ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
8 جون 2025
تقابل ادیان پر "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت " کے نام سے ایک شاہکار تصنیف پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی ہے ۔ اس کتاب کو ہندوستان کے معروف علمی،فکری اور تحقیقی ادارہ دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی نے 2019 میں شائع کیا ہے۔ کتاب کے محتویات میں ایک مقدمہ ،پیش لفظ اور دس ابواب ہیں ۔
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی کتاب "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت " کا مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا ہر باب نہایت جامع اور علمی و تحقیقی نکات سے مملو ہے۔
زبان سادہ اور سلیس ہے ، گنجلک اور پیچیدہ عبارتوں کے استعمال سے کلی طور پر اجتناب کیا گیا ہے۔ مصنف کی کوشش یہ رہی کہ اس کتاب کو بڑی آ سانی سے اردو دان طبقہ سامی اور غیر سامی ادیان کے متعلق خاصی شد بد پیدا کرسکتا ہے۔
سبب تالیف
صاحب کتاب پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی
کتاب کے پیش لفظ میں سبب تالیف پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔
ایک عرصے سے مجھے یہ خیال تھا کہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی جو تحریک قرآن سے مسلمانوں کو ملی اور رسول پاک نے جس طرح دوسرے مذاہب کے علماء سے مکالمہ کیا ،سلف صالحین نے جس محنت سے دوسرےمذاہب کا مطالعہ کیا اور ان کے پیشواؤں سے مکالمہ اور مناظرہ کیا ،نیز دوسرے مذاہب پر جو تحقیقی کتابیں لکھیں ان کا تعارف اور تجزیہ کیا جائے۔۔ عصر حاضر میں اس مطالعہ کی اہمیت یوں پڑھ گئی ہےکہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں بھی مذاہب کے مطالعہ اور مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم کے شعبے کھل گئے ہیں اور مسلم دنیا میں بھی اس کے اثرات بدیکھنے کو ملتے ہیں ۔ حالانکہ کہ مغربی ممالک نے مذاہب کا مطالعہ انیسویں صدی سے کرنا شروع کیا ہے۔ اور مکالمہ کی ابتدا بھی سیریا کے شہر "حمدون" سے ہوئی ہے جس میں عیسائیوں کے مختلف اور متحارب فرقوں میں ہم آ ہنگی پیدا کرنے کے لئے مکالمہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ پھر اسے دوسرے مذاہب تک پھیلا یا گیا ۔ جبکہ مسلمانوں نے بہت پہلے بین المذاہب مطالعہ اور مکالمہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ مسلم بادشاہوں نے اپنے یہاں دوسرے ادیان و مذاہب کے رہنماؤں کو آ نے کی دعوت دی اور اپنے مذہب کا تعارف کرانے کی پیش کش کی۔ اس سلسلہ میں عباسی خلفاء اور ہندوستان کے مغل حکمراں بہت مشہور ہیں۔ لہذا مطالعہ مذاہب مسلمانوں کی قدیم روایت ہے،مغرب کی ایجاد نہیں ۔ البتہ مغرب نے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق ضرور یاد دلایا ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر یہ کتاب لکھی گئی ہے"
مذکورہ اقتباس کے تناظر میں یہ بڑے وثوق و اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ جو مکالمہ کو مغرب کی ایجاد قرار دیتے ہیں ان کا نظریہ درست نہیں ہے ۔بلکہ ہمارے اکابر نے اس باب میں بیش بہا تحقیقی و علمی سرمایہ چھوڑا ہے ۔ مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم مفکرین نے تقابل ادیان پر جو کام کیا ہے وہ ہر دور اور ہر زمانہ میں جلی حروف سے ثبت کیا جائے گا۔
کتاب پر مفکرین کی آ راء
پروفیسر اشتیاق ظلی نے موجودہ دور میں فاضل مصنف کی کتاب کی افادیت و اہمیت کو انتہائی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے ،اسی کے ساتھ اس مختصر مگر اہم مقدمہ میں تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کی ہندوستان میں تاریخ اور اس سلسلے میں مسلم اسکالر س کی کاوشوں کا بھی مختصراً تعارف کرایا ہے۔ ادھر تکثیری سماج میں بقائے باہم اور پر امن رہنے کے اسلوب و آ داب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ نیز انہوں نے بتایا ہے کہ اس وقت ہم ایک مخلوط اور رنگا رنگی ،تعدد پسند معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لہذا امت مسلمہ کو ایسا جتن اور کردار ادا کرنا ہے کہ جس سے کسی بھی نظریہ اور فکر و خیال کا حامل اپنی زبان پر حرف شکایت نہ لاسکے ، مطالعہ ادیان اور تقابل ادیان کی روایت کو فروغ دینے سے جہاں علمی، و فکری، جہات روشن و تابناک ہوتی ہیں ،وہیں تکثیری سماج میں باہم مل جل کر گزر بسر کرنے کی بھی جڑیں مستحکم ہوتی ہیں ۔ چنانچہ پروفیسر اشتیاق ظلی، رقم طراز ہیں۔ "آ ج کی دنیا میں جو ایک گلوبل ولیج کی صورت اختیار کر چکی ہے ،جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار ،تکثیری معاشروں میں زندگی گزار رہے ہیں، باہمی مفاہمت اور رواداری کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کے بارے میں صحیح اور قابل اعتماد معلومات حاصل کی جائیں۔ اس کے بغیر نہ تو پر امن بقائے باہم کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہےاور نہ ہی کسی بھی نوعیت کے مکالمہ کے لیے کوئی گنجائش۔ "یعنی معاشرے میں امن وامان کے قیام اور ظلم و جور کے خاتمہ کے لئے لازمی ہے کہ تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کی روایت کو فروغ دیا جائے۔ اسی طرح آ گے لکھتے ہیں "مطالعہ مذاہب کے باب میں مسلمانوں کی اس نہایت قدیم اور تابناک روایت سے آ ج بالعموم خود مسلمان بھی زیادہ واقف نہیں ہیں ۔ غیر مسلم علمی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے مطالعہ میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ چنانچہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مسلمان علماء نے جو عظیم الشان لٹریچر یاد گار چھوڑا ہے اس سے واقفیت کے وسائل فراہم کئے جائیں ۔ ہم پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بڑی عرق ریزی اور دقت نظر سے اس خلا کو پر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ دوسرے مذاہب کے مطالعہ کے موضوع پر مسلمان نے جو غیر معمولی نوعیت کا کام کیا ہے وہ پوری طرح سامنے آ جائے گا بلکہ مسلمانوں کے درمیان اس میدان میں مزید کام کرنے کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگا۔ شائقین کی خدمت میں ہم اس کتاب کو پیش کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
پروفیسر اشتیاق ظلی کے اس اقتباس سے کتاب کی عظمت و اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب کتاب کے بعض ضروری مباحث پر گفتگو کیجا ہے گی۔
قرآن و سنت میں مطالعہ ادیان کا ثبوت
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی تحریر کرتے ہیں ، " اس دنیا میں عقیدہ وتہذیب کی رنگا رنگی،پائی جاتی ہے، فکر و خیال ، کا تنوع بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہاں عقیدہ و عمل اور فکر و نظر کا اختلاف ہمیشہ سے ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے کسی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ دنیا کے زندہ مذاہب میں اسلام آ خری مذہب ہے جو تہذیب و عقیدہ کے اس اختلاف کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے۔ بلکہ منشائے الٰہی سمجھتا ہے۔ "اپنے اس مثبت اور تعمیری نظریہ کی تائید میں مصنف نے قرآن حکیم کی درج ذیل آ یات سے استدلال کیا ہے۔ سوری ہود آ یت 118,سوری انعام آ یت۔108، سوری یونس آ یت 99,سورہ النحل آیت 125,سورہ آ ل عمران ایت، 64,سورہ العنکبوت، ایت46, سورہ بقرہ آ یت 258,
مذکورہ تمام آ یات اس بات پر شاہد ہیں کہ دوسرے مذاہب کا نہ صرف احترام و تقدس کیا جائے بلکہ ان کے عقیدہ و مذہب اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے ، اسلام نے جو تہذیب امت مسلمہ کو سکھائی ہے اور جن ھدایات و خطوط پر رہنمائی کی ان میں دیگر ادیان کی عظمت اور ان کے وجود و بقا کو تسلیم کرنا دین اسلام کی بنیادی تعلمیات میں سے ہیں۔ اسی طرح سیرت رسول اور سنت رسول سے مطالعہ ادیان کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں۔
