نیلم سیٹھی
5ستمبر، 2011
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
ابتدائی انسانوں نے سب سے پہلےفطرتی قوتوں کی پرستش کی اس لئے کہ وہ مکمل طور عالم طبعیات پر منحصر تھے ۔ ہم نے ان ابتدائی آغاز سے انتہائی شہری، غیر فطری اور مادی طرز زندگی کو تشکیل دی ہے، لیکن ہم اب بھی عبادت کی اسی شکل کا سہارا لیتے ہیں جو اکثر ہمیں خدا کی خارجی تشکیل کی طرف لے جاتا ہے۔
خدا کو صرف خارجی صورت میں تلاش کرنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی روحانیت سے جدا کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تمام کائنات سے بھی ۔ یہ ہمیں خود کو ذات باری سےالگ ہوکر دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
صحیح معنوں میں الہٰیت کو افشاں کرنے کے لئے ہمیں خارجی نقطہ نظر کے بجائے ایک باطنی نقطہ نظر اپنانا ہوگا ۔ ہمیں مراقبہ، اندرونی غور فکر اور عبادت کے ذریعے ایک اندرونی، روحانی طریقے سے عبادت کرنے کے لئے ایک بیرونی، مذہبی نقطہ نظر اختیار کرنا ہوگا۔ اور عظیم سنتوں نے بھی یہ سکھایا ہے کہ اندرونی تبدیلی صرف اس صورت میں واقع ہو سکتی ہے جب ہم باطن پر توجہ دیں ۔
مادیت اور روحانیت
ایک مسلمان صوفی نے اس کا خوبصورتی کے ساتھ اظہار کیا ہے: تو خود ہی تو خدا ہے – ‘‘ خود ذات ہی وہ خدا ہے جسے ہم تلاش کرتے ہیں’’ ۔ جب تک ہم اپنی توجہ داخلی معاملات کی طرف کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اس وقت تک ہم اپنی خارجی زندگی کے ساتھ ایک متوازن طریقے سے پیش آنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ مراقبے کے سہجا مارگ نظام کے دوسرے گرو بابو نے کہا "جس طرح ایک پرندے کو پرواز کے لئے دو پنکھوں کی ضرورت ہے اسی طرح ایک انسان کو ایک فطری اور ہم آہنگ زندگی گزارنے کے لئے روحانی اور مادی وجود کے دو پنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے "۔
اتحاد اور توحید
جب مذاہب کو تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اور دہشت گردی کی کالی چھایا خوف اور نفرت کو پھیلانے کا خطرہ ہو تو حقیقی روحانیت میں پناہ حاصل کرنا اہم ہوتا ہے جو کہ عظیم تر تفہیم کے ذریعے متحد کرنے کی طرف مائل ہے ۔ یہ تمام مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کے لئے آفاقی اور واضح ہے۔ یہ وحدانیت اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ روحانیت کی بنیاد مراقبے کا روزانہ کا معمول اور دھیان یا سادھنا بھی ہے ۔
نئے زمانے کے گرو ایکھارت تول ایک ایسی نئی زمین کی تخلیق کی سمت میں آگے بڑھنے کی بات کرتے ہیں کہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ انسان کے طور پر منسلک ہوں ، ذات، نسل، رنگ، قومیت یا مذہب کے تناظر میں نہیں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، ہم خود کے باطن کے ساتھ مربوط ہونے کے لئے اپنی توجہ باطن کی جانب مرکوز کر سکتے ہیں جہاں ہم یہ دریافت کریں گے کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ اس کے بعد، شاید، ہم ہمارے دلوں میں الہی چنگاری بھڑکا پائیں گے ۔
روحانیت کا پورا نظریہ اسے بحال کرنا ہے جو ہمارے اندر سو رہا ہے، اور وہ خود اپنی ذات ہے۔ سادہ معمول اتنی آسانی سے ہماری مصروف طرز زندگی میں منضم ہے، توازن پیدا کرنا، خوشی اور روحانی عروج ۔ ہمیں "یہاں اور اب،" اس زندگی میں الہیات پر ایک روحانی نقطہ نظر اپنانا چاہئے۔
بابوجی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ‘‘خدا کو کسی خاص مذہب یا فرقے کی تہہ میں نہیں تلاش کیا جا سکتا وہ کسی خاص قسم میں محدود نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحیفے میں اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اسے دل کے پوشدہ ترین گوشہ میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے’’۔
تیز ترین اور انتہائی یقینی
تمام روحانی طریقوں نے فکر اور مراقبہ کو بیان کیا ہے۔ یہ راستے بدھ، مہاویر، کبیر، عیسی علیہ السلام اور نانک کے اندر خدا کی تلاش میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔ اور صوفی سنتوں نے باطن میں الہی اصول کو افشاں کرنے کے لئے مراقبہ پر عمل کیا ۔ یہ خود کی معرفت کا تیز ترین اور انتہائی یقینی طریقہ ہے جس میں کم سے کم نقصان ہے۔ ایک آسودہ اور سر سبز و شاداب ذہن روز مرہ کے مسائل پر زیادہ توجہ دے سکتا ہے ۔ ہم نہ صرف بہتر طور پر نمٹنا سیکھ سکتے ہیں، بلکہ اس کے لامحدود فضل و کرم کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں ۔
ماخذ: The Times of India, New Delhi
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/spiritualism-deep-inside-you/d/5574
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/spiritualism-deep-inside-/d/13045