ناستک درانی، نیو ایج اسلام
14 جون، 2013
اسلام دعوی کرتا ہے کہ نبی اسلام محمد علیہ الصلاۃ والسلام اسلام کے خدا اللہ کی طرف سے ساری بنی نوع انساں کے لیے مبعوث کیے گئے تھے، نہ صرف یہ بلکہ وہ آخری پیغمبر بھی تھے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات سچ ہوسکتی ہے؟؟ ممکنہ طور پر اس دعوے کی وجہ قرآن کی کچھ آیات ہیں جن میں لفظ “الناس” آتا ہے جیسے:
(مَا اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَا اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا – اے آدم زاد تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ اور اے نبی ہم نے تم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اس بات کا اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ النساء 79)
اگر آیت کو ظاہری طور پر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں لیکن قرآن میں لفظ “الناس” کا استعمال عام استعمال سے کافی مختلف ہے، اگر ہم دیگر قرآنی آیات کو لیں تو پتہ چلے گا کہ “الناس” سے لوگوں کا ایک مخصوص گروہ مراد ہے ساری نوعِ انسانی نہیں:
(زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَاوَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ )– لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں مگر یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں۔ اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانہ ہے۔ آل عمران 14)
مندرجہ بالا آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن نے لفظ “الناس” کا استعمال صرف مردوں کے لیے کیا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ خواتین انہیں ہی دی جائیں گی اور صرف وہی گُھڑ سواری اور کھیتی باڑی سے رغبت رکھتے ہیں خواتین نہیں، چنانچہ یہاں الناس سے صرف مرد حضرات ہی مقصود ہیں۔
(وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغۡرَقۡنٰہُمۡ وَ جَعَلۡنٰہُمۡ لِلنَّاسِ اٰیَۃً وَ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا) – اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انکو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ – الفرقان 37)
نشانی، آیت یا معجزے کا اثر ان لوگوں پر پڑتا ہے جو اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں یعنی حاضر ہوتے ہیں، لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ساری قوم نوح کو زمین پر غرق کردیا گیا تھا اور صرف نوح اور ان کے اہلِ بیت ہی زندہ بچے تھے اس کے باوجود قرآن انہیں “الناس” کہتا ہے حالانکہ وہ صرف ایک ہی خاندان کے افراد ہیں یعنی صرف چند لوگ ہیں کیونکہ ان کے بعد آنے والے لوگوں نے طوفان کا معجزہ نہیں دیکھا تھا اسے دیکھنے والے صرف نوح کے خاندان کے لوگ ہی تھے جنہیں قرآن “الناس” کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔
(فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ – وَّ قِیۡلَ لِلنَّاسِ ہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّجۡتَمِعُوۡنَ) – آخر جادوگر ایک مقررہ دن کی معیاد پر جمع ہو گئے۔ – اور لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ تم سب کو اکٹھے ہو جانا چاہیے۔ – الشعراء 38-39)
مذکورہ بالا آیت میں قومِ فرعون کی بات ہو رہی ہے جنہیں جادو دیکھنے کے لیے جمع کیا گیا، ظاہری بات ہے کہ یہ تماشہ دیکھنے آنے والے مصر کے تمام لوگ نہیں تھے کجا یہ کہ دنیا کے تمام لوگوں کی بات کی جائے اس کے با وجود قرآن کہتا ہے “اور لوگوں سے کہ دیا گیا”۔
(وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ) – اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسٰی کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ – القصص 43)
حضرت موسی علیہ السلام جیسا کہ سب جانتے ہیں فقط بنی اسرائیل کے لیے مبعوث کیے کئے تھے ان کی دعوت تو تمام اہلِ مصر تک کے لیے نہیں تھی اس کے باوجود قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت ہے۔ ظاہر ہے یہاں “الناس” سے صرف بنی اسرائیل کا گروہ ہی مقصود ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے قرآن اس سے بھی کہیں زیادہ واضح تھا:
(وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا) – اور ویسی ہی یہ کتاب جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور جو اس لئے نازل کی گئ ہے کہ اے نبی تم مکے اور اسکے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کردو۔ – الانعام 92)
یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، یعنی ان کا کام مکے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے کرہ ارض کے تمام لوگوں کو نہیں۔
پھر ان سے فرمایا کہ:
(فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِیۡنَ – وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ) – تو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا ورنہ تمکو عذاب دیا جائے گا۔ – اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو۔ – الشعراء 213-214)
صاف ظاہر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری یہی تھی کہ وہ اپنے قریب کے رشتہ داروں یعنی قریش اور آس پاس کے اعراب کو متنبہ کریں۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
(وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہ اِنَّمَا اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ )– اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر اسکے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی۔ اے نبی تم تو صرف خبردار کرنے والے ہو اور ہر ایک قوم کے لئے راہنما ہوا کرتا ہے۔ – الرعد 7)
اس سے بڑی وضاحت اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے کہ آپ صرف کافروں یعنی قریش کو خبردار کرنے آئے ہیں کیونکہ باقی ہر قوم کا اپنا ایک مخصوص راہنما ہوتا ہے، جو ظاہر ہے انہی میں سے ہوتا ہے اور ان کیا پنی زبان بولتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شیوخِ اسلام کو مندرجہ ذیل آیت سے غلط فہمی ہوئی ہے:
(وَ مَا اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ) – اور اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمکو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ – سبا 28)
لفظ “کافۃ” جو “الناس” سے پہلے آیا ہے کا مطلب جمع ہوسکتا ہے مگر اسی وقت اس کا مطلب “الکف” یعنی روکنا بھی ہوسکتا ہے یعنی لوگوں کو وہ جس کفر میں ہیں اس سے روکنا جیسا کہ قرطبی اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں، بہر حال یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن میں لفظ “الناس” کا مطلب قریش یا قوم فرعون یا لوگوں کا کوئی بھی چھوٹا سا گروہ ہوسکتا ہے، اس آیت کا منطقی معنی یہی بنتا ہے کہ اللہ نے محمد علیہ الصلاۃ والسلام کو مکہ کے گرد تمام عربوں کے لیے اور انہیں اپنے کفر سے روکنے کے لیے مبعوث فرمایا۔
اس بات کی قرآن تصدیق بھی کرتا ہے:
(وَ مَا اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ )– اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں احکام الٰہی کھول کھول کر بتا دے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ رہنے دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ – ابراہیم 4) یعنی یہ لازم ہے ہر رسول اس قوم کی زبان جانتا ہو جن کے لیے وہ بھیجا گیا ہو تاکہ انہیں اللہ کا پیغام احسن طریقہ سے پہنچا سکے اس معنی کی قرآن مزید تصدیق بھی کرتا ہے: (نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ – عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ – بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ) – اس کو امانتدار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ – یعنی اسنے تمہارے دل پر اسکا القا کیا ہے تاکہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو۔ – اور القا بھی فصیح و بلیغ عربی زبان میں کیا ہے۔ – الشعراء 93-94-95)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری عربوں کو انہی کی عربی زبان میں خبردار کرنا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا انہیں عربی زبان میں چینیوں کو خبردار کرنے بھیج دے!!۔
اس معنی کی مزید تاکید بھی قرآن کرتا ہے:
(وَ لَوۡ نَزَّلۡنٰہُ عَلٰی بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِیۡنَ – فَقَرَاَہ عَلَیۡہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہ مُؤۡمِنِیۡنَ) – اور اگر ہم اس کو کسی عجمی پر اتارتے۔ – اور وہ اسے ان لوگوں کر پڑھ کر سناتا تو یہ اسے کبھی نہ مانتے۔ – الشعراء 198-199)
کیا کسی کو اس سے زیادہ وضاحت درکار ہے؟ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ عربی زبان میں اتارے گئے قرآن کا مقصد عجم نہیں تھے جو عربی نہیں سمجھتے بلکہ عرب ہی مقصود تھے جن کی زبان عربی ہے اگر اللہ اسے عجمیوں پر اتارتا جنہیں عربی نہیں آتی تو کبھی اس پر ایمان نہ لاتے، یقینا اللہ لوگوں کو اسلام کے شیخوں سے زیادہ جانتا ہے۔
اس بات کی مزید تصدیق کے لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے لیے ہی نبی بنا کر بھیجے گئے تھے قرآن کہتا ہے:
(وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہ)- اور اگر ہم اس قرآن کو غیر عربی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں ہماری زبان میں کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں – فصلت 44)
اگر اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش پر عجمی قرآن دے کر بھیجتے یعنی کسی دوسری زبان میں تو وہ کہتے کہ اس کا ترجمہ کر کے ہمیں بتاؤ کہ ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا، اگر اللہ نے قریش پر قرآن ان کی اپنی زبان میں ہی نازل کیا جبکہ وہ ساری دنیا کی آبادی کے حساب سے اقلیت تھے کیونکہ دوسری صورت میں وہ پیغام کو ہی نہ سمجھ سکتے تو کیا یہ معقول بات ہے کہ اللہ ایک عربی رسول کو عربی قرآن کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے بھیجیں گے جو چھ ہزار سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں؟
اسلامی پیغام میں زبان کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے جہاں سابقہ انبیاء کے معجزے طبعی نوعیت کے تھے جیسے سمندر کو چیرنا من وسلوی اتارنا اور مردوں کو زندہ کرنا وہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ کوئی معجزہ نہیں دیا گیا جس کی فصاحت وبلاغت پر قرآن کا خدا فخر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور مشرکین کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورت لاکر دکھا دیں کیونکہ اس کی زبان بلاغت کے لحاظ سے معجزہ قرار دی گئی ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خدا جو سب کچھ جانتا ہے عربی زبان میں لغوی معجزوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب بھیجے جسے اہلِ عرب تک اچھی طرح نہ سمجھ سکے اور انہیں اس کی تفسیر کی ضرورت پڑی پھر وہ خدا تمام اہلِ ارض سے جو یہ زبان نہیں جانتے ان سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس قرآنی لغت کی خوبصورتی کے قائل ہوجائیں اور بغیر کوئی معجزہ دیکھے (جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ) ایمان لے آئیں؟
اللہ کو اس بات پر فخر ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے:
(اِنَّا اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ) – ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو۔ – یوسف 2)
(کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ) – ایسی کتاب جسکی آیتیں جدا جدا بیان کی گئ ہیں یعنی قرآن عربی ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ – فصلت 3)
(اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ) – کہ ہم نے اسکو قرآن عربی بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو۔ – الزخرف 3)
(وَ مِنۡ قَبۡلِہ کِتٰبُ مُوۡسٰی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ) – اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب تھی لوگوں کے لئے رہنما اور رحمت۔ اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اسکی تصدیق کرنے والی تاکہ ظالموں کو خبردار کرے۔ اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنائے۔ – الاحقاف 12)
(وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ اَوۡ یُحۡدِثُ لَہُمۡ ذِکۡرًا )– اور ہم نے اسکو اسی طرح کا قرآن عربی نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح کے ڈراوے بیان کر دیئے ہیں تاکہ لوگ پرہیزگار بنیں۔ یا اللہ انکے لئے نصیحت پیدا کر دے۔ – طہ 113)
(فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہ قَوۡمًا لُّدًّا )– ے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اس سے پرہیزگاروں کو خوشخبری پہنچا دو اور جھگڑالوؤں کو ڈر سنا دو۔ – مریم 97)
(فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ )– ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ – الدخان 58)
(وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ) – اور ہم نے لوگوں کے سمجھانے کے لئے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ – الزمر 27)
کیا اتنے زور، تاکید اور عربی زبان پر فخر کرنے کے بعد یہ ہوسکتا ہے کہ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرہ ارض کے تمام لوگوں کے لیے بھیجا ہو اور ان سے ایسی زبان میں کلام کیا ہو جسے نہ وہ جانتے ہیں اور نا ہی سمجھتے ہیں؟ یقینی طور پر اللہ کا قرآن کے پیغام سے ساری انسانیت مراد نہیں تھی، اس بات کا ثبوت آج کی دنیا میں بھی نظر آتا ہے، عرب مسلمانوں کی تعداد جو عام عربی بولتے ہیں اور قرآن کی فصیح عربی نہیں سمجھتے تقریباً سو ملین ہے جن میں عورتیں اور بچے سب شامل ہیں ان میں سے آدھے تو سرے سے ان پڑھ ہیں اور قرآن کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں جبکہ دنیا کے باقی مسلمان جن کی تعداد کوئی ایک ارب ہے وہ تو سرے سے عربی جانتے ہی نہیں اگرچہ بعض نے پورا قرآن حفظ کر رکھا ہوتا ہے تاہم یہ صرف رٹا ہی ہوتا ہے اور انہیں قرآن کے کسی ایک لفظ کے مطلب تک کا پتہ نہیں ہوتا اس طرح وہ قرآن کے اس قول کی زندہ مثال ہوتے ہیں: کمثل الحمار یحمل اسفارا (ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں) ایسے لوگوں کی بہترین مثال پاکستان کے مسلمان ہیں جو اپنے اسلام میں دیگر مسلمانوں سے زیادہ متعصب اور متشدد ہیں جس کی وجہ ان کا عربی قرآنِ مبین کو نہ سمجھنا ہے۔ کیا اللہ کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے پیغام کے ساتھ بھیجنے کا یہی مقصد تھا کہ لوگ اسے بغیر سمجھے حفظ کر لیں؟
اور پھر خدا نے جو ساری دنیا کا حال جانتا ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جیسا کہ بعض اسلامی مصادر میں مذکور ہے، اگر ایک نبی کرہ ارض کے تمام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچا سکتا تھا تو پھر اتنے پیغمبر بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جبکہ وہ بھیجے بھی زمین کے صرف ایک محدود حصے میں گئے تھے جو چند سو کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے اور جہاں باقی زمین کے مقابلے میں صرف چند قومیں ہی رہتی ہیں؟ کیا وہ تمام انسانوں کو بغیر انبیاء کے اپنے ہی دین پر پیدا کر کے خود کو اور ہمیں مذاہب کے اس جنجال اور قتل وغارت گری سے نہیں بچا سکتا تھا؟
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/prophet-islam-sent-whole-universe/d/12065