صاحب کتاب نے مطالعہ ادیان کے ثبوت میں قرآن کریم کی متعدد آ یات سے استدلال کیا ہے۔ یہ بات بالائی سطروں میں آ چکی ہے کہ تقابل ادیان یا مطالعہ ادیان کے ثبوت وشواہد عہد رسالت میں بھی جا بجا مل تے ہیں ۔ چنانچہ فاضل مصنف کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔ "محمد صلی وسلم نے جب مکے کے مشرکوں کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کی تو مشرکوں نے محمد صلی وسلم کی دعوت کی مخالفت کی ،ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ستایا ،مارا پیٹا،قید کیا اور ہر طرح کی اذیت پہنچائی۔ تب محمد صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو افریقہ کے ملک حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔وہاں انصاف پسند بادشاہ نجاشی حکومت کرتا تھا۔ بادشاہ اور وہاں کے باشندے عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے اس لیے ہجرت کرنے سے پہلے قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کے نام سے پوری ایک سورہ مریم نازل ہوئی۔اس میں حضرت عیسی اور ان کی والدہ اور ان کے پیغام کا حقیقی تعارف کرایا گیا تھا ۔ تاکہ مسلمانوں کو اس مذہب کی حقیقی تعلیمات سے واقفیت ہو جائے، جس کے ماننے والوں کے درمیان ان کو جا کر رہنا ہے۔ اسی طرح محمد صلی وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو وہاں یہودیوں کے متعلق قبیلے آباد تھے جیسے بنوقریظہ ، بنونضیر بنو قینقاع وغیرہ یہ یہودی قبیلہ توریت کے ماننے والے اور حضرت موسی کا اتباع کرنے والے تھے آپ نے ان کے مذہب کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے معاہدہ کیا۔ ان کو انصاف فراہم کیا اور پرامن بقائے باہمی کی شروعات کی تاریخ میں یہ معاہدہ میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے"اس اقتباس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عہد رسالت میں مکالمہ اور تقابل ادیان کی درخشاں روایات ملتی ہیں ، جو اس بات پر شاہد ہیں ہ کہ معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے دیگر مذاہب ادیان کا مطالعہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں بقائے باہم کی خوشگوار راہ ہموار ہو سکے۔ اس کے علاؤہ بھی مصنف نے کئی اہم ایسے مکالموں کا تذکرہ کیا ہے جن میں بذات خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی ہے
تکثیری سماج میں مطالعہ ادیان کی ضرورت
"ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد صحابہ کرام اور تابعین کے عہد میں میں شروع ہوئی. جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقوں پر ان کی بستیاں آباد ہوئیں۔۔یہ لوگ سادہ مزاج تاجر تھے اور دعوتی جذبہ رکھتے تھے۔ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی آ بادی وسط ایشیا بالخصوص ترکی و ایران کے علماء اور مشائخ بھی آ ئے۔ یہاں انہوں نے اپنی حکومت بھی قائم کی اور اپنے مذہب و ثقافت کی اشاعت بھی کی۔ ہندوستان میں جو مذاہب پہلے سے موجود تھے ان میں بودھ مت اور ہندو مت خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مگر یہ دونوں مذاہب نسلی مذاہب تھے، دعوتی نہیں تھے۔ بالخصوص ہندو مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب سے مکالمے و مباحثے سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا مذہب برہمنوں میں محصور تھا۔ مذہب کے عقائد و رسوم پر ان کی اجارہ داری تھی۔ہندوستانی سماج کے دیگر طبقات کو مذہبی اصول و احکام سے واقف کرانے کے یہ لوگ روادار نہ تھے۔ دوسری قوموں کو اپنی طرف بلانا ان سے مکالمہ کرنا ان کے نزدیک درست نہ تھا۔ مزید یہ کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو وہ ناپاک تصور کرتے تھے اور ان سے دور رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ اس لئے ابتدائی مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان میں خاص طور پر عہد سلطنت میں بین المذاہب مکالمہ کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ "اس کے بعد ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں تقابل ادیان کی کافی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔ حتی کہ مغل حکمراں با ضابطہ مکالموں کی محفلوں کو آ راستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سر پرستی بھی فرماتے تھے۔ جہاگیر، اکبر وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے ۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آ ج ایک طبقہ مغل بادشاہوں کی مذہبی رواداری اور وسیع المشربی پر سوال کھڑا کرتا ہے ۔ جو یقینا تعصب و جانبداری پر مبنی ہے۔ اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی میں مغل حکمرانوں کی جو بے لوث خدمات ہیں ان سے ملک میں کثرت میں وحدت کا تصور مضبوط ہوا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے ادیان و مذاہب کے جہاں بہت سارے جدید گوشوں کا انکشاف ہوگا ،وہیں ہندوستان کے تکثیری معاشرہ میں امن و امان اور روداری کی پرکیف فضا بھی ہموار ہوگی۔ تکثیری سماج کی اصل روح بھی تحمل و برداشت اور سماجی ہم آہنگی ہے ،جب تک سماج میں نوع انسانیت صلح و آ شتی اور حلم و بردباری کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتی ہے اس وقت تک کوئی بھی تکثیری یا مخلوط سماج فلاح وسعادت کی منازل طے نہیں کرسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس کتاب سے اس بات کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ جامعات میں تقابل ادیان پر کام کرنے والے محققین کے پاس اردو زبان میں، ابھی تک کوئی بھی اس نوعیت کا سرمایہ نہیں تھا ۔ اس لئے یہ کتاب محققین کے لئے نعمت غیر مترقبہ کے مترادف ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی اس کتاب سے صاف ہوگئی کہ جو لوگ ابھی تک مسلم کمیونٹی پر یہ الزام عائد کرتے تھے کہ مسلم مفکرین نے دیگر مذاہب کی بابت کوئی خاص اور وقیع کام نہیں کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت و ترویج نے اس اعتراض کو بھی یکسر معدوم کردیا۔ لہذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے لٹریچر کو پڑھ کر اور ترویج اشاعت کرکے معاشرہ میں سکون و چین اور عدل و انصاف کے قیام کے تئیں سعی کیجانی چاہئے ۔ تاکہ تکثیری سماج کی روحانیت باقی رہے اور ایسے معاشروں میں سکونت پذیر عوام مسرت وشادمانی اور امن ویکجہتی کے ساتھ گزر بسر کرسکے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل دیگر مذاہب و ادیان سے وابستگی پیدا کرے کیونکہ ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ لاعلمی اور عدم واقفیت کی بناء پر دیگر مذاہب کے تعلق سے بہت ساری غلط فہمی پالے ہوئے ہے۔ یہ غلط فہمیاں اسی وقت دور ہوسکتی ہیں ، جب نوجوان نسل دیگر مذاہب کو جاننے کی کامیاب سعی کرے۔ چنانچہ اس کتاب کا تابناک پہلو بھی اس بات کی تحریک دیتا ہے کہ نئی نسل اگرمعاشرے میں پر امن و پر سکون ماحول کی خواستگار ہے تو یقینا انہیں دیگر مذاہب و ادیان کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ ،تحقیق و تفتیش کا بھی عمل ، توسع اور تعصب و تنگ نظری کی عینک ہٹا کر انجام دینا ہوگا۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی بھی نوجوان نسل پاس و لحاظ رکھے کہ کسی بھی دین یا مذہب کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانے سے قبل مناسب ہے کہ اس کے بارے میں مستند و معتبر مآخذ کے ذریعے اپنی معلومات کو درست کرلیا جائے ۔ جب نوجوان نسل تحقیقی مزاج بن جائے گا تو یقینا کسی بھی تکثیری سماج کا امن و سکون غارت نہیں ہوگا۔ نیز محبت وانسیت ،تحمل وبرداشت اور بقائے باہم کی بوسیدہ ہوتی تہذیب کو نئے سرے سے تازگی وجلا حاصل ہوگی۔ آ ج کے معاشرے کی بنیادی ضرورت بھی یہی ہے کہ اپنے اپنے اعتقاد و دین پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی پر کیف فضا کے فروغ کے تئیں کاوش کی جائے ۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/necessity-comparative-religions-pluralistic-society/d/135806
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism