اب حجاب ہندوؤں اور مسلمانوں
دونوں کے قدامت پسند طبقے لیے ایک شناختی مسئلہ بن چکا ہے۔
اہم نکات:
بہت سے مسلم اکثریتی ممالک
میں حجاب پر پابندی ہے۔
کالج کے طلباء میں حجاب کا
بڑھتا ہوا رجحان ایک حالیہ واقعہ ہے۔
انتخابی سیاست نے بھی حجاب
کے تنازع کو ہوا دی ہے۔
----
نیو ایج اسلام ایڈیٹ ڈیسک
19 فروری 2022
India's
hijab row (Photo: Twitter)
----
حجاب اب تک ایک سماجی تنازعہ
تھا لیکن اب عدلیہ کی مداخلت سے یہ امن و امان کا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ حجاب پر پابندی
کی خلاف ورزی کرنے والی لڑکیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں
دونوں کے قدامت پسندوں نے اس تنازعہ کو ہوا دی ہے جو دن بدن بدصورت رخ اختیار کرتا
جا رہا ہے۔
پہلے کالج جانے والی مسلم
لڑکیوں میں حجاب کا رواج نہیں تھا۔ مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے مذہبی جذبات کی وجہ سے
حجاب کو مسلم لڑکیوں میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں یہ مذہبی جذبات بابری
مسجد کے انہدام کے بعد اور گجرات فسادات کے بعد زیادہ بڑھے ہیں۔
پچھلے بیس سالوں کے دوران
مسلم نوجوانوں میں داڑھی رکھنے کا رجحان بھی بڑھ گیا۔ حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ
زیادہ تر مسلمان پنج وقتہ نماز کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔
تاہم، بہت سے مسلم اکثریتی
ممالک میں حجاب اب ایک مسلم شناخت کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ بعض ممالک میں حجاب پر پابندی
ہے جبکہ بعض ممالک میں یہ لازمی ہے۔ سعودی عرب میں موجودہ حکومت نے حجاب اور عبایا
کو خواتین کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ لازمی نہیں ہے۔
ہندوستان میں، کہ جہاں حجاب
مسلمانوں کے لیے ایک شناخت کا مسئلہ بن گیا ہے، اسے قدامت پسند ہندو امتیازی سلوک مانتے
ہیں۔
حجاب کا معاملہ اب دونوں برادریوں
کے لیے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے اور اس سے مسلم بچیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اسلامی
شریعت حجاب کے مسئلے میں زیادہ سخت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مسلم اکثریتی ممالک میں
یا تو اس پر پابندی ہے یا یہ خواتین پر لازمی نہیں ہے۔ لیکن بہت سے انتہا پسند علماء
نے گزشتہ برسوں میں حجاب کی اپنی ایسی ذاتی تشریح پیش کی ہے جس کے مطابق عورتوں کو
اپنے گھر سے باہر نکلنے کے لیے اپنے پورے جسم کا پردہ کرنا ضروری ہے۔ اس تفسیر کی تائید
قرآن سے نہیں ہوتی۔ کچھ لڑکیوں نے امتحانات پر حجاب کو ترجیح دیتے ہوئے اپنا امتحان
چھوڑ دیا، ایک مسلم لیکچرار نے اس وقت اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا جب اسے کالج کے
گیٹ پر اپنا حجاب اتارنے کو کہا گیا۔
مسٹر رام پنیانی نے اس مسئلے
کو تاریخی اور کثیر ثقافتی دونوں نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
---------
بھارت کے
حجاب تنازعہ میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم دونوں مذاہب کے انتہا پسندوں کے درمیان پھنس
گئی
رام پنیانی
15 فروری 2022
حجاب کے بارے میں بڑھتا ہوا تنازعہ
پریشان کن شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اڈوپی، کرناٹک میں، مسلم لڑکیوں کا الزام ہے
کہ اگر وہ حجاب پہنتی ہیں تو انہیں کلاس روم میں داخلے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ پھر
ہم نے یہ دیکھا کہ تعلیمی اداروں کے دروازے حجاب پہننے والی لڑکیوں پر بند کر دیے جاتے
ہیں۔ اس کے علاوہ، ہم نے زعفرانی پگڑی اور شال پہنے شریر لوگوں کی گھناؤنی حرکت کا
مشاہدہ کیا جو ایک اکیلی لڑکی مسکان کو روک رہے تھے اور جارحانہ انداز میں ’جے شری
رام‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ اس نے بدلے میں 'اللہ اکبر' کا نعرہ لگایا اور اپنی اسائنمنٹ
جمع کروانے چلی گئی۔ مسلم لڑکیوں نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس نے اپنے عبوری
حکم میں اسکولوں میں زعفرانی شالوں اور حجاب پر روک لگا دی ہے۔
(File
Photo)
-----
اس کے جواب میں حقوق نسواں
کی بہت سی جماعتوں اور انسانی حقوق کی دیگر جماعتوں نے لڑکیوں کے حجاب پہننے کے حق
کو برقرار رکھا ہے اور قدامت پسندوں کی کارروائیوں کی سختی سے مذمت کی ہے۔ حجاب پہننے
والی مسلم لڑکیوں کی حمایت میں احتجاج جاری ہے۔ اس نے فرقہ وارانہ ماحول کو بھی دوبارہ
زندہ کر دیا ہے اور پھوٹ ڈالنے والی طاقتوں کو ایک آلہ فراہم کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا
اب حجاب پہننے والی لڑکیوں/خواتین کے خلاف توہین آمیز تبصروں سے بھرا ہوا ہے۔
یہ پورا واقعہ ان جارحانہ سرکش
جماعتوں کے پیچھے کارفرما قوتوں کو ظاہر کرتا ہے جو ان کے ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ وہ مسلم کمیونٹی کو ذلیل کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جا
سکتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ لوگ جنہوں نے سلی ڈیلز اور بلی بائی جیسی ایپس بنائی، وہ لوگ
جو دھرم سنسد کے بھاشنوں کے خاموش حامی بنے ہوئے ہیں، ضرور ہنس رہے ہوں گے کیونکہ پولرائزیشن
کے عمل کو اس تنازعہ سے فروغ مل رہا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا یہ بیان
کہ وہ دھرم سنسد میں کہی گئی باتوں کو قبول نہیں کرتے، محض ایک گمراہ کن بیان بازی
ہے۔ آر ایس ایس کے اندریش کمار، جو راشٹریہ مسلم منچ کی رہنمائی کر رہے ہیں، انہوں
نے مسکان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ جان بوجھ کر خطے میں امن و امان کو خراب
کرنے کے لیے کیا ہے۔
مسلم مخالف جذبات
ہم نے ایسا ماحول بھی دیکھا
ہے جہاں عوامی مقامات پر نماز کی مخالفت کی گئی ہے، اور یہ خوفناک ماحول اس حد تک بگڑتا
جا رہا ہے کہ نسل کشی کے ماہر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ نسل کشی کے معاملے
میں بھارت 10 میں سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر شمال مشرق میں سی اے اے
اور این آر سی قانون کے پر زور طریقے سے نفاذ کے بعد مضبوط ہوا ہے، جس سے مسلمانوں
کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دہلی فسادات اور سی اے اے مخالف
مظاہروں کے تناظر میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانا بھی قابل مذمت ہے۔
کچھ نکات ایسے ہیں جن پر ہمیں
محتاط رہنا ہوگا۔ ہندو قدامت پسندوں کو مسلم فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کی وجہ سے
اشتعال ملتا ہے۔ کیا حجاب کے تنازع کو ہوا دینے میں مسلم فرقہ پرستوں کا کوئی کردار
ہے؟ ہمیں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے طلبہ محاذ، کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے عروج کو یاد کرنے
کی ضرورت ہے جو اس سے قبل پروفیسر جوزف پر حملے میں ملوث تھا۔ لوگ یہ سمجھنا چاہیں
گے کہ اسکول کے گیٹ تک حجاب پہننے اور اسے کلاس روم میں جا کر اتار دینے والی لڑکیوں
کی موجودہ صورت حال میں کیوں خلل پیدا کیا گیا؟ ایک طرف نعرے لگ رہے ہیں کہ حجاب ہمارا
پیدائشی حق ہے اور دوسری طرف اس ملک پر شریعت نافذ نہیں ہو سکتی۔
دنیا بھر میں حجاب کے بارے
میں بہت سے مباحثے ہوئے ہیں۔ جب فرانس نے عوامی مقامات پر اس پر پابندی لگائی تو احتجاج
ہوا لیکن فرانس (اس وقت کے صدر نکولس سرکوزی) اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ جہاں تک تازہ
ترین صورتحال کا تعلق ہے بہت سے مسلم اکثریتی ممالک نے بھی عوام میں حجاب پر پابندی
عائد کر رکھی ہے مثلا کوسوو (2008 سے)، آذربائیجان (2010)، تیونس 1981 (جسے جزوی طور
پر 2011 میں اٹھا لیا گیا) اور ترکی۔ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے
اعلان کیا ہے کہ مسلمان خواتین کے لیے سر ڈھانپنا یا پورا جسم ڈھانپنے والا عبایا لازمی
نہیں ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، مالدیپ اور صومالیہ میں یہ لازمی نہیں ہے۔
ایران، افغانستان اور انڈونیشیا کے صوبہ آچے میں یہ قانون کے مطابق لازمی ہے۔
ہندوستان اور حجاب
بھارت کی صورتحال مزید پیچیدہ
ہو گئی ہے۔ اگر چہ برقع پہلے سے ہی رائج تھا، لیکن اس کا کثرت سے استعمال ایودھیا،
اتر پردیش میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد، ہونا شروع ہوا ہے۔ اس کے بعد عالمی سطح
پر خلیجی ممالک کی تیل کی دولت پر قبضہ کرنے اور پھر ’اسلامی دہشت گردی‘ کے پروپیگنڈے
کو سامنے لانے کے امریکی ایجنڈے نے نہ صرف مسلمانوں کے عدم تحفظ میں اضافہ کیا بلکہ
ہندوستان میں مسلمانوں کے پہلے سے موجود عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کیا ہے۔
File
Photo
----
برقع/حجاب کے بڑھتے ہوئے رجحان
میں اضافہ کرنے والا ایک اور عنصر خلیج سے واپس آنے والے افراد تھے جب ان ممالک میں
ان کا استعمال لازمی تھا۔ جیسے جیسے ہندوستان میں مسلمانوں کے عدم تحفظ کے احساس میں
اضافہ ہوا، یہ رواج آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ فی الحال، بہت سے مسلم والدین اپنی بیٹیوں
کو کم عمری سے ہی حجاب/برقع پہننانا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے
برقع ایک طرح کا بنا بنایا معمول بن جاتا ہے۔ وہ اسے معاشرے کی مروجہ رائے سمجھ کر
اس پر کاربند ہو جاتی ہیں۔
یہ اب بہت سے لوگوں کے لیے
آزادی کا معاملہ بن چکا ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم پورے مناظر نامہ
پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آزادی کسی حد تک پروان چڑھائی گئی ہے۔ جب 5 سے 7 سال
کی بچیوں کو نقاب پہنایا جائے گا تو وہ اس کی عادی ہو جائیں گی۔ بعض علمائے اسلام کا
کہنا ہے کہ قرآن کے مطابق برقع پہننا مسلم لڑکیوں کے لیے بلوغت کے بعد فرض ہوتا ہے۔
اصغر علی انجینئر اور زینت شوکت علی جیسے لوگ بتاتے ہیں کہ قرآن میں برقع اور نقاب
کا ذکر نہیں ہے۔ صرف حجاب کا ذکر ہے (سات مرتبہ) لیکن اس کا استعمال پردہ کے لیے ہے،
سر اور گردن کو ڈھانپنے والے کپڑے کے لیے نہیں۔ حجاب کی قسمیں بہت سی دوسری قوموں،
عیسائی راہباؤں، یہودیوں اور دیگر معاشروں میں بھی رائج تھیں۔ ہندوستان کے اندر کسی
زمانے میں ’گھنگھٹ‘ (ساڑھی کا پردہ) بہت رائج تھا، لیکن اس کا رواج بھی کم ہوتا جا
رہا ہے۔
انتہاپسند
نظریہ
یقیناً، خواتین کی اس آزادی کی
ثقافتی بنیاد خواتین کے جسموں پر پدرسرانہ کنٹرول کا پس منظر ہے۔ روپ کنور ستی (شوہر
کی چتا میں کودنے والی عورت) کے بعد اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے، اس وقت کے بی جے پی
کے نائب صدر وجئے راجے سندھیا نے پارلیمنٹ تک مارچ کیا تھا، اور ان کا نعرہ تھا کہ
"ستی ہونا ہندو خواتین کا حق ہے"!
آج کے حالات میں، اس طرح کے
مسائل کو مزید بڑھانا مسلم لڑکیوں کی اچھی تعلیم حاصل کرنے کی کوششوں کو کمزور کر دے
گا۔ جہاں تک تعلیم کے ذریعے ان کو بااختیار بنانے کا تعلق ہے تو موجودہ نزاع انہیں
پیچھے کر دے گا۔ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کا احساس قوم مسلم کے ردعمل کو ہوا دے رہا ہے۔
اس پر عدالت کا فیصلہ اس عمل کو جھٹکا دے گا
جس کے تحت مسلم لڑکیاں تعلیم میں آگے آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہندو انتہاپسند پہلے
سے ہی بہت مضبوط ہیں، اور مسلم انتہاپسند ہندو انتہا پسندوں کو اکسانے اور مضبوط کرنے
میں مدد کر رہے ہیں۔ اور اس کا شکار مسلم لڑکیاں اور بڑے پیمانے پر قوم مسلم ہو گی۔
---
رام پنیانی آئی آئی ٹی بمبئی کے
سابق پروفیسر اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم، ممبئی کے چیئرمین ہیں۔
یہ ان کی ذاتی رائیں ہیں۔
---------------
ماخذ:In India's Hijab Row, Muslim Girls' Education Trapped Between Extremists Of Both Religions
English
Article: Hijab Row Is Now Taking A Toll On
Muslim Girls' Education
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism