ناستک درانی، نیو ایج اسلام
16اگست، 2013
❞سارے جانور یکساں ہوتے ہیں، مگر بعض جانور دوسروں سے زیادہ یکساں ہوتے ہیں❝
(ALL ANIMALS ARE EQUAL, BUT SOME ANIMALS ARE MORE EQUAL THAN OTHERS)
(جارج آرویل (George Orwell) کے ناول اینمل فارم (Animal Farm) سے اقتباس)
--------
شاید برطانوی فلسفی ہربرٹ سپینسر (Herbert Spencer) کا یہ خیال سب سے زیادہ شہرت کا حامل ہے کہ زمین پر وقت کا گزرنا ہی بذات خود ❞بقائے اصلح❝ (Survival of the Fittest) کے اصول کو لاگو کرنے کے لیے کافی ہے، بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جانداروں میں نظریہ ارتقاء کے بانی چارلس ڈارون (Charles Darwin) نے ❞بقائے اصلح❝ کی اصطلاح وضع کی تھی لیکن یہ بات غلط ہے، سپینسر وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ اصطلاح استعمال کی تھی اگرچہ اس نے اس کا استعمال معاشروں کی ترقی کے حوالے سے کیا تھا نا کہ جانداروں کے ارتقاء کے حوالے سے۔
حقیقت یہ ہے کہ سپینسر کے نظریات جنہیں اس کی زندگی کے آخری ایام میں ❞معاشرتی ڈاروینیت❝ کہا جانے لگا تھا اس اعتقاد کے گرد گھومتے تھے کہ اگر انسانوں کو آپس میں پوری آزادی سے مقابلہ کرنے دیا جائے تو آخر کار سب سے زیادہ عقل مند اور پیداواری صلاحیت رکھنے والے افراد ہی باقی بچیں گے، ایک ایسی دنیا جس میں مسابقت کی سخت کھلی فضاء پائی جاتی ہو اور اس میں باہر سے مداخلت نہ کی جاتی ہو ایک ایسی دنیا ہے جو اچھی صلاحیتوں کی ضمانت دیتی ہے اور خودکار طور پر اپنے (باقی ماندہ) افراد کی معاشی سطح مسلسل بہتر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انیسویں صدی کے وسط میں سپینسر کے نظریات نے صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور مغربی امراء واشرافیہ میں بہت مقبولیت حاصل کی، اس زمانے کی اشرافیہ کا سپینسر اور اس کے نظریات کے تئیں پُرجوش ہونا قدرتی بات تھی، انہیں اس کے معاشرتی تجزیوں میں ایسے افکار کے لیے قائل کرنے والے علمی اور منطقی جواز نظر آتے تھے جو کہتے ہیں: ❞بڑی کمپنیوں کو ہر حال میں اور چاہے کچھ بھی ہوجائے بڑا رہنا چاہیے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے❝ اور ❞حکومت کو کبھی بھی غریبوں اور چھوٹی کمپنیوں کی مدد کرنے کے لیے مداخلت نہیں کرنی چاہیے❝، اس کی مثال تیل کی صنعت سے وابستہ اور امریکی جریدے فارچیون (Fortune) کے مطابق تاریخ کے سب سے امیر ترین شخص جان راکفیلر (John Rockefeller) کی دی جاسکتی ہے جو سپینسر کے نظریات سے اس قدر متاثر تھا کہ ہر اتوار اپنے ایک سکول میں وہ بچوں کو سپینسر کے نظریات پر مختصر لیکچر دیا کرتا تھا، اسے یقین تھا کہ اس طرح وہ ان کی ❞سچی اور علمی سرمایہ دارانہ❝ بنیادوں پر پرورش کر رہا تھا، راکفیلر سپینسر کے اس نظریے کا بالخصوص بڑا پرستار تھا جو کہتا ہے کہ بڑی کمپنیوں کی نمو آخر کار ❞بقائے اصلح❝ کے اصول کی اقتصادی اور معاشرتی تجلی ہے۔
--------
دس اپریل سنہ 1912 کو ساؤتھمپٹن (Southampton) کی برطانوی بندرگاہ سے ٹائٹینک نامی جہاز نے بحرِ اوقانوس (Atlantic Ocean) میں نیویارک کی طرف اپنا پہلا سفر شروع کیا، یہ ایک ضخیم اور ٹاٹھ دار پُرشکوہ جہاز تھا جو نئے صنعتی دور کے صنعت کاروں کے لیے افتخار کی علامت تھا، کئی منزلہ اس جہاز میں کوئی 2300 مسافر سوار تھے، ان میں سے بعض مسافروں کو جہاز میں اعلی درجہ کی وہ سہولتیں حاصل تھیں جو آج کے بیشتر مسافر تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن جہاز کی نچلی منزلیں غریبوں اور مہاجروں سے بھری پڑی تھیں جو اپنے برے حالات سے یہ سوچ کر مقابلہ کر رہے تھے کہ نئی دنیا (امریکہ) میں پہنچنے سے قبل یہ ان کی آخری مشقت ہے جس کے بعد اس نئی دنیا میں ان کے لیے نئے مواقع اور بہتر زندگی کے دروازے کھل جائیں گے۔
اپنے سفر کے آغاز سے دو دن بعد جہاز تقریباً اپنے ہی حجم کے برابر ایک برفانی تودے سے ٹکرا گیا اور اس کی نچلی منزلوں میں پانی بھرنا شروع ہوگیا، اگلے پچیس منٹوں میں جہاز کے مسافر بچاؤ کشتیوں (Lifeboats) کی تلاش میں اتاولے ہو رہے تھے، صبح کے دو بجے ٹائٹینک کا اگلا حصہ پانی میں ڈوب چکا تھا جبکہ اس کا پچھلا حصہ پانی سے اوپر اٹھا ہوا تھا، جس دوران اوپری منزلوں کے امیر اور اشرافیہ طبقہ کے لوگ محدود بچاؤ کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگ رہے تھے، نچلی منزلوں میں موجود جہاز کے عملے کے غریب لوگ ہر طرف سے پانی میں گِھر چکے تھے اور اپنی جان بچانے سے قاصر تھے، آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں یہ سارے سوائے ان میں سے چند خوش قسمت لوگوں کے ہمیشہ کے لیے سمندر کی گہرائیوں کے قیدی بن گئے تھے، خوابوں کی نئی دنیا کی ٹکٹ خریدنے والے ان غریبوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ سمندر ان کی آخری آرامگاہ بن جائے گا وہ بھی ایک ایسے جہاز کے سفر میں جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ سمندر سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
اگلے کچھ دنوں تک ٹائٹینک کے ڈوبنے اور قریب 1600 مسافروں کی ہلاکت کی خبر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکزی تھی، تاہم اگر ہم اس حادثہ کو گہری معاشرتی جانچ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ٹائٹینک پر مسافروں کی بعض ❞انواع❝ کے پاس دوسری ❞انواع❝ کے مقابلے میں بچ نکلنے کے زیادہ مواقع تھے، اوپری منزلوں پر رہنے والے اشرافیہ طبقے کے لوگ جنہیں جہاز کی سطح پر گھومنے پھرنے کا حق حاصل تھا ان میں سے ساٹھ فیصد بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اس لیے نہیں کہ بچاؤ کشتیاں ان سے زیادہ قریب تھیں، اس لیے بھی نہیں کہ وہ جسمانی طور پر مضبوط تھے یا انہیں تیرنا آتا تھا یا وہ نچلی منزلوں میں رہنے والے لوگوں سے زیادہ عقل مند تھے یا کسی طور ان سے برتر تھے، بلکہ محض اس لیے کہ جہاز کی سطح پر ہونے کی وجہ سے انہوں نے انتباہی الارموں کی آواز سب سے پہلے سنی تھی اور جہاز کے ڈوبنے کے ابتدائی مراحل بھی فوراً دیکھ لیے تھے، دوسرے درجہ کے مسافروں میں سے کوئی 36% فیصد اپنے جان بچانے میں کامیاب رہے جبکہ تیسرے درجہ کے مسافروں میں سے محض 24% فیصد ہی اپنی جان بچا سکے۔
اپنے پہلے اور آخری سفر میں ٹائٹینک جہاز پر موجود یہ طبقاتی تفریق اپنے اندر کمروں کی لگژری، خدمات کی بہتری اور کہانے کے معیار سے کہیں زیادہ اہم اور بڑا معنی پوشیدہ رکھتی تھی۔۔۔ یہ معنی تھا زندگی اور موت کے درمیان حدِ فاصل۔
URL: