ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
3ستمبر، 2013
گزشتہ ہفتہ کی عالمی سرخی “امریکہ کا شام پر ہوائی حملہ” تھی، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی فیصلہ ساز تردد کا شکار ہیں، امریکی اور برطانوی آئین اوباما اور کیمرون کو قومی سلامتی کی آڑ میں کانگرس یا ہاؤس آف کامن سے رجوع کیے بغیر اس طرح کے محدود حملہ کی اجازت دیتے ہیں، بلکہ اوباما نے تو اسے “امریکہ کی قومی سلامتی” قرار دے ہی دیا ہے، ایسے میں امریکی کانگرس اور برطانوی ہاؤس آف کامن سے رجوع کرنے کی حقیقی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
امریکی انتظامیہ کے لیے یہ بہت مشکل فیصلہ ہے، ایک طرف خطہ میں امریکی مفادات ہیں تو دوسری طرف روس اور چین کا حملہ کے خلاف فیصلہ کن موقف ہے جبکہ جرمن اور آسٹریلوی کوئی خاص جوش وخروش کا مظاہر نہیں کر رہے حتی کہ برطانویوں اور فرانسیسیوں کا جوش وخروش بھی امریکی قیادت کے پیچھے چھپا ہوا ہے کہ “اگر آپ آگے بڑھیں گے تو ہم بھی پیچھے آئیں گے”، اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی شامی قیادت کا خاتمہ چاہتا ہے؟ در حقیقت شروع سے ہی تمام تر امریکی مواقف اس بات کی طرف دلالت کرتے آرہے ہیں کہ وہ شام پر کنٹرول تو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر بیک وقت وہ حالیہ شامی قیادت سے دستبردار بھی نہیں ہونا چاہتا جو بہرحال ایک الگ بحث ہے، یہاں ہم ایک ایسی حقیقت پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں جسے شامی، عربی اور عالمی رائے عامہ میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔
میرے خیال میں اصل سوال جس سے اوباما کو خدشات ہیں اور جس کا اظہار انہوں نے امریکی قوم سے بھی نہیں کیا وہ کیمیائی ہتھیاروں کے فرانسیسی ماہر رالف ٹریپ Ralf Trap کی طرف سے اٹھایا گیا ہے: “کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اعصابی گیس کے ذخیرہ کو زمین پر فوجی ماہرین کی ٹیم بھیجے بغیر مکمل طور پر تباہ کرنے کی ضمانت دی جاسکے؟” ٹریپ کا جواب ہے: “نہیں”؟!
ٹریپ اور اس کے ماہرین کی ٹیم نے یہ یقین دلایا ہے کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ اس قسم کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کی تباہی وسیع پیمانے پر زہر آلودگی کا سبب نہیں بنے گی جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے خاص طور سے جبکہ شام کے کیمیائی ہتھاروں کے ذخائر بڑے بڑے شہروں کے قریب واقع ہیں جیسے دمشق، حمص اور حماۃ، ماہرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بہترین حالات میں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ امریکہ کی انٹیلی جینس کی معلومات درست ہیں تب بھی کم از کم 20% سے 30% فیصد زہریلا مواد بشمول اعصابی گیس ارد گرد کے علاقوں میں پھیل جائے گی۔
تاریخی طور پر ایسا ایک بار عراق میں ہوچکا ہے جب اتحادی افواج نے 1991 میں ایک ہوائی حملہ میں مثنی میں واقع ایک ذخیرہ کو تباہ کردیا تھا جس میں سیرین گیس کے 2500 راکٹ موجود تھے، بیس سال بعد آج بھی یہ خطہ موت کا علاقہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں کوئی بھی جاندار نہیں جاسکتا۔
ہوائی حملہ میں مسئلہ یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرہ کی جگہ کے تعین میں غلطی کی شرح چند میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جس کے لیے مخصوص درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار کے علاوہ ذخیرہ کی جگہ کی کنکریٹ کی دیواروں کا درست ترین اندازہ بھی شامل ہے تاکہ کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے تیار کیا گیا میزائل درست ترین جگہ پر جا کر لگے اور اندازے کے مطابق جل کر نظریاتی طور پر 2100 درجہ حرارت تک جا پہنچے، ان سارے عوامل کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا یا کروانا اگر نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے، یہ ایک بہت بڑا رسک ہے اور ذرا سی غلطی زہریلی گیس کے پھیلنے کا سبب بنے گی جس کی نا تو کوئی بو ہے اور نا ہی کوئی رنگ، ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا شام روسی تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی طرح کی دھوکہ دہی سے کام لے سکتا ہے؟ اس سیناریوں میں دھوکہ دینے کے بہت سارے آسان امکانات ہیں، ذخیرہ کی جگہ کو چند میٹر کھسکا دیں، یا جب میزائل چھوڑ دیا جائے تو ذخیرہ کی چھت کھول دی جائے کیونکہ میزائل کا پہلا کام کنکریٹ کی چھت کو توڑنا ہے ناکہ کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے حرارت پیدا کرنا اس طرح امریکی مشین کو آسانی سے دھوکہ دیا جاسکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شام کیمیائی ہتھیاروں کو سکڈ میزائلوں کے ساتھ رکھ دے یا انہیں قیدیوں سے بھری جیلوں میں منتقل کردے اس صورت میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوں گے، الزام امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر آئے گا اور شام اور روس کی فتح ہوگی۔
بشار کی حکومت کی اقتدار کی ہوس نے شام کی یہ حالت کردی ہے کہ اب اسے مشرق ومغرب دونوں طرف سے مفاد پرستوں نے گھیر لیا ہے جبکہ اپوزیشن اقتدار کی ان کرسیوں پر بیٹھنے کی تیاری میں مصروف ہے جو بشار کی حکومت اپنے پیچھے چھوڑ جائے گی مگر فوج اور نام نہاد پیٹرو ڈالر اسلامی جنگجوؤں میں گھری عوام کو کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ “کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر پر حملہ کا کیا مطلب ہے؟” عرب میڈیا بھی یہ سوال اٹھانے سے کترا رہا ہے اور شامی اپوزیشن کے ساتھ مل کر یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ: “شام کی حکومت نے ایک لاکھ شامی قتل کردیے لہذا اگر امریکی حملہ سے دس بیس ہزار لوگ مرتے ہیں اور بدلے میں ایسی آمرانہ اور ظالم حکومت سے جان چھوٹتی ہے تو ہمیں امریکی مجاہدین کو اللہ، شام اور اوباما کے لیے خوش آمدید کہنا چاہیے”۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/attacking-syria-so-difficult-/d/13328