ساحل رضوی،
نیو ایج اسلام
12 اگست 2024
1857 کی بغاوت کی ایک اہم شخصیت
نواب مجو خان، جن پر انگریزوں نے سخت مظالم کے پہاڑ ڈھائے اور پھانسی پر لٹکا دیا۔
ان کے مردہ جسم کو سربازار گھمایا گیا، اور اس کی بے حرمتی کی گئی، اس کے باوجود ان
کی شخصیت مزاحمت کی علامت بنی ہوئی ہے۔
اہم نکات:
1. 1857 کی بغاوت کی ایک اہم
شخصیت نواب مجو خان، جن پر انگریزوں نے سخت مظالم کے پہاڑ ڈھائے، اور ان کی موت کے
بعد ان کی لاش کو بھیانک انداز میں سربازار گھمایا گیا۔
2. روہیل کھنڈ کے جنگجوؤں کے
خاندان سے تعلق رکھنے والے، مجو خان نے برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت میں اہم کردار
ادا کیا۔
3. مجو خان جیسی شخصیات کی
شدید مزاحمت اور زبردست قیادت کے باوجود، انگریز اس بغاوت کا سر کچلنے میں کامیاب رہے،
اور اس کے لیڈروں کو پھانسی پر لٹکا دیا۔
4. ان کے جسم کو ایک درخت سے
لٹکا کر انہیں شہید کیا گیا، اور اس کے بعد مسجد پتن کے پیچھے ایک قبرستان میں انہیں
سپرد خاک کیا گیا، اور وہ املی کا درخت اب بھی ان کی شہادت کا خاموش گواہ بنا ہوا ہے۔
The
tree, where Nawab Majju Khan was hanged
------
1857 کی بغاوت کے کچھ نام ایسے بھی ہیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا
سکتا۔ ہندوستانی شہریوں کے خلاف انگریزوں کے مظالم آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ بہت سے
انقلابیوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا، اور ان میں سے ہزاروں اس تحریک میں شہید ہوئے۔
ایسے ہی ایک بہادر انقلابی نواب ماجد الدین تھے، جنہیں نواب مجو خان بھی کہا جاتا ہے۔
انگریزوں نے نواب مجو خان کے ساتھ ہولناک سلوک کیا، ان کی موت کے بعد، انگریزوں نے
ان کی لاش کو چونے کے بھٹے میں پھینک دیا، اور بعد میں ان کی باقیات کو ہاتھی کی ٹانگ
سے باندھ کر شہر میں ظلم و بربریت کا نشان بنایا گیا۔
نواب مجو خان کا تعلق بہادر
جنگجوؤں کے خاندان سے تھا، جو 18ویں صدی میں روہیل کھنڈ میں آباد ہوئے تھے۔ 10 مئی
1857 کو جب میرٹھ میں، باغی سپاہیوں نے ملک گیر جدوجہدِ آزادی کو ہوا دی، شمالی ہندوستان
چلچلاتی دھوپ میں جل رہا تھا، اور برطانوی افسر پہاڑیوں کی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لینے
کی تیاری کر رہے تھے۔ تاہم اپنے وفادار فوجیوں سے بغاوت کی خبر ملتے ہی، ان کے پیروں
تلے زمین کھسک گئی۔
1857 کی بغاوت کے دوران 11 مئی 1857 کو ایک شخص، میرٹھ کے انقلابیوں
کی خبر لے کر مراد آباد پہنچا۔ اس اطلاع سے تحریک کے حامیوں میں جوش و خروش کی ایک
نئی لہر دوڑ گئی۔ نواب مجو خان، عباس خان، راشد خان، نواب شبیر علی خان، اولاد نواب
ڈنڈے خان، اور مولانا کفایت علی کافی جیسے بہادر انقلابیوں نے، تحریک کو کامیاب بنانے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مولانا زین العابدین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کی دعوت دی،
جب کہ مولانا کفایت علی کافی نے، پورے خطے میں جہاد کا فتویٰ جاری کرنے کے لیے، بڑے
پیمانے پر سفر کیا۔
14 اپریل 1858 تک مراد آباد میں بغاوت کی شدت کم ہو چکی تھی۔ تاہم،
25 اپریل کو، برطانوی جنرل جانسن اپنے سپاہیوں، اور سکھ رجمنٹ کے ساتھ مراد آباد پہنچا۔
اس کے بعد انقلابیوں نے ایک بار پھر، انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اس جدوجہد
کے دوران برطانوی حکام نے، 20 انقلابیوں کو گرفتار کیا اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا۔
نواب مجو خان کو پکڑنے کے
لیے، نکلسن نے رگھوپت سہائے جاٹ اور نرمل سنگھ کے ساتھ انگریزی فوج بھیجی۔ تاہم مجو
خان نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ دونوں فریقوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی، اور آخر میں نواب
مجو خان شدید طور پر زخمی ہو گئے۔ بے رحم انگریزوں نے انہیں زخمی حالت میں گرفتار کیا،
اور اس کے بعد ان کے جسم کو ان کی رہائش گاہ پر چونے میں ڈبو دیا، اور پھر لاش کو ہاتھی
کی ٹانگ سے باندھ کر پورے شہر میں گھمایا۔
25 اپریل 1858 کو ان کی لاش مرادآباد کے گلشہد میں املی کے درخت سے
لٹکا دی گئی۔ انگریزوں نے سب کچھ لوٹ لیا، مجو خان کی لاش کئی دنوں تک درخت سے لٹکتی
رہی۔ جمعہ کے دن انگریزوں نے ان کی لاش کو نکال کر، ایک کھلے میدان میں پھینک دیا۔
دریں اثناء حضرت شاہ مکمل کے مزار سے دو افراد آۓ،
اور ان کی لاش کو مسجد پتن کے پیچھے، قبرستان میں سپرد خاک کر دیا۔ آج بھی قبرستان
میں کھڑا املی کا درخت، ان کی شہادت کی خاموش گواہی دے رہا ہے۔
English
Article: Nawab Majju Khan: An Unsung Hero of the Indian
Freedom Struggle
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism