New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:12 AM

Urdu Section ( 14 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Clear Path Forward: Navigating Muslim Politics in India قطعی راہ عمل و راستہ

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

11 اکتوبر 2024

میں نے مسلم سیاست اور اس کا مستقبل پھر مسلم سیاسی جماعت اور اس سے قبل لائحہ عمل کی مختلف جہتوں  پر تین مضامین تحریر کئے۔ ہر پہلو پر اظہار خیال کے بعد وہ بنیادی نکتہ جس کی طرف آپ کی توجہ درکار ہے، پیش کررہا ہوں ۔ ہم تمام تر مسائل کا حل دیگر حلقوں میں تلاش کر رہے ہیں جبکہ عملاًوہ ہمارےیہاںہی ہے ۔یہ فکر اب مفروضہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس کو تسلیم کرنے کے بعد ہی میری بات آپ کی سمجھ میں آئے گی ۔ آج گفتگو خالصتاً سیاست اور انتخابی سیاست سے راست تعلق رکھتی ہے۔ پہلے مرحلے میں چند ملی حقائق کو ساتھ لے  بڑھیںگے۔

۱) مسلمانان ہند اور ان کے معاملات و مسائل کا سیدھا تعلق اور دائرہ کار ہندوستان کی سرحدوں کے اندر اور ہندو اکثریت سے ہمارے باہم تعلقات و اعتماد سے راست جڑا ہوا ہے۔

۲) مسلمانان ہند جذباتی، شعوری اور غیر شعوری طور پر عزت نفس اور برابری کے احساس کے ساتھ ایک معزز ہندوستانی شہری کے طور پر رہنا اور جینا چاہتے ہیں ۔وہ آئین کے پاسبان و پابند ہیں۔ اپنی اور بقیہ تمام وحدتوں کی وطن عزیز سے وفاداری و یکجہتی کو وہ اسی معیار سے جانچتے، پرکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔

۳) قومی سطح پر روز اول سے مسلمانوں نے قومی سیاسی جماعتوں اوران کے رہبروں کو اپنی ساخت اور شناخت سے جوڑا اور اسی کے مطابق اپنا سیاسی و سماجی عمل، رد عمل، اخلاق و تحریک کو رکھا۔ مسلم لیگ اور کئی علاقائی مسلم جماعتوں اور شخصیات نے ہر سطح پر مسلم قائد، مسلم سیاسی جماعت اور اتحاد بین المسلمین کے نام و نظریے اور اس سے ہونےوالے فوائد کی بنیاد پر مسلمانان ہند کو ایک پرچم کے تحت لانے کی کوششیں کیں، جو نہایت محدود رہیں اور قومی سیاست کو متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ مسلمان آج بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔

۴) وہ آزادی سے پہلے، تقسیم ہند کے وقت اور آزاد ہندوستان میں کانگریس، سیکولرزم اور ریاستی سیکولر سیاسی جماعتوں، ان کے لیڈران اور اس آئیڈیا آف انڈیا کے ساتھ رہا جس کا تعلق ان اقدار سے ہے جنکی بنیاد پر جنگ آزادی لڑی اور جیتی گئی۔ وہ جن سنگھ، بھاجپا اور سنگھ پریور اور اس کے نظریہ ہندوتو کا بد ترین مخالف تھا، رہا اور آج بھی کچھ بدلا نہیں ہے۔

۵) اس نے ووٹ دینے اور سیاسی حمایت کے معاملے میں شروع کی پانچ دہائیاں کانگریس اور اس کیقیادت کو غیر مشروط اپنی حمایت دی اور اس کے خلاف کبھی ایک لفظ نہ سنا بلکہ ایک مخصوص طبقے نے   ’ہم تو خاندانی کانگریسی ہیں ‘ اس کو لیکر ایک منفرد فخریہ انداز بھی رکھا۔مگر آہستہ آہستہ ریاستی سطح پر سیکولر متبادل ابھرنے لگے اور بابری مسجد کی شہادت نے کانگریس سے مسلم رشتے کے تانے بانے کو بکھیر دیا جو آج تک سمٹ نہیں پارہا ہے۔

۶) اب ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ سنگھ پریوار اور بھاجپا جو ملک گیر قومی سیاسی متبادل و سیاسی جماعت کی شکل میں اپنا قد بنا چکےہیں، اب اقتدار میں آ اور جا رہے ہیں۔

۷)ان کو ہرانا اور کسی بھی قیمت پر ہرانا اعلانیہ مسلم حکمت عملی بنی ہوئی ہے، جو آج بھی زمین پر نافذ العمل ہے۔

 ۸) اس سے فیضیاب ہونے والے ان گنت برادران وطن ہیں اور اس کے نقصان کے صرف ہم مسلمانان ہندتنہا بھوگی!

۹) مخالفت اس حد تک شدید ہے کہ اس کے لئے پوری طاقت لگائی جاتی ہے۔ درمیان میں دین اور ملی حمیت کو لایا جاتا ہے، قسمیں کھائیں اور کھلوائیں جاتی ہیں، اپیلیں جاری کی جاتی ہیں ۔ادھر اس جانب ذرا بھی رخ کرنے والے کو ملت فروش، ضمیر فروش، ایمان فروش اور خودی و خوداری فروش کا تمغہ ملنا طے ہے۔

۱۰)  اب ایک طرف جیب میں پڑی ہوئی مجبور، بے بس اور بے کس سیکولر سیاسی جماعتوں کو قومی وریاستی سطح پر غیر مشروط مسلم حمایت ہے جوان کے اقتدار کے حصول کو یقینی بناتی ہےتو دوسری طرف اسکی مخالفت کا بھر پور استعمال اور استحصال ہی مخالفین کی کامیابی اور اقتدار کی ضمانت ہے۔

۱۱)  ایک نکتہ یہ بھی زیر نظر رہے کہ ہمیں من حیث القوم اس جیب میں پڑی ہوئی حمایت کے طفیل سچر کمیٹی، ان گنت مسلم کش فسادات، بابری و دیگر متعدد مساجد و خانقاہوں کی شہادت و بے حرمتی، عید گاہ سے نکلتے نمازیوں پر گولی، علامتی اقدامات، مخصوص طبقے کو ملت کے نام پر فوائد اور آج بھی دشمنی اور اسکے سارے نقصانات جن کا ذکر میں متعدد بار کر چکا ہوں۔

سوال: جب آپ کے اقتدار کی وجہ ہم، تب ہماری زیادتیوں کے ازالے کے وقت آپ غائب کیوں؟

چند حقائق کی نشاندہی اور معروضات:

۱) آج کا ہندوستان اب گاندھی، نہرو، آزاد کا صرف نہیں رہا بلکہ ساورکر، ہیڈگیوار، گولوالکر، دیورس، بھاگوت، مودی اور ہندوتو کا بھی برابر بن چکا ہے۔ جو کل تک ہندو ہی کے لئے اچھوت تھے وہ اب اس کیپہلی پسند بن چکے!

۲) بابری مسجد کاتالا جس دن کھلا اس دن ،اس ہندوتو پر مبنی سیاست کی بنیاد رکھ دی گئی جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔مسلمان، مسلم دشمنی اور ہندو مسلم ٹکراؤ دونوں طرف کی سیاست کے پہلے مرکزی کرداربنے اور یہیں سے ہمارا دو طرفہ استعمال و استحصال شروع ہوتا ہے۔ نہ مسجد بچتی ہے، نہ فسادات میں جان مال، نہ عزت و آبرو، نہ اقتصادیات اور نہ ہی توقیر اسلام، قرآن، رسالت و ملت! آج تک ایسا ہی چل رہا ہے۔ ہم اپنے ہی وطن میں چو طرفہ پسپائی کے شکار ہیں۔ زندگی کا ہر شعبہ اور اس سے جڑے ماحول میں ہندو مسلم نفرت داخل ہوگئی ہے۔ نمازیں، اذانیں، مسلم اجتماعات سب پر آج سوال ہے؟ اوقاف بھی چھن رہے ہیں۔

بنیادی سوال: جو آپ بار بار مجھ سے پوچھتے ہیں حل کیا ہے؟ پہلے بیماریسمجھئے، پھر حل بتاؤں گا ۔ ۱)بیماری میرے پاس فیصلہ سازی کا آزادانہ اختیار اور اس کامیکانزم نہیں،  اس پر طرہ یہ کہ یہ سوچ و فکر میں بھی نہیں۔

۲)  سیاست کو عقیدے کی طرح لیکر چل رہے ہیں جبکہ یہ لے اور دے کا سیدھا دو تاجروں کے بیچ کا کھیل ہے۔

۳) میدان میرا، پچ میری،کھلاڑی میں مگر کیپٹن کوئی اور،میں صرف تماش بین۔سیکولر سیاست اور اس کے ٹھیکیدار جنہوں نے مجھے اتنا اپاہج بنا دیا ہے کہ میں انکا زر خرید غلام اور بندھوا مزدور بن کر رہ گیا ہوں۔

۴) حل یہ ہے کہ بیماری کا قومی سطح پر تو فی الفور کوئی علاج نہیں مگر پردھانی سے لوک سبھا تک حلقے وار مسلم ووٹ کا کوئی ایک یا چند متفقہ ٹھیکیدار ہوں جن کے ساتھ عملدرآمد کے لئے اس حلقے کے نوجوان ہوں۔

 ۵) اپنےعلاقائی مفادات کی بنیاد پر کسی کے حق یا کسی کے خلاف فیصلہ کرو اور جس دن یہ ٹھیکیدار مستند حیثیت پا جائیں گے  ہر امیدوار تمہارے دروازےپر کھڑا ہوگا۔ ابھی تو خرید اور بیچ دونوں انہی کے پاس ہیں ۔خریدار نہیں ساہوکار بنو۔

۶) آپسی تفرقہ، مسلکی اختلافات یہ سب حجتیں اپنے پاس رکھو ،مگر انتخابات میں ایک ہو کر ووٹ دینا اور اپنے قائم کئے فیصلے کی آبرو رکھنا سیکھ لو مسائل بڑی حد تک حل ہو جائیں گے ۔

۷) آگے چل کر یہ اگر کوئی ریاستی اور پھر قومی سطح پر کسی با قاعدہ نظم کی شکل اختیار کر جائے تو اس سے آئیڈیل تو کچھ اور ہے ہی نہیں۔

۸) بنیادی بات یہ ہے کہ دینے والے کا اثر اور دباؤ ملنے والے کو ہمارے معاملات و مسائل کے حوالے سے حل کا پابند بنائے اور مخالف کو یہ باور ہو جائے کہ یہ بندھوا نہیں ہے میرے ساتھ بھی آ سکتا ہے کیونکہ اب اس  کےفیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ آج نجی محفلوں میں سارے سیکولر آپ کے ووٹ کو جیب میں ڈال کر اپنی ساری سیاسی حکمت عملی بناتے ہیں۔ ادھر آپ کے ووٹ کو کیسے تقسیم کیا جائے اور فرقہ واریت کو ہتھیار بناکر کیسے آپ کو اور اپنے ووٹ بنک کو اکسایا جائے اس پر ساری سیاست کا کھیل چل رہا ہے۔آخری بات مسلمانان ہند اس بات کو دل سے تسلیم کریں کہ سنگھ اور بھاجپا سب سے بڑی تنہا قومی سیاسی و انتخابی وحدت بن چکے ہیں اور ہم اسے شکست دینے میں کامیاب نہیں، اگر کچھ حد تک ہو بھی جاتے ہیں تو جو ہمارے بل بوتے پر کامیاب ہوتا ہے وہ ہمارے معاملات میں اب فیصلہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ ہندوتو پر چلنے والے ناراض نہ ہو جائیں۔ایک بات کہہ کر بات مکمل کرتا ہوں۔ برادران وطن جن کا  تعلق کسی بھی سیاسی نظریے سے ہو ان کے آپس میں بہترین مراسم ہیں۔ لہٰذا کسی پر اتنا ایمان نہ لے آؤ کہ آنکھیں دیکھنا بند کردیں، دماغ سمجھنا چھوڑدے، ادراک کا عمل مفلوج ہو جائے، فیصلہ سازی کی صلاحیت سلب ہو جائے، کوئی بھی آپ  جیب میں ڈال لے اور آپکو پتہ ہی نہ چلے۔ جس دن سیاسی تجارت کی چالبازیاں اور شعبدےبازیاں آپ سیکھ لیں گے انشاءاللہ تقدیر ہی بدل جائے گی ۔ کوئی نہ آپ کاآخری دوست ہے اور نہ دشمن! سب در، دریچے اور دروازے کھلے رکھو ہوا کا رخ کسی بھی سمت ہو سکتا ہے اس سمت کی اجارے داری آپ کی  منتظر ہے اور آپ اس کےمتحمل! انتظار کب تک؟

11 اکتوبر 2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/navigating-muslim-politics-india/d/133432

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..