New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 11:36 AM

Urdu Section ( 26 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

History of Namaz in Islam- Part 5 (اسلام میں نماز کی تاریخ - اسلام میں نماز (5

 

ناستک درانی ، نیو ایج اسلام

27 نومبر، 2013

نماز کے معنی، تعداد اور اوقات پر کچھ روشنی ڈالنے کے بعد لازم ہے کہ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آئیں اور وہ ہے اسلام میں نماز کی تاریخ، میں کہوں گا کہ: اسلام میں نماز کا حکم یک مشت نہیں آیا، بلکہ اس کا حکم بتدریج آیا، پہلے مکہ میں اور پھر مدینہ میں، یوں یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یثرب ہجرت کرنے کے بعد مکمل ہوئی، ہم دیکھیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں نماز دو رکعات پر مشتمل ہوتی تھی، جبکہ مدینہ میں ان کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور اس طرح یہ دو نمازیں ہوگئیں، نمازِ مقیم اور نمازِ سفر، اسی طرح مدینہ میں ایسی نمازیں بھی ادا کی گئیں جن کا حکم مکہ میں نہیں آیا تھا، یہ سب نبوت کی نیچر کی وجہ سے ہوا جو بتدریج مدینہ میں جاکر مکمل ہوئی، نماز اسلام کے اہم ارکان میں سے ایک ہے اور اسلام کی ترقی کے ساتھ اس نے بھی ترقی کی۔

مسلمان ایک دن میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے، یہ اس پر لکھا گیا ایک فرض ہے جسے وہ مقررہ اوقات میں ادا کرتا ہے، بعض اہلِ سیرت بتاتے ہیں کہ نماز اسی وقت ہی شروع ہوگئی تھی جب جبریل علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ اللہ تعالی نے انہیں انسانوں اور جنوں کے لیے اپنا پیغام بر منتخب کیا ہے، سیرت دان بتاتے ہیں کہ اس وقت جبریل علیہ السلام نے انہیں وضوء اور نماز سکھائی، حضرت جبریل علیہ السلام نے وضوء کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہی کی طرح وضوء فرمایا، پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہی کی طرح نماز ادا کی، پھر جب ان سے وحی چلی گئی تو وہ ام المؤمنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں وضوء سکھایا جیسا کہ انہوں نے سیکھا تھا اور پھر جبریل کی نماز کی طرح ان کے ساتھ نماز ادا کی 1۔

کچھ اور روایات بھی ہیں جو سابقہ روایات سے پوری طرح ملتی ہیں سوائے اس دن کا تعین کرنے میں جس میں جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں وضوء اور نماز کا حکم دیا، ان روایات نے دن کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ اسے مبہم چھوڑ دیا 2 لہذا نماز کے فرض ہونے کے دن کے بارے میں ہم ان روایات سے کچھ کشید نہیں کر سکتے۔

نافع بن جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ”جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز فرض ہوئی تو جبرائیل آپ کے پاس آئے اور زوالِ آفتاب کے بعد آپ کو ظہر کی نماز پڑھائی، پھر جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا تو عصر کی نماز پڑھائی اور زوالِ آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی، پھر شفق غائب ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھائی اور طلوعِ فجر کے بعد ہی صُبح کی نماز پڑھائی، پھر دوسرے روز ظہر کی نماز آپ کو اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب دو مثل ہوا، اور مغرب کی نماز اسی وقت پڑھائی جس وقت روزِ گزشتہ پڑھائی تھی، اور عشاء کی نماز اُس وقت پڑھائی جب رات کی ایک تہائی گزر چکی تھی اور صبح کی نماز اس وقت پڑھائی جب خوب روشنی ظاہر ہوگئی تھی۔“ 3۔

نافع کی اس روایت میں ایسا کوئی متن نہیں ہے جس سے نماز کے فرض ہونے کے دن کا پتہ چلتا ہو، علماء میں مشہور یہ ہے کہ نماز اسراء کی رات کو فرض ہوئی تھی، اس رات ان پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں 4، تاہم انہوں نے اس رات کے وقت پر اختلاف کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ رات ہجرت سے تین سال پہلے تھی، جبکہ بعض دوسروں نے اسے ہجرت سے ایک سال قبل قرار دیا ہے، بعض لکھتے ہیں کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اکیاون سال اور نو ماہ تھی، یہ بھی آیا ہے کہ اسراء عقبہ میں انصار کے ساتھ بیعت کے دوران ہوئی تھی جبکہ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بعثت کے پندرہ ماہ بعد ہوئی تھی اس کے علاوہ کچھ دیگر اقوال بھی ہیں 5۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچوں نمازیں اس اختلافی مدت کے دوران ہی فرض ہوئی ہیں 6، اوپر اسراء کی بابت جو تذکرہ ہوا ہے اس کے پیشِ نظر ایک گروہ کا خیال ہے کہ اسراء سے قبل کوئی فرض نماز نہیں تھی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور نا ہی ان کی امت پر ما سوائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تہجد ادا کرتے تھے، اسراء کی رات پانچوں نمازوں سے رات کا قیام منسوخ ہوگیا 7۔

ابن حجر الہیتمی کہتے ہیں: ”لوگوں کو صرف توحید کا مکلف بنایا گیا، یہ حال ایک طویل عرصہ رہا، پھر ان پر وہ نماز فرض ہوئی جو سورہ مزمل میں مذکور ہے، پھر یہ سب پانچوں نمازوں سے منسوخ ہوگیا، پھر فرائض میں اضافہ اور تسلسل مدینہ میں ہوا، جب اسلام ظاہر ہوا اور لوگوں کے دلوں پر چھا گیا تب جس قدر اس کا ظہور بڑھتا فرائض اور ان کا تسلسل بڑھتا جاتا“ 8۔

حوالہ جات:

1- ابن ہشام 155/1، السیرۃ الحلبیۃ 252/1 اور اس سے آگے، ابن الاثیر 22/2، الطبری 304/2 دار المعارف، الروض الأنف 162/1 اور اس سے آگے۔

2- الطبری 307/2۔

3- سیرت ابنِ ہشام 156/1۔

4- ابن ہشام 246/1 اور اس سے آگے، التجرید الصریح 34/1 اور اس سے آگے، السیرۃ الحلبیۃ 301/1 اور اس سے آگے، تفسیر الطبری 4/15 اور اس سے آگے، تفسیر ابن کثیر 2/3 اور اس سے آگے۔

5- المقریزی، امتاع الاسماع 29/1، ابن سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر 140/1 اور اس سے آگے، تفسیر ابن کثیر 2/3 اور اس سے آگے۔

6- الروض الانف 162/1 اور اس سے آگے، 251 اور اس سے آگے۔

7- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔

8- السیرۃ الحلبیۃ 302/1۔

URL for Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-1/d/14330URL for Part 2:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-2/d/34490URL for Part 3:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-3/d/34528URL for Part 4:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-4/d/34567URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-5/d/34616

 

Loading..

Loading..