نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
2012 میں اسرائیل نے فلسطین پر آٹھ روزہ حملہ کیا تھا جو مصر اور امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد بند ہوا۔ اب اسرائیل نے رمضان کے مہینے میں ایک بار پھر اسرائیل پر وحشیانہ ہوائی فوجی حملے شروع کردئیے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک سو سے زیادہ معصوم فلسطینیوں کی جان جا چکی ہے اور چھ سو سے زائد زخمی ہیں۔ حماس نے بھی جوابی حملوں میں اسرائیل پر راکٹ حملے کیے ہیں اور یہ تنازع ایک جنگ کی شکل لیتانظر آرہاہے۔ اسرائیل نے جس طرح سے شہری رہائشی علاقوں میں حملے کئے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اسے فلسطینی انسانی جانوں کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔اس نے الحاج نام کے ایک شخص پر رات کے دوبجے حملہ کیا جس میں ان کے کنبے کے آٹھ لوگ ہلاک ہوگئے ۔ صرف ان کا لڑکا یاسر الحاج بچ گیا کیونکہ اس وقت وہ گھر پر نہیں تھا۔ اسرائیل یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس نے اس مکان پر حملہ کیوں کیا جبکہ وہاں نہ کوئی جنگجو تھا اور نہ ہی حملے سے پہلے اس نے کوئی وارننگ دی۔
اسرائیل کی موجودہ جارحیت کا بہانہ تین اسرائیلی نوجوانوں کا اغوا ہے۔اس کے پیچھے سچائی کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم مگر تین نوجوانوں کے اغوا کی اجتماعی سزا پوری فلسطین قوم کو دینا کون سا انصاف ہے۔ دراصل اسرائیل کو فلسطینیوں کا خون بہانے میں مزہ آتاہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے غزہ پر حملہ شروع کردیتاہے۔
گذشتہ کئی روز سے اسرائیل نے فلسطین کی غزہ پٹی پر ہوائی حملے کئے ہیں جن کے نتیجے میں سو سے زیادہ معصوم فلسطینی شہری بشمول بچے ہلاک ہوئے ہیں اور چھ سوسے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔مارچ سے اسرائیل نے اس خطے میں اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری کر رکھی ہیں۔ پہلے اس نے شام پر حملے کئے جس کے لئے اس نے ایک سولہ سالہ بچے کے گولان پہاڑیوں پر بم یا مورٹار حملے میں فوت ہونے کو عذر بنایا۔ گولان پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967کی عرب ۔اسرائیل جنگ میں قبضہ کیاتھا۔ یہ علاقہ اسرائیل اور شام کی سرحد پر واقع ہے۔ لہذا، شام میں جاری شامی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کے دوران راکٹ وغیرہ اسرائیلی سرحد کے پار غیر ارادی طور پر آجاتے ہیں۔ لہٰذا، ایسے ہی کسی بم یا راکٹ کے گرنے سے ایک اسرائیلی عرب نوجوان ہلاک ہوگیا اور اس کا باپ اس میں زخمی ہوگیا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے شام کے فوجی ٹھکانوں پر حملے کئے۔
اسرائیل کے جاری حملوں میں غزہ پٹی میں آہوں اور کراہوں کا شور ہے۔ ہر مکیں کسی بھی ناگہانی حملے کے خوف سے لرزیدہ ہے۔ مکانات ملبوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔رمضان کے مبارک ماہ میں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی طرف سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ معصوم بچے ، عورتیں ، ضعیف افراد کوئی بھی اسرائیل کی سنگدلانہ کارروائیوں سے بچاہوا نہیں ہے۔
اس سارے سانحے کا سب سے غم آگیں پہلو یہ ہے کہ تمام عالم اسلام اسرائیلی بربریت پر خاموش ہے۔ ۷۵ اسلامی ملکوں پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن(او آئی سی) نے میٹنگ کرنے اور اسرائیل کی مذمت کرنے اور اقوام متحدہ سے اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کی اپیل کے سوائے اور کچھ نہیں کیاہے۔ متحدہ عرب امارات نے 25 ملین ڈالر کی امداد فلسطینیوں کو دے کر اخلاقی حمیت کا ثبوت دیا ہے مگر فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ میںسکیریٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل اور حمس کے درمیان جاری تصادم میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کیا ہے ۔امریکی صدر اوبامہ نے بھی دونوں طرف سے جنگ بندی کرانے کی کوشش شروع کردی ہے۔مگر اس کے لئے انہوں نے فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ پہلے اسرائیل پر راکٹ سے حملہ کرنا بند کردیں۔ادھر حماس نے کہا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل نے شروع کیا ہے مگر اسے روکنا اس کے ہاتھ میں نہیں ہے او ر وہ اسے سبق سکھا کر رہیں گے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نے بھی اشارہ دیاہے کہ وقت پڑا تو وہ زمینی حملہ بھی شروع کریںگے۔ اگر ایسا ہواتو مزید فلسطینی مارے جائیں گے اور تباہی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا۔
اوآئی سی اس سلسلے میں قابل ذکر کردارادا کرسکتی تھی مگر اسلامی ممالک کی سردمہری نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ مردہ دلی کی آخری حد ہے۔ او آئی سی میں ۷۵ ممالک ہیں جن میں ۶۵ ممالک اقوام متحدہ کے ممبر بھی ہیں۔ان اسلامی ممالک میں پاکستان جیسا نیوکلر ملک بھی ہے اور ایران جیسا طاقتور ملک بھی جو نیوکلیائی ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔سابق ایرانی صدر اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی دھمکی دیتے رہے مگر جب بھی عملی طور پر اسے جواب دینے کی نوبت آتی ہے تو وہ خاموش ہوجاتاہے۔
آجکل عراق میں نام نہاد اسلامی خلافت کے بڑے چرچے ہیں ۔ ان کے جہادی پورے عراق میں اسلامی خلافت قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ شام کی جنگ میں بھی اسلامی ملکوں کی دلچسپی دید نی ہے جہاں حکومت مخالف بغاوت کو شیعہ سنی جنگ کا رنگ دے کر اسلامی ممالک اس خانہ جنگی میں دامے درمے سخنے تعاون دینے کے لئے تیار ہیں ۔ ان ممالک کے شیعہ اور سنی علماءبھی اپنے فتاوی کے ذریعے سے اسے کفر اور اسلام کی جنگ قرار دینے میں پیچھے نہیں ہیں۔عراق اور شام میں لڑنے والے جنگجووں کے لئے جہادی حسیناوں کا انتظام کرنے کے لئے انہوں نے فتاوی تک جاری کردئیے۔ عراق میں بھی کامیابی کے پرچم لہرانے والے داعش کو مبینہ طور پر عرب ممالک نے رقم مہیا کی تو امریکہ نے تربیت دی ۔ مگر جب فلسطین کواسرائیل کے ظلم سے نجات دینے کا معاملہ آیا تو عرب اور اسلامی ملکوں پر مردنی چھاگئی ، ان کا سارا ذوق جہاد جس کے لئے وہ عراق اور شام کے نوجوانوں کو اکسارہے تھے سرد پڑگیا۔ ان کی قومی حمیت اور اسلامی غیرت مردہ ہوگئی اور انہوں نے معصوم اور نہتھے فلسطینیوں کو اسرائیلی ٹینکوں اور راکٹوں کا سامنا پتھروں سے کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔
دنیا کے یہ ۷۵ اسلامی ممالک مالی اور فوجی اعتبار سے اسرائیل سے کسی بھی طرح سے کم نہیں ہیں اور اگر یہ 75 ممالک اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو فلسطین کا معاملہ ایک دن میں حل ہوجائے مگر چونکہ یہ سارے ممالک امریکہ کے غلام ہیں اور کچھ مسلکی اختلافات نے بھی انہیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے میں مانع ہے اس لئے وہ فلسطین کے مسئلے پر متحد نہیں ہوسکتے۔داعش اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اسلحوں ، اسباب نقل و حمل اور تربیت کے لئے امریکہ کا احسان مند ہے اور اسرائیل امریکہ کا لے پالک ہے۔ لہذا، اسرائیل پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب ہے امریکہ پر ہاتھ ڈالنا۔اس لئے یہ امید کرنا کہ اسلامی ممالک فلسطین کے مسئلے پر متحد ہوکر اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کو اسرائیل کا ہاتھ روکنے پر مجبور کریں گے فضول ہے۔ فلسطین نہ امریکہ کے لئے کسی کام کا ہے اور نہ عربوں کا کوئی مفاد اس سے وابستہ ہے۔ عربوں اور مسلمانوں کا سارا مفاد عراق اور شام سے وابستہ ہے اس لئے ان کی تمام تر دلچسپیاں انہیں دو ملکوں میں اسلام کے تحفظ سے ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی بقا کی جنگ خود لڑنی ہے جبکہ ساری اسلامی دنیا کنارے پر کھڑی ہوکر فلسطینیوں کے ڈوبنے کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔مسلمانوں کی اسی بے غیرتی پر حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ نے ٹویٹر پر لکھا:
مسلمانو! تمہیں بتانا تھا، ہم پر بمباری ہورہی ہے، تمہارے آرام میں مخل ہونے پر معذرت۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/atrocities-palestinians-silence-57-islamic/d/98086