New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 10:41 AM

Urdu Section ( 26 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Mutual Relationship of Poverty and Fundamentalism in Islamic World اسلامی دنیا میں بنیاد پرستی اور غربت کا آپسی تعلق

 

ناستک درّانی، نیو ایج اسلام

27ستمبر، 2013

ماضی میں مسیحی بنیاد پرستی کا پھیلاؤ دنیا کے بڑے شہروں کے اطراف، دیہات اور غریب علاقوں میں ہوا، کچھ ایسی ہی صورت اسلامی بنیاد پرستی کی بھی ہے جو مذہبی، معاشرتی اور سیاسی تنظیموں کے ذریعے پھیلی، بنیاد پرستی بنیادی طور پر غریب علاقوں میں ہی پھلتی پھولتی ہے جہاں سادہ لوح لوگ فوری اور سادہ ایمان کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ ان کے بیشتر معاشرتی اور مالی مسائل حل ہوسکیں، یہ لوگ سیاست کے کھیل اور اس کی تبدیلیوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے، بنیاد پرستی کے قفص میں جینے والا طمانیت، راحت اور کل سے پُر امید ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سلفیوں کی طاقت بشمول اخوان المسلمین کے (مثال کے طور پر) بڑے شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں کے کسانوں اور مزدوروں سے پھوٹتی ہے، شہروں میں بنیاد پرستی کی تلقین دیہاتوں کے مقابلے میں اتنی اثر پذیر نہیں کیونکہ شہروں میں تعلیم کی شرح زیادہ جبکہ غربت کی شرح کم ہوتی ہے اور یہ چیز دیہاتوں اور مضافاتی علاقوں میں مفقود ہوتی ہے۔

تاہم اس سے پہلے کہ ہم اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ: کیا بنیاد پرستی اسلامی دنیا کی غربت کی وجہ ہے؟ آئیے اُس بُنیاد پرستی کے کچھ پہلؤوں کی پہچان حاصل کر لیں جس پر ہم اس وقت بات کر رہے ہیں۔

بنیاد پرستی کیا ہے؟

عرب دنیا کے بعض مفکرین جن میں شام سے تعلق رکھنے والے ہاشم صالح بھی شامل ہیں کہتے ہیں کہ بنیاد پرستی عقائد کا ایک نظام ہے جو اپنے آپ میں کانٹے دار بُلند دیواروں کے ذریعہ بند ہے، مخالف رائے قطعی ممنوع ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے طاقت سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے، سترہویں صدی میں فرانس کے کیتھولیکیوں نے پروٹسٹنٹوں کے ساتھ یہی کیا اور یہی کچھ انہوں نے ان مفکرین اور علماء کے ساتھ کیا جنہوں نے بنیاد پرستی کے تنگ قید خانے سے نکل کر آزادی سے سوچنا چاہا (معارک التنویریین والاصولیین فی اوروبا، صفحہ 123)، اس معنی میں بنