جہادیوں اور اسلام کے روایتی
علماء کے مابین نظریاتی تنازعات
اس اختتامی حصے میں پیش کئے
گئے اہم نکات:
1. حاکمیت کے تصور میں
روایتی اور جہادی نظریات کے مابین واضح تصادم
2. ’مسلم زمین کے بازیابی‘
کے تصور پر روایتی علماء اور جہادیوں کے مابین نظریاتی اختلاف
3. اپنے ملک سے غداری جہادیوں
کے نزدیک جائز اور روایتی علماء کے نزدیک ناجائز
4. جنگی حکمت عملی کے طور
پر خودکش بم دھماکوں کے تصور پر جہادیوں اور روایتی علماء اسلام کے مابین ایک اہم اختلاف
5. “دارالاسلام اور دارالحرب”
کے تصور پر جہادیوں اور روایتی علماء کے مابین اختلاف
6. اس بات کی وضاحت کہ
کس طرح جہادی "مشرکین اور کفار کے قتل" کو جائز قرار دیتے ہیں اور کس طرح
اسلام کی روایتی تشریحات موجودہ دنیا میں ان کے قتل کو ممنوع قرار دیتی ہیں۔
7. تکفیر کے روایتی انداز
کے بالکل برعکس جہادیوں کے پرتشدد تکفیری بیانیے کے پس پشت ایجنڈے کا انکشاف
8. قرآن کی آیت 9:5 پر
تفصیلی بحث اور آیت 9:5 سے متعلق جہادی بیانے کی تردید کے لیے تفسیر کے کلاسیکی فقہی
اصولوں کا مطالعہ
9. مسلمانوں اور غیرمسلموں
دونوں کو اسلامو فوب اور جہادی بیانیے سے یکساں طور پر محتاط رہنا چاہئے۔
…………….
خصوصی نمائندہ، نیو ایج اسلام
26 جولائی 2021
اسلاموفوب اور جہادی دہشت
گردوں کے مابین ہم آہنگی اس قدر واضح ہے کہ کسی انسان سے اس میں بھول چوک نہیں ہو
سکتی۔ دونوں کا ایک ہی مقصد ہے یعنی دونوں ہی مین اسٹریم مسلمانوں کو پرتشدد انتہا
پسندی کے راستے کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کسی پر امن شخص یا برادری کے مقابلے میں
کسی پرتشدد ذات یا برادری کو برباد کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو اسلاموفوب
اور جہادیوں دونوں ہی سے یکساں طور پر دور رہنا چاہیے۔ وہ دونوں ہی ہمارے دشمن ہیں۔
دونوں ہی اسلامی عقائد میں تشدد کے جوازوں کو تلاش کرتے ہیں۔ آٹھ حصوں پر مشتمل اس
سریز کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس طرح کے جواز کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے یہاں ہر حصے کے اہم نکات پیش کر دئے جاتے ہیں کہ اسلام
اور روایتی فقہ اسلامی کو جہادیت سے جوڑنے کا اسلاموفوب دعویٰ درست نہیں ہے۔ ایسے دعوے
محض شر پسند یا اسلامی فقہی قوانین سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔
حصہ 1 میں حاکمیت (خودمختاری)
کے تصور پر روایتی اور جہادی نظریات کے مابین واضح تصادم کو اجاگر کیا گیا۔ ہم نے یہ
دیکھا کہ اسلامی ریاست کے نام نہاد تربیتی کیمپ کی درسی کتاب ‘‘مقرر فی التوحید ’’میں
وہ ان تمام لوگوں کو مرتد قرار دیتے ہیں جو قانون خداوندی نافذ نہیں کرتے۔ ان کی تحریروں
میں خواہ وہ ‘‘دابق’’، ‘‘رومیہ’’ یا بالخصوص ہندوستان کے متعلق پروپیگنڈہ کیا گیا رسالہ
‘‘وائس آف ہند’’ ہو ان تمام میں وہ اپنے دعوے کو مستحکم کرنے لئے مسلسل مندرجہ ذیل
دو قرآنی آیات نقل کرتے ہیں کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے سوا کی پیروی کرتے
ہیں وہ کافر و مشرک اور بے دین ہیں۔ اس کے برعکس مذکورہ بالا آیات کی کلاسیکی اور
روایتی تشریح یہ ہے کہ ‘‘جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا
یعنی اس کی الوہیت، اس پر ایمان اور اس کی حقانیت سے انکار کرتا ہے وہ واقعی کافر ہے۔
جہاں تک وہ مسلمان جس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت حق ہے، وحی الٰہی اور احکام خداوندی
ہے لیکن بدلتے ہوئے حالات یا کسی مجبوری کے تحت اس پیغام کو نافذ کرنے میں ناکام ہے
تو وہ کافر نہیں ہے۔
حصہ 2 میں’مسلم زمین کی بازیابی‘
کے تصور پر روایتی علمائے اسلام اور جہادیوں کے مابین ایک اور نظریاتی تصادم کو واضح
کیا گیا ہے۔ جہادیوں کے مطابق سابقہ مسلم مفتوحہ علاقوں کی بازیافت کرنا اور اسے اسلامی
سر زمین کے حوالے کرنا مسلمانوں پر فرض ہے، اور کوئی بھی معاہدہ جس سے مسلمانوں کی
مٹھی بھر زمین بھی کفار کے قبضہ میں چلی جائے پوری طرح باطل ہے اور اسے کالعدم قرار
دیا جائے گا۔ جہادی نظریے کے برعکس، روایتی اور کلاسیکی اسلامی فقہا نے دوسروں کی خودمختاری
کو ماننے اور اپنی خودمختاری کو دوسروں سے منوانے کے لئے معاہدوں کو جائز مانا ہے۔
اسلام کی روایتی تعبیر کے مطابق شریعت میں غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اجازت
دی گئی ہے جیسا کہ قرآن پاک کی آیت 9:7 اور سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے جنہوں نے کئی معاہدے
کئے، مثال کے طور پر قبیلہ اوس اور خزرج کے مابین صلح کا معاہدہ کیا تھا، جس کو مدینہ
کے یہودیوں نے بھی تسلیم کیا اور اس طرح میثاق مدینہ وجود میں آیا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ
کا معاملہ بھی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے بیچ ایک عارضی امن قائم ہوا
تھا۔ ایک بار جب معاہدہ ہوجائے تو اس کے بعد تمام کلاسیکی مسلم فقہاء اس کے شرائط و
ضوابط کا پاس و لحاظ رکھنے کا سختی کے ساتھ حکم دیتے ہیں کیوں کہ قرآن مجید "عہد
قائم کرنے کے بعد اسے نہ توڑنے" کا حکم دیتا ہے۔
حصہ 3 میں کچھ ایسے جہادی
نظریات کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جو ’اپنے ہی ملک کے خلاف غداری‘ کو ہوا دیتے ہیں۔ جہادی
دلائل کے جواب میں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ جہادی واضح طور پر اسلام کی خلاف
ورزی کر رہے ہیں، قرآن کی چند آیات، احادیث اور ان کی روایتی تشریحات پیش کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر اللہ تعالٰی کا فرمان ہے، "اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو
تم سے دین میں نہ لڑے (دین کے معاملے میں) اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن )سے نہ
نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ
کو محبوب ہیں، (60: 8)۔ جمہور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت 60:8 محکم ہے
منسوخ نہیں۔ اس آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین اور کافروں سمیت ایسے
تمام غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے جو دین کے معاملات میں مسلمانوں سے نہیں
لڑتے اور پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہتے ہیں۔
حصہ 4 میں جنگی حکمت عملی
کے طور پر خودکش بم دھماکوں کے تصور پر جہادیوں اور روایتی علمائے اسلام کے مابین ایک
اہم اختلاف کو اجاگر کیا گیا ہے۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکو حرام سمیت ہم عصر
جہادی خود کش بم دھماکوں، استشہاد، یا ’عملیات استشہادیہ‘ کو جنگ اور بے دریغ تشدد
کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بیانیے قرآنی آیات، احادیث اور کلاسیکی اسلام کی تعبیر
و تشریح میں بے ایمانی اور خیانت پر مبنی ہیں۔ القاعدہ کی سعودی شاخ کے با اثر رہنما
يوسف العييري (۱۹۷۳-۲۰۰۳) نے
"عملیات استشہادیہ کی شرعی حیثیت" کے عنوان سےایک پمفلٹ جاری کیا۔ العييري
اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خود کش حملوں کے ذریعے "شہادت کی کاروائیاں"،
نہ صرف یہ کہ جائز ہیں بلکہ اعلی فوجی قوتوں کا ضروری جواب ہیں اور اس سے اسلام اور
مسلمانوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ جہادیوں کے برعکس، قرآنی آیات اور احادیث کی روایتی
تشریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کے دوران بھی اور جنگی حکمت عملی کے طور پر بھی
ہر حالت میں خود کش حملے حرام ہیں۔ قرآنی آیات ["خود کو ہلاک نہ کرو"
(4:29)… "اور اپنے ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی
والے اللہ کے محبوب ہیں"(2:195)] اور مضمون کے چوتھے حصے میں پیش کی گئی متعدد
احادیث خود کش حملوں کے جہادی نظریہ کی تردید کرتی ہیں، مثال کے طور پر ایک روایت یہ
ملتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، "جو خودکشی کرے گا
وہ جہنم میں جائے گا اور اس میں گرتا ہی رہے گا اور ہمیشہ اسی میں رہے گا" (صحیح
بخاری)
حصہ 5 میں "دارالاسلام
اور دارالحرب کے تصور" پر جہادیوں اور روایتی علماء کے درمیان اختلافات کا واضح
ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ جہادی نظریہ سازوں کے مطابق، دارالاسلام اس علاقے کو کہیں گے
جو اسلامی ریاست کے زیر اقتدار ہو، یعنی جہاں اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہو اور جہاں
ملک کے قوانین اسلام کے مطابق نافذ کیے جائیں اور دارالحرب وہ علاقہ ہے جو اسلامی ریاست
کے زیر اقتدار نہ ہو۔ ایک بااثر جہادی نظریہ ساز مقدسی کے مطابق فی الحال کوئی بھی
ریاست دارالاسلام کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہے۔ یہ جہادی بیانیہ دارالاسلام اور
دارالحرب کے روایتی نظریہ کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام کے روایتی علماء کا ماننا ہے کہ
دارالاسلام ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہر اس سرزمین پرمنطبق کی جا سکتی ہے جہاں بنیادی
مذہبی حقوق دیے جاتے ہوں، خواہ اس سرزمین کا ریاستی مذہب اسلام ہو یا نہ ہو اور دارالحرب
ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے مراد وہ سر زمین ہے جہاں عقیدہ اور مذہبی معمولات جیسے بنیادی
مذہبی حقوق سلب کر لئے گئے ہوں۔ روایتی اور کلاسیکی کتابوں کے مطابق جس ملک میں روزہ
رکھنے، نماز پڑھنے، مسجد بنانے، اذان دینے جیسی عبادات کی آزادی اور اسلامی لباس پہننے
اور مسلم شادی کرنے جیسے حقوق حاصل ہوں اس ملک کو دارالحرب قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
بعض معاصر فقہاء کے مطابق یہ ممالک دارالامن ہیں اور کچھ کے نزدیک دارالاسلام یعنی
جہاں اسلام پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔
حصہ 6 یہ سمجھنے کے لئے کافی
اہم ہے کہ متعدد قرآنی آیات اور خاص طور پر آیت 5:9 جسے آیۃ السیف بھی کہا جاتا ہے،
کا حوالہ پیش کر کے کس طرح جہادی "مشرکین اور کفار کے قتل" کا جواز پیش کرتے
ہیں۔ اس طرح کا جہادی بیانیہ قرآن اور احادیث کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن کی آیت
9:5 میں "مشرکین کو قتل کرنے" کا حکم فقہ کے روایتی اصولوں کے مطابق خاص
طور پر صرف مشرکین مکہ کے لئے حالت جنگ میں تھا جسے امن کی حالت میں نافذ نہیں ہونا
تھا۔ آیت 9:5 پر تبصرہ کرتے ہوئے قابل ذکر کلاسیکی علمائے اسلام مثلاً امام بیضاوی،
علامہ آلوسی، امام سیوطی، امام ابوبکر الجاساس اور دیگر بے شمار علماء کی رائے یہ
ہے کہ کفار اور مشرکین کو قتل کرنے کا حکم مشرکین عرب کے لئے خاص تھا جو ناکثین (امن
معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے) تھے اور اس کا اطلاق کسی اور پر نہیں ہوتا ہے۔
حصہ 7 میں تکفیر کے روایتی انداز
کے بالکل برعکس جہادیوں کے پرتشدد تکفیری بیانیے کے پس پشت ایجنڈے کا انکشاف کیا گیا۔
جہادیوں کے نزدیک ہر گناہ کبیرہ کا مرتکب کافرہے نیز علماء بھی کافر ہیں کیوں کہ وہ
کبیرہ گناہوں کے مرتکب اور بے عمل حکمرانوں کو کافر قرار نہیں دیتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ ان کافروں کے خلاف جہاد کرنا اور ان کا قتل کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ کسی فرد مسلم کی
تکفیر مرکزی دھارے کے کلاسیکی اور روایتی علماء کا بھی عمل رہا ہے۔ تاہم، جہادیوں کے
برعکس کلاسیکی علمائے اسلام نے تکفیر کے معاملے میں انتہائی احتیاط برتی ہیں ۔ وہ تکفیر
اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی فرد عوامی سطح پر ضروریات دین کا انکار کرتا ہے، بصورت دیگر
ان کا بھی عمومی فیصلہ یہی ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسلامی قانون
(فقہ) کے معیاری اور کلاسیکی علماء کا عمومی نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی مومن کے تکفیر
کرنے کی ممانعت ہے جب تک کہ وہ خود مسلمان رہنے کے لئے کسی بنیادی عقائد کو مسترد نہیں
کرتا ہے۔
حصہ 8 میں قرآن کی آیت
9:5 پر تفصیلی بحث اور آیت 9:5 سے متعلق جہادی بیانے کی تردید کے لیے تفسیر کے کلاسیکی
فقہی اصولوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں مشرکین مکہ اور آج کے مشرکین کے عقائد
اور اعمال کے درمیان فرق نمایاں کیا گیا ہے، آیت 9:5 کا شان نزول اور اس میں مذکور
لفظ مشرکین کا لسانیاتی اور اصطلاحی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور ظاہر، نص، اور دلالت
سیاق الکلام کے اصولوں کو بروئے کار لایا گیا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ آیت
ان مذہبی ایذا رسانوں اور مکہ کے ناکثین کے لئے مخصوص تھی جنہوں نے امن معاہدے کی خلاف
ورزی کی تھی۔ اس حصے میں یہ ثابت کرنے کے لئے فقہ کے کلاسیکی تعبیراتی اصولوں کو اپنایا
گیا ہے کہ جہادوں کی جانب سے موجودہ دور کے مشرکین کے قتل کے جواز میں قرآنی آیت
9:5 کا استعمال قرآن کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کی روایتی تشریح کو مسترد کرنا ہے۔
اس سلسلہ وار تحریر کا مقصد
سادہ لوح مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں اس انتہائی اہم شعور کو بیدار کرنا
ہے کہ انہیں اسلاموفوب اور جہادی دونوں کے بیانیوں سے یکساں طور پر محتاط رہنا چاہئے۔
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-that-jihadists-part-1/d/124210
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claim-part-4/d/124949
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-part-5/d/124954
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-jihadists-part-6/d/125000
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-jihadists-part-7/d/125048
https://www.newageislam.com/urdu-section/refuting-islamophobic-claims-jihadists-part-8/d/125076
English Article: Refuting Islamophobic Claims That Jihadists Represent Traditional and Mainstream Interpretations of Islam: Concluding Part
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism