتے ہیں ، انہوں نے ان مسترد اور گمنام فتوی کو اتنے بڑے پیمانے پر تقسیم کیا کہ وہ سچ لگنے لگے۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل جو انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتی ہے، وہ اس پر پوسٹ کئے گئے ، کسی بھی مواد کےذریعہ، اس کے مثبت یا منفی ہونے کا فیصلہ کئے بغیر ،آسانی کے ساتھ بہک جاتے ہیں۔ دو فرقوں کے پیروکار اس جنگ کو جہاد سمجھتے ہیں ، جبکہ یہ صرف ایک گندی اور خوفناک خانہ جنگی ہے، جہاں تمام مذہبی اور اخلاقی اقدار کو ہوا میں اچھالا جا رہا ہے ۔ اور اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ ، سعودی عرب، مصر اور اردن کے مذہبی رہنماؤں نے بھی قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اسلام کے خلاف، صرف ایک جنگ جیتنے کے لئے، ان کی طرف غیر اخلاقی طرز عمل منسوب کر کے، توہین اسلام و توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے، اور پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل کر رہے ہیں ۔تا ہم ان فتووں سے جو لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں ان کی تعداد کم ہے، لیکن اس نے مسلمانوں کے درمیان ایک بہت ہی بری مثال قائم کی ہے، اور مسلم نوجوانوں کو یہ تأثر دیتے ہوئے کہ جنگ کے دوران سب کچھ جائز ہے، اس نے آزاد جنسی اختلاط، زنا اور حرام کاری کو فروغ دیا ہے۔ تیونسین لیگ فار ہیومن رائٹ کی سربراہ Balkis Mechri-Allagui نے بجا طور پر اس رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ،‘‘ اگرچہ وہ نوجوان لڑکیاں جو اس میں ملوث ہیں ان کی تعداد کم ہے، ہم اس معاملے میں تعداد کے تعلق سے اتنے فکر مند نہیں ہیں، جتنا ہم اپنے معاشرے میں اس کی موجودگی کے متعلق فکر مند ہیں، ہم یہی جانتے ہیں کہ ، لڑکیاں جہاد کے لئے شام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں ۔ اور اسی لئے ہمیں اس مسئلہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری ہے ۔’’
URL for English article
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/syria’s-sexual-jihad-shia-sunni/d/11319