ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
12فروری، 2014
یہ نماز تب قائم کی جاتی ہے جب بارش نہ ہو رہی ہو، اہلِ اخبار کی روایات میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء میدانِ نماز میں پڑٖھتے تھے، بعض میں ہے کہ آپ اپنی چادر کو الٹ دیتے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے، آپ اپنی کسی بھی دعاء میں ہاتھ نہ اٹھاتے سوائے استسقاء کے 1۔
روایت میں تقریباً اجماع ہے کہ نمازِ استسقاء میں آپ اپنی چادر اس طرح الٹ دیتے کہ دائیں طرف کو بائیں اور بائیں طرف کو دائیں طرف کر لیتے، پیٹھ کے حصہ کو سامنے اور سامنے کے حصہ کو پیٹھ کی طرف کر لیتے، یہ چادر سیاہ تھی 2، یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے وعدہ فرمایا کہ وہ میدانِ نماز میں باہر نکلیں گے، چنانچہ جب سورج نکل آیا تو آپ اس طرح برآمد ہوئے کہ سراپا خشوع وتضرع بنے ہوئے تھے، یکسر خاکساری اور انکسار کا پہلو لیے ہوئے 3، جب آپ میدانِ نماز میں پہنچے تو منبر پر چڑھے، خطبہ دیا، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور تضرع وانابت اور دعا میں مشغول ہوگئے اور ہاتھ اونچا کرنے میں مبالغہ کیا یہاں تک کہ آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوگئی۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم استسقاء کے لیے کسی خاص مقام کی پابندی نہیں کرتے تھے، آپ نے جمعہ کے دن منبر پر اپنے خطبہ کے دوران استسقاء فرمایا، میدانِ نماز میں استسقاء فرمایا، اپنی مسجد کے منبر پر بھی استسقاء فرمایا اور جمعہ کے علاوہ دنوں میں بھی آپ نے مجرد استسقاء فرمایا ہے، اس استسقاء میں آپ سے کوئی نماز منقول نہیں، آپ نے مسجد میں بیٹھے بیٹھے بھی اس طرح استسقاء فرمایا کہ ہاتھ اٹھائے اور اللہ سے دعا فرمائی، آپ نے زورار کے قریب بھی دعا مانگی جو مسجد کے دروازے سے باہر ہے اور جسے اس وقت باب السلام کہا جاتا تھا، آپ مسجد کے دائیں جانب اتنے فاصلہ پر تھے جتنی دور پتھر پھینکا جاسکے، آپ نے اپنی غزوات میں بھی استسقاء فرمایا، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ استسقاء بغیر نماز کے بھی تھا یعنی صرف دعا 4۔
جاہلیوں نے بھی استسقاء کے لیے نماز پڑھی، جب بارش نہ ہوتی تو وہ گائے جمع کرتے اور ان کی دموں اور پچھلی ٹانگوں کے گھٹنوں سے سلع درخت کی لکڑیاں باندھ دیتے اور پہاڑ پر چڑھ کر اسے آگ لگا دیتے اور دعوی کرتے کہ یہ بارش کے اسباب میں سے ہے، اس آگ کو وہ بارش دینے والی آگ ”نار الاستمطار“ کہتے 5۔
اگرچہ بارش دینے والی یہ آگ صورت میں نمازِ استسقاء سے مختلف ہے تاہم عقیدے یا تصور کے اعتبار سے یہ اسی سے ملتی ہے، نمازِ استسقاء دیگر قوموں ومذاہب کے ہاں بھی پائی جاتی ہے، یہ یہودیت اور نصرانیت میں رائج ہے، رومن اور یونانی بھی نمازِ استسقاء پڑھا کرتے تھے، اور اگر نماز کے باوجود بارش نہ ہوتی تو وہ اس کے لیے جادو ٹونہ کی طرف متوجہ ہوجاتے 6۔
نمازِ خسوف وکسوف
ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال کے ماہ جمادی الآخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ خسوف پڑھی 7، آپ کے زمانے میں جب سورج گرہن ہوا تو آپ نے نمازِ کسوف بھی ادا کی 8۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب سورج گرہن ہوا تو ”الصلاۃ جامعۃ“ کی منادی کی گئی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو اعلان ہوا کہ نماز ہونے والی ہے (الصلاۃ جامعۃ) (اس نماز میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کیے اور پھر دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے 9، اور اس سے مختلف روایات بھی مذکور ہیں 10۔
ذکر ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دہشت زدہ ہوکر اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے، یہ گرہن دن کے پہلے حصہ میں ہوا تھا، آپ نے دو رکعت پڑھیں 11، ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے تھے، دونوں رکعت میں آپ نے دو رکوع اور چار سجدے مکمل کیے 12، رکعتوں اور سجدوں کی تعداد کے حوالے سے دیگر روایات بھی مروی ہیں 13۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن بھی سورج گرہن ہوا، اس پر لوگوں نے کہا کہ: سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گرہن ہوا ہے، آپ نے چار سجدوں میں چھ رکعت نماز پڑھائی 14، مذکور ہے کہ آپ نے نماز کے بعد لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت اور زندگی کے لیے گرہن نہیں ہوتے، اگر تم یہ دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور تکبیر کرو اور صدقہ کرو 15، یا پھر اس طرح خطاب کیا: کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس سورج کا گرہن اور اس چاند کا گرہن اور ستاروں کا اپنے مطلع سے زوال اہلِ زمین کے عظیم لوگوں کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں جن سے وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان میں سے کون توبہ کرتا ہے 16، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اس خطبے میں اس شخص کے لیے جواب ہے جس نے کہا کہ: یہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے گرہن ہوا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف وخسوف مدینہ میں اپنی مسجد میں ادا کی، ثقات میں سے کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آپ نے ان نمازوں کو کسی کھلے میدان میں ادا کیا ہو۔
حوالہ جات:
1- زاد المعاد 110/2۔
2- زاد المعاد 126/1۔
3- زاد المعاد 126/1۔
4- زاد المعاد 126/1۔
5- صبح الاعشی 409/1، خزانۃ الادب 212/3، بلوغ الارب 164/2۔
6- J. G. Frazer, The Golden Bough, I, 89.
7-المقریزی، امتاع الاسماع 194/1۔
8- صحیح مسلم 27/3۔
9- صحیح مسلم 34/3۔
10- صحیح مسلم 30/3، مسند الامام ابی حنیفہ 84۔
11- زاد المعاد 123/1۔
12- زاد المعاد 123/1۔
13- زاد المعاد 124/1۔
14- زاد المعاد 125/1۔
15- زاد المعاد 124/1۔
16- زاد المعاد 124/1۔
URL for Part 20:
https://www.newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-fear-prayer-part-20/d/35575
URL of this article:
https://www.newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-namaz-rains-part-21/d/35714