ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
18 دسمبر، 2013
حضرت مقاتل بن سلیمان سے مروی ہے کہ: ”اللہ تعالی نے اسلام کے شروع میں دو رکعت صبح اور دو رکعت شام فرض کی تھی“ 1، یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے شروع میں کعبہ میں جاتے اور ضحی کی نماز پڑھتے، اس نماز کا قریش انکار نہیں کرتے تھے، ان کے صحابہ اگر عصر کا وقت آتا تو اطراف میں اکلیے یا دو دو کے گروہ میں منتشر ہوجاتے اور شام کی نماز پڑھتے، وہ ضحی اور عصر کی نماز پڑھتے تھے جو شام کی نماز ہے پھر پانچ نمازیں نازل ہوئیں 2، چنانچہ مسلمانوں کی اولین نماز دو طرح کی نمازیں ہیں: دن کے شروع کی نماز جسے وہ ”صلاۃ الضحی“ کہتے تھے، اور عصر کی نماز جسے وہ ”صلاۃ العشی“ اور عصر کی نماز کہتے تھے 3، علماء کی اکثریت کی یہی رائے ہے۔
”المزنی“ نے ذکر کیا ہے کہ نماز اسراء سے پہلے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک نماز اور سورج طلوع ہونے سے پہلے دوسری نماز تھی، اس رائے کے حامیوں نے قرآن میں باری تعالی کے اس قول سے استدلال کیا: ”وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ“ (اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو ) 4۔
مذکورہ دونوں نمازیں دو دو رکعت پر مشتمل تھیں، اسی لیے انہیں ”صلاۃ الرکعتین“ یعنی دو رکعت کی نماز کہا گیا 5، یہ نماز حضرت ام المؤمنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی زندگی میں فرض تھی 6، مسلمان جتنا عرصہ مکہ میں رہے، ہجرت تک وہ نماز کو دو رکعت پڑھتے رہے، پھر ہجرت کے پہلے سال میں ان میں اضافہ کیا گیا اور اس نماز کو سفر کی نماز کے طور پر مخصوص کردیا گیا جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔
اور یہ جو میں نے ذکر کیا ہے کہ نماز دو نمازیں تھی، اور ہر نماز اسراء تک دو رکعت پر مشتمل تھی، اور پھر اسراء کے بعد پانچ نمازوں کا حکم نازل ہوا، اور ان پانچ نمازوں میں ہر نماز صرف دو رکعت پر مشتمل تھی، اکثر علماء کی رائے ہے، بلکہ اس پر تقریباً اجماع ہے، کیونکہ وہ خبریں جو یہ روایت کرتی ہیں کہ نمازوں کا حکم وحی کے نزول کے پہلے دن ہی دے دیا گیا تھا ان کے اس قول سے متضاد ہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ نمازوں کا حکم اسراء میں دیا گیا تھا، اور یہ بھی کہ وہ اسراء سے قبل دو نمازیں پڑھا کرتے تھے یعنی ضحی اور عصر کی نماز جسے صلاۃ العشی بھی کہا جاتا ہے 7۔
چنانچہ اسراء کی رات جن پانچ فرض نمازوں کا حکم دیا گیا ان نمازوں میں ہر نماز دو رکعت پر مشتمل تھی 8، رہی بات ان روایات کی جن میں کہا گیا ہے کہ ان کا حکم اسراء سے قبل دیا گیا تھا تو اکثر اہلِ علم اس سے متفق نہیں ہیں، بلکہ اکثریت کا اس امر پر تقریباً اجماع ہے کہ پانچ نمازیں اسراء کی رات کو ہی فرض کی گئیں تھیں۔
رہا ”ابن حجر الہیتمی“ تو جیسا کہ میں نے ان کے حوالے سے پہلے ذکر کیا ہے کہ: لوگوں کو صرف توحید کا مکلف بنایا گیا، یہ حالت ایک طویل عرصہ تک رہی، پھر ان پر وہ نماز فرض کی گئی جو سورہ مزمل میں مذکور ہے، پھر وہ سب پانچ نمازوں سے منسوخ ہوگیا، پھر فرائض میں اضافہ اور تسلسل مدینہ میں ہوا، پھر جب اسلام ظاہر ہوا اور دلوں پر چھا گیا تو جس قدر اس کے ظہور میں اضافہ ہوتا فرائض بڑھتے جاتے“ 9، بعض علماء کا خیال ہے کہ سورہ مزمل مکی سورتوں میں ترتیبِ نزول کے اعتبار سے تیسری سورت ہے ما سوائے اس کا آخر مکی ہے 10، بیسویں آیت وہی آیت ہے جس میں ”وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ“ وارد ہوا ہے، میرا نہیں خیال کہ ”ابن حجر“ کی بات میں یہ آیت مقصود تھی، بلکہ ان کا اشارہ اس کے مکی حصہ کی طرف تھا جس میں رات کے قیام اور قرآن کی ترتیل کا ذکر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ یہ کرتے تھے، پھر مدینہ میں وحی نازل ہوئی اور اس سورت کی بیسویں آیت میں انہیں اور ان کے صحابہ کو اس سے اعفاء دے دیا گیا کیونکہ اس میں مشقت زیادہ تھی، آیت نے واضح کردیا کہ انہیں کیا کرنا ہے: ”إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّـهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ“ (تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔ اور خدا تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی)۔
ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ وحی سے قبل اور بعد اور سورہ فاتحہ کے نزول سے قبل دو رکعات کی نماز میں کیا پڑھا کرتے تھے کیونکہ سورہ فاتحہ بہت دیر سے نازل ہوئی تھی 11۔
حوالہ جات:
1- السیرۃ الحلبیۃ 302/1، دیار بکری کی تاریخ الخمیس 317/1۔
2- السیرۃ الحلبیۃ 302/1، ”واقدی کہتے ہیں: وہ ضحی اور عصر کی نماز پڑھتے تھے، پھر ہجرت سے قبل پانچ نمازیں نازل ہوئیں، اور نماز دو دو رکعات ہوتی تھی، اس کی تکمیل مقیم کے لیے مدینہ میں نازل ہوئی اور مسافر کی نماز دو دو رکعات ہی رہی“، البلاذری، انساب الاشراف 113/1 اور اس سے آگے، 116۔
3- المقریزی، امتاع 17/1۔
4- الروض الانف 162/1۔
5- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔
6- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔
7- المقریزی، امتاع 29/1 اور اس سے آگے، ابن سید الناس 140/1 اور اس سے آگے۔
8- ابن سید الناس، عیون الاثر 140/1 اور اس سے آگے۔
9- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔
10- زنجانی کی تاریخ القرآن 36۔
11- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔
URL for Part 1:
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for Part 6:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/history-namza-islam-(part-8)/d/34896