New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 02:54 PM

Urdu Section ( 29 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Prioritizing National Interests Is Essential For Development ترقی کے لیے قومی مفادات کو ترجیح دینا ناگزیر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

29 مارچ 2025

رواں حالات کا اگر متوازن تجزیہ کیا جائے تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ عالمی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ اس میں ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہمارے درمیان ایسے افراد کی کثرت ہے جو جذباتیت سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تفکر و تدبر اور معاملہ فہمی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان کے جذباتی بیانوں اور  غیر متوازن نظریہ کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور پھر جب ہوش آتا ہے تو بات بہت آگے نکل چکی ہوتی ہے ۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جذباتیت سے مملو ٹولہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے برادران وطن میں بھی ایسے افراد کی خاصی تعداد ہے جو نوجوانوں کو لگاتار مذہب ، ذات اور رنگ و نسل کے نام پر مشتعل کرتے ہیں اور پھر وہ نوجوان ایسے امور عمدا انجام دے رہے ہیں جن سے عالمی سطح پر اخلاقی قدریں مجروح ہورہی ہیں تو وہیں بھارت جیسے تکثیری سماج اور سیکولر ملک میں جمہوریت شرمسار ہورہی ہے ۔ آج سڑکوں پر مسلمانوں ، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ میں جو بھی ناروا سلوک کیا جارہاہے ، اس کی وجہ وہی مذہب کے نام پر جذباتی بیانات اور غیر فطری دلائل ، تاریخ کا ناقص علم ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنی تیزی سے پورے بھارت میں نفرت ، تعصب اور دوری بڑھ رہی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف ایک تازہ سوچ اور نظریہ تشکیل دیا جارہا ہے ۔ نفرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ دوران سفر بھی مسلمانوں کو زدوکوب کیا جارہاہے ۔ ان کی حرمت و ناموس کو پامال کیا جارہاہے ۔ معاشرے میں وحشت و بربریت اور دانستہ طور پر خوف پیدا کیا جارہا ہے ۔

بہر حال بنیادی طور پر ایک صحتمند اور صالح معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ہمیں امن و امان کا ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر مسلمانوں میں جو خوف پیدا ہوا ہے اس کو بھی زائل کرنے کی ضرورت ہے ۔ تمام انسانوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ امن و امان کا قیام کسی بھی سماج اور معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ نفرتوں اور تشدد سے معاشرے ترقی نہیں کرتے ہیں بلکہ مل جل کر رہنے ، یکجہتی و رواداری کے فروغ ، ایثار و جذبہ خیر سگالی سے قومیں عروج پاتی ہیں ۔ بھارت میں قومی یکجہتی اور باہمی رکھ رکھاؤ کی روایتیں نہ صرف مستحکم ہیں بلکہ قدیم بھی ہیں ۔ ہمارے صوفیاء اور بزرگانِ دین نے معاشرے کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے جو فلسفہ اپنایا،  وہ ایسی روایات ہیں جو یقینی طور پر مکمل بھارت کی عکاس ہیں ۔ حضرت امیر خسرو ، نظام الدین اولیاء اور دیگر بزرگوں نے واقعی گنگا جمنی تہذیب کی آبرو کو نہ صرف خود محفوظ کیا بلکہ اپنے عقیدت مندوں سے بھی اسی بات کی تلقین کی کہ وہ بھارت کی تکثیریت کا پورا لحاظ رکھیں ۔

نفرت پر مبنی بیانات روز آپ کو دیکھنے اور سننے کو مل جائیں گے ۔ ابھی حال ہی ایک واقعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ پیش آیا کہ علی گڑھ سے منتخب ہوئے لوک سبھا کے ممبر نے جو زبان  استعمال کی یقیناً اس زبان کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

---------

 

صاحبو!علم و تحقیق اور تعلیم و تربیت کے کسی بھی مرکز کو سیاست کا اکھاڑہ نہیں بنانا چاہیے ۔ تعلیم کا مرکز صرف تعلیم کا ہی مرکز ہوتا ہے، اس کو اسی حیثیت اور نظریہ سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک ایسا تعلیم و تحقیق اور  متنوع تہذیب و تمدن کا سنگم ہے کہ اس کی اپنی سماجی اور معاشرتی روایات ہیں، جن میں جمہوریت اور سیکولر اقدار پنہاں ہیں ۔ اس دانشگاہ میں اجتماعی طور پر حب الوطنی ،وطن دوستی اور باہمی الفت و محبت کا درس دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دانشگاہ کے بانی اور سماجی بنیاد گزار سر سید احمد خاں کے افکار و نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کی قومی روایات اور سماجی تعلیمات کو کبھی بھی مسترد نہیں کیا ۔ ہندو مسلم اتحاد و یگانگت میں بھر پور حصہ لیا ۔ اسی وجہ سے وہ فرماتے تھے کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن ہے اور ہندو و مسلم اس کی دو آنکھیں ہیں اگر ان دونوں میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو دلہن بد صورت ہو جائے گی ۔ سر سید کا یہ شعور اور نظریہ بھارت میں قومی یکجہتی کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ سر سید کے ادارہ میں آج بھی مطالعہ مذاہب کا خصوصی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ شعبہ دینیات میں باضابطہ سامی ادیان اور غیر سامی ادیان یعنی ہندوستانی مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ا کا قومی اور جمہوری تشخص یہ بھی ہے کہ یہاں قرآن کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی دینی کتابیں مہابھارت ،گیتا  رامائن اور پران باقاعدہ طور پر موجود ہیں ۔ اسی طرح جملہ قومی تہوار اور روایتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ  منائی جاتی ہیں۔ گویا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سیکولر قدروں کی حامی اور جمہوریت کی سچی علمبردار ہے ۔ علاوہ ازیں موجودہ وزیر اعظم نے صدی تقریب کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو جن الفاظ کے ساتھ یاد کیا وہ  غیر معمولی ہے:

 "علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی ایک 'چھوٹا بھارت' ہے ۔محض یہ ایک معروف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ملک کی طاقت کا عکاس ہے۔ اے ایم یو کیمپس اپنے آپ میں ایک شہر کی طرح ہے۔ متعدد شعبوں، درجنوں ہوسٹلز، ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طلبہ کے اس کیمپس میں ایک منی انڈیا نظر آتا ہے۔ اے ایم یو میں ایک طرف اردو پڑھائی جاتی ہے تو دوسری طرف ہندی۔ جہاں عربی پڑھائی جاتی ہے تو وہاں سنسکرت کا صدی پرانا شعبہ بھی ہے۔

'یہاں کی لائبریری میں قرآن کے ہی نہیں بلکہ بھگوت گیتا اور رامائن کے نسخے بھی ہیں۔ اے ایم یو محض ایک معروف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ملک کی طاقت کا عکاس ہے۔ ہمیں اس طاقت کو نظرانداز کرنا ہے نہ کمزور پڑنے دینا ہے۔ اے ایم یو کیمپس میں متحد بھارت کا جذبہ دن بہ دن پروان چڑھ رہا ہے"

بھارت کو وشو گرو بنانے کے لیے یہاں کے تمام طبقات اور تمام مذاہب کے متبعین کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ نفرتی باتیں کرکے کوئی ملک بھلا کیسے وشو گرو بن سکتا ہے ۔

تصور کیجیے! ذمہ داروں اور آئینی کرسیوں پر براجمان افراد کی جانب سے بے تکی اور نفرت آمیز زبان کا استعمال کیا جائے گا تو اس کا اثر عوام پر کس حد تک پڑے گا ؟ سماج میں یقینی طور پر خوف کا ماحول پیدا ہوگا اور پھر سماج میں جو سر پھرے دندناتے پھرتے رہتے ہیں ، غیر مہذب زبان کے استعمال سے ان کے کو جرائم کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ لہٰذا ذمہ دار شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ جب وہ کوئی بیان دے ، یا کوئی تحریر رقم کرے تو اس پر نظر ثانی ڈال لینی چاہیے ایسا نہ ہو کہ  دانستہ یا غیر دانستہ طور پر منھ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جو کسی کی دل آزاری یا دل شکنی کا سبب بنے نیز کوئی سر پھرا اس بات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھالے ۔

آخر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی آن بان شان اور اس کی عظمت و جلالت اسی بات میں مضمر ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی مذہبی و دینی رسومات و تعلیمات کو اختیار کرتے ہوئے سماجی طور پر متحد  رہیں ۔ ہمارے ملک کا جمہوری اور سیکولر ڈھانچہ اور اس کی روحانی طاقت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ سوء اتفاق کہ کچھ عناصر اس ملک کے امن و امان اور یہاں کی لازوال قومی روایتوں کو مسمار کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ بھارت کے لوگوں کو ایسے عناصر سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے ۔ ملک سے  زیادہ عزیز جب ذاتی مفادات ہو جائیں تو پھر سماج انتشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔ آج جو کچھ دکھائی دے رہا وہ اسی بات کا نتیجہ ہے۔ سماج و معاشرے کی اجتماعی ترقی کے لیے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/national-interests-essential-development/d/135007

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..