ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
4اکتوبر، 2013دہشت گردی کے اسباب، عوامل، مصادر، اثرات ونتائج پر بات کرتے کرتے شاید ہم کبھی نہ تھکیں حالانکہ اس موضوع پر نہ صرف ضخیم ترین کتابیں دستیاب ہیں بلکہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس پر گفتگو ہوتی رہتی ہے جبکہ سیمینار اور کانفرنسیں اس کے علاوہ ہیں، دہشت گردی عرب اسلامی زندگی کے روز مرہ معمول کا حصہ بن چکی ہے، مسلمانوں کا ناشتہ، لنچ اور ڈنر اسی پر ہوتا ہے جبکہ ماہ رمضان میں اسی پر سحر وافطار ہوتا ہے، بچے اسے ماں کے دودھ اور سیریلیک کے ساتھ کھاتے ہیں۔۔ اسلامی دنیا میں دہشت گرد ہی معیار اور باقی لوگ استثناء بن گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنی کثیر اور “مبارک” مقدار میں یہ دہشت گردی کہاں سے آئی کہ جسے کبھی ہم جہاد، کبھی دفاع اور کبھی شہادت کا نام دیتے ہیں؟
کیا یہ واقعی اسلام سے آتی ہے جیسا کہ مشرق ومغرب میں دعوی کیا جاتا ہے؟
کیا یہ قبائلی تعصب سے آتی ہے جس پر ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں روشنی ڈالی تھی؟
کیا یہ بری معاشیات سے آتی ہے؟
کیا اس کی وجہ بیرونی مغربی سازشیں ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دے کر اور پال پوس کر بڑا کیا کہ جو ملک شیطانوں کو یہ جانے بغیر پالے کہ بعد میں ان سے کیسے جان چھڑانی ہے اسے 11 ستمبر 2001 جیسے واقعہ کی توقع رکھنی چاہیے؟
ان سطور میں میری کوشش ان مذہبی اسباب کا بیان ہے جن کا تعلق اسلام پسندوں سے ہے اسلام سے نہیں اور جو میرے خیال میں اسلامی دنیا میں اس بھیانک دہشت گردی کی لہر کی ایک بنیادی وجہ ہیں۔
اسلام پسندوں نے جو مذہبی اسباب تشکیل دیے اور جن سے کہ اسلام بری ہے ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل میں کیا جاسکتا ہے اس دلیل کے ساتھ کہ دہشت گردی (اس قدر) اسلام کے ظہور کے ساتھ یا اسلام کے بعد ظاہر نہیں ہوئی جتنی کہ مندرجہ ذیل وجوہات بنا پر ظاہر ہوئی:
1- اسلامی دنیا میں جاری مذہبی جنگ کا مقامی جنگ سے ایک عالمی جنگ میں تبدیل ہونا، اب اسلام کے فکری اور فقہی موضوعات پر دلچسپی صرف مقامی ہی نہیں رہی بلکہ اب یہ عالمی دلچسپی وتوجہ کا مرکز بن گئے ہیں کیونکہ عالمی امن اسلامی فقہ کی جزئیات، عبادات کی تفصیل اور اعتقاد کی کلیات پر منحصر ہے۔
2- اسلامی معاشروں کا دو حریف گروہوں میں تقسیم ہونا جس کی وجہ سے مسلم معاشرے گھٹن کا شکار ہیں، ایک گروہ جدیدیت پسند ہے جبکہ دوسرا سلفیت پسند ہے، پہلے گروہ کو مغربی نظامِ حیات میں اپنی حیات نظر آتی ہے جبکہ دوسرے گروہ کی نظر میں اولیاء اور مقدس مُتون ہی آخری پناہ گاہیں ہیں۔
3- مغربی میڈیا میں اسلام کی مجہول، پر اسرار وجامد شبیہ، جبکہ اسلامی دنیا میں کسی بھی طرح کی تبدیلی پر انتباہات موجود ہیں، مغرب کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلامی دنیا میں ہونی والی کسی بھی طرح کی تبدیلی کو بر وقت گھیرے میں لے لیا جائے جس کی وجہ سے اسلام اور مغرب کا تعلق حفاظتی شکل اختیار کر گیا ہے۔
4- مغرب کے بارے میں ہمارے خیالات نہ صرف پہلے بلکہ آج بھی جعلی ہیں، ہم نے مغرب میں شر دیکھا مگر اس میں موجود ترقی نہیں دیکھی، اور چونکہ شیطان کا عمل بھی اللہ کے ارادے کا ایک حصہ ہوتا ہے، لہذا مغرب کے شر کو کوئی نہیں روک سکتا، کوئی بھی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم ناقدانہ علمی حس کے مالک نہیں بن جاتے اور اپنے کاندھوں پر سے مغرب کا بوجھ اتار نہیں پھینکتے۔
5- مذہبی اصلاح کی تحریک کی ناکامی جس کی قیادت سر سید احمد خان، جمال الدین الافغانی، محمد عبدہ ودیگر نے کی، اس کے علاوہ ایسی جدید فقہ کی عدم دستیابی جو اسلامی دنیا کو اس نئے زمانے کے وسط میں لا کھڑا کرے جس میں آج ہم جی رہے ہیں، اس جدید فقہ کی اب تک عدم دستیابی کی ایک وجہ اجتہاد کے دروازے بند کرنا ہے کہ جس چیز کو سلف نے بند کردیا خلف اسے کھولنے کے مجاز نہیں، لہذا اسلام کی جدید فقہ کی قیادت راشد الغنوشی، حسن ترابی، یوسف القرضاوی، عبد العزیز بن باز اور عبد العزیز آل الشیخ جیسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جس کا لب لباب مغرب کی تکفیر اور اس کی خامیاں اجاگر کرنا ہے وہ بھی ترقی کی طرف ایک بھی قدم بڑھائے بغیر۔
6- “دینی عالم” کے کردار کی تخلیق، “علمائے دین” کا ایک طبقہ تخلیق کیا گیا جس کے ہاتھ میں دینی علم کے حقائق ہیں، اس علم پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ان کی مخالفت کرنے والے ہر شخص/گروہ کو کافر قرار دے دیا اور ان کا قلع قمع یا تو براہ راست کیا یا حاکموں کو ان کا دشمن بنا کر کیا، اس طرح سیاسی مقتدرہ کی اندھی اطاعت کو مذہبی مقتدرہ اور مقدس مُتون کی اطاعت بنا دیا گیا۔
7- اپوزیشن کی تکفیر جس کی آزادی اظہار رائے کی ضمانت کئی آیات میں خود قرآن دیتا ہے، جیسے:
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ - دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے - البقرۃ 256
وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ - اور کہدو کہ لوگو یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے - الکہف 29
کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ - ہر شخص اپنے کرتوتوں کے باعث گرفتار ہو گا - المدثر 38
تاہم اپوزیشن کی تفکیر جعلی احادیث کے ذریعہ کی گئی جو مخصوص سیاسی مقاصد کے پیش نظر اموی دور میں پھیلائی گئیں تاکہ بر سر اقتدار طبقہ کو جواز اور اپوزیشن کے کردار کو دبایا جاسکے، جیسے:
“من اراد ان یفرق امر ہدہ الامہ وہی جمیع فاضربوا عنقہ کائناً من کان”
“جو اس امت کے معاملہ میں تفرقہ ڈالنا چاہے جبکہ وہ متحد ہوں تو اس کی گردن ماردو چاہے وہ کوئی بھی ہو”
“اسمع لحاکمک واطعہ وان ضرب ظہرک واخذ مالک”
“اپنے حاکم کی بات مانو اور اس کی اطاعت کرو چاہے وہ تمہاری پیٹھ پر مارے اور تمہارا مال چھین لے”
اور یہ حدیث جو حضرت حسن البصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:
“لا تعصوا اولی الامر منکم فان عدلوا فہم الاجر وعلیکم الشکر وان بغوا فعلیہم الوزر وعلیکم الصبر فہو امتحان من اللہ یبتلی بہ من یشاء من عبادہ فعلیکم ان تتقبلوا امتحان اللہ بالصبر والاناۃ لا بالثورۃ والغیظ”
“تم میں سے جو تمہارے ولی امر ہیں ان کی نافرمانی نہ کرو، اگر وہ انصاف کریں تو انہیں اجر ہے اور تم پر شکر لازم ہے، اور اگر وہ نا انصافی کریں تو ان پر گناہ ہے اور تم پر صبر لازم ہے، یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے وہ جسے چاہے اپنے بندوں کو اس میں مبتلا کردیتا ہے، تمہیں اللہ کے امتحان کو صبر سے قبول کرنا چاہیے ناکہ غصہ سے”
“القدریہ مجوس ہذہ الامہ”
“قدریہ اس امت کے مجوسی ہیں”
آخری حدیث میں معتزلہ کو شکار بنایا گیا ہے، یاد رہے کہ قدریہ یا معتزلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود ہی نہیں تھے کہ ان پر یہ حدیث کہی جائے، ایسی احادیث کو مذہبی مقتدرہ کی طرف سے خاص طور پر اموی اور بعد میں عثمانی دور میں خوب پھیلایا گیا اور سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے۔
8- بیسویں صدی کے پہلے نصف کے مقابلے میں دوسرے نصف میں مذہبی رواداری کے فقدان کی وجہ سے اسلامی دنیا میں سیکولر طرز کی ترقی ممکن نہ ہوسکی۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں کون اپنے الحاد کا اعلان کر کے “میں ملحد کیوں ہوں؟” جیسی کتاب لکھ سکتا تھا جیسا کہ اسماعیل ادہم نے 1937 میں کیا اور ازہر کے علماء نے اسے روادارانہ جواب دیا؟
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سلامۃ موسی کی طرح کون کہہ سکتا تھا کہ: “توحید یہود اور عرب جیسی بدو قوموں کا مذہب ہے جو یونانیوں اور رومنوں کی طرح بت تراشی کے فن میں ماہر نہیں تھے لہذا وہ ایک ایسے خدا پر ایمان لے آئے جو جہاں وہ جائیں ہر جگہ پہلے سے موجود ہو اور انہیں بت نہ اٹھانا پڑیں؟”
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں زکی الارسوزی کی طرح کس میں یہ کہنے کی ہمت تھی کہ: “جاہلیت کی اخلاقیات اسلامی اخلاقیات سے اعلی وارفع ہیں؟”
الغرض کہ بیسویں صدی کے پہلے نصف کی ایسی دسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جب اسلام میں رواداری موجود تھی مگر دوسرے نصف کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی، نصر حامد ابو زید بمشکل تمام اپنی گردن بچا کر بھاگے، فرج فودہ کو مصری دہشت گردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا، لبنان کے مہدی عامل اور حسین مروۃ کو شیعہ دہشت گردوں نے موت کی نیند سلادیا، سودان کے محمد احمد محمود کو حسن ترابی اور جعفر النمیری نے پھانسی دے دی، مصر کے نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کا بھی یہی انجام ہونے کو تھا مگر وہ محفوظ رہے۔
مستقبل میں ان “غیر مذہبی” اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جس نے ہمیں ابن سینا، ابن رشد، ابن خلدون، فارابی اور کندی کی امت سے بن لادن، ظواہری، زرقاوی اور ابو ایوب کی امت میں بدل دیا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/terrorism-gift-islamic-culture-that/d/13822