نازیہ جسیم
27 مئی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
'اسلام نے میرے ساتھ ظالمانہ
سلوک کیا ، لیکن اب میں آزاد ہوں، آئو جشن منائیں '، میڈیا عام طور پر مذہب چھوڑنے کا انتخاب کرنے والی
خواتین کی اس طرح کی کہانیوں پر لار ٹپکاتی ہے اور انہیں لپکتی ہے۔ اسی نے جمانا حسین رحیم کے 22 اپریل ، 2012 کے مضمون "پردہ میں ہم آزاد روح ہیں!'' کو اوپن پیج مضمون بناکر حیرت میں ڈال دیااور عورتوں کی آزادی پر تسلیمہ نسرین کے خیالات اور اس کی تعریف پوری دنیا میں میڈیا کی توجہہ حاصل کرتی ہے ، لیکن یہ شاذ و نادر
ہی ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کی عورتوں کی آزادی پر متضاد خیالات کو ظاہر کرنے
کا موقع دیا جاتا ہے۔ تاہم، جبکہ جمانا کا
مضمون حجاب (پردہ) والی خواتین پر لیبل لگانے کے خلاف بولتا ہے۔ یہ مضمون اس
بات کی وضاحت نہیں کرتا ہے کہ کیوں بہت سی مسلم خواتین حجاب کے بارے میں بہت جذباتی
محسوس کرتی ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ عورت کے طور
پر ، جو
بیس سال سے زیادہ کی عمر والی ہو ، جو اپنے مذہبی اعتقاد کو حجاب کے ذریعہ
عمل کرنے کو منتخب کرتی ہو، میں حقوق
نسواں اور وہ لوگ جو میری پسند کے وجوہات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں،
ان کی دشمنی اور بے رحمی کا نشانہ رہی ہوں۔ میں اذیت رسائی اور مسلم مخالف بد کلامیوں کو تنگ نظری اور
تعصب منسوب کرسکتی ہوں اور پڑھے لکھے اور نام نہاد روشن خیال لوگوں کے مفروضہ
کہ ہم تمام مظلوم لڑکیاں ہیں، جن کی طرز زندگی ، ان کی زندگی میں شامل مردوں کے اشارے پر ہوتی ہے نہ صرف مایوس
کن ہے بلکہ ذلیل کرنے والا ہے۔
حجاب، صرف ایک مذہبی فریضہ
ہے۔ لوگوں کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے آپ میں یہ آزادی کی علامت ہے۔ یہ خواتین کو
آزادی دیتا ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو صرف وہ ہی حصہ دکھائیں جسے وہ دکھانا چاہتی ہیں۔
جی ہاں،شلوار، قمیض اور کرتی 'باحیا' لباس
کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن اگر مرد خواتین کو مادّی شکل میں پیش کرنا چاہتے ہیں تو حجاب ان کے لئے ایسا کرنا مشکل کر دیتا ہے۔ یہاں
تک کہ میں تو اسے حتمی طور پر حقوق نسواں کی
علمبردار بیان کروں گی۔ بااختیار بنانے کی
ایک مسلم عورت کی تعریف کا فیصلہ صرف اس کی شخصیت
سے کیا جاتا ہے اور اس کی خوبصورتی کی تعریف
ان پر چھوڑ دی جاتی ہے جن کے لئے اس کا کوئی مطلب ہے۔ وہ لوگ جو برقع کو "قرون وسطی کا لباس"
کہتے ہیں میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ: ایسا کیوں ہے کہ جب یہی لباس
ایک راہبہ پہنتی ہے تو قابل احترام
مانا جاتا ہے جبکہ برقع والی ایک خاتون پر 'پچھڑے' ہونے کا لیبل لگایا جاتا ہے؟
جمانا کے مضمون کو ملے جلے
ردّعمل موصول ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سب ذاتی پسند کے تحت آتا ہے، دوسرے لوگ مناسب بات کہتے ہیں کہ بہت سی مسلمان لڑکیوں کو برقع پہننے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن والے خاندان میں پیدا ہونے کے ناطے جہاں مجھے ایک عورت کے طور پر اپنے حقوق سے آگاہ رکھا گیا، یہ خاص
طور پر ان مسلم لڑکیوں کی کہانی سن کر تکلیف
ہوتی ہے جنہیں برقع پہننے کے لئے مجبور کیا
جاتا ہے، انہیں ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور گمراہ مردوں کے ذریعہ طے کئے گئے معیار کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا مذہب بتا سکتا ہے جس
میں پدرانہ سوچ کی بد ترین شکل کو بڑھاوا نہ دیا جاتا ہو؟
نقاب (چہرہ چھپانا) پر سوال
اٹھتے ہیں کہ یہ نہ صرف سکیوریٹی کے لئے خطرہ ہے بلکہ یہ ایک عورت کی شناخت کو 'ختم'
کرنے کا سبب ہے۔ ایک عورت جو
حجاب پہنتی ہے وہ ہوائی اڈوں پر، بینکوں میں اور عدالت میں جب بھی حفاظتی نقطہ نظر سے ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی پہچان ظاہر کرنے کی پابند
ہے، اور وہ اس سے پوری طرح واقف ہے۔
جہاں تک کسی خاتون کے
اپنی شناخت کھونے کے خطرے کا تعلق ہے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ
چہرے کا پردہ تب کیا جاتا ہے جب وہ
اپنے گھر سے باہر قدم رکھ رہی ہے۔ یہ دوسری خواتین کے سامنے اور قریبی مرد رشتہ داروں کے سامنے نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر صرف اجنبی
مردوں کو عورت کا چہرہ دیکھنے کا موقع نہیں ہوتا ہے تو میں
یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیسے یہ اس کی شناخت کو نقصان
پہنچاتا ہے۔
مسلم خواتین کے خلاف جرائم
کو اسلام سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ایک
مذہب کے طور پر اسلام سب سے پہلا مذہب تھا جس نے
عورتوں کو ملکیت رکھنے کا حق، طلاق اور دوبارہ شادی ( دیگر مذاہب کی خواتین
کو یہ حقوق جدو جہد کرنے کے بعد حاصل ہوا) کا حق عطا کیا تھا۔ لڑکیوں کو بوجھ نہ سمجھا جائے ، اسے روکنے
کے لئے، مسلم خواتین ہی ایک ایسی خواتین ہیں
جواپنے شوہر سے مہر مانگ سکتی ہیں۔ اسلام خواتین
پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ مرد عورت پر ظلم کرتے ہیں۔ تمام مذاہب اور طبقات میں خواتین کے استحصال کے پیچھے وجہ ایک ہی ہے: خواتین
کو ان کے حقوق کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے اور مذہبی متن کی پدرانہ نظریہ
سے تشریحات۔
ماخذ: دی ہندو، نئی دہلی
URL
for English article: http://newageislam.com/islam,-women-and-feminism/the-oppressor-is-man,-not-islam/d/7460
URL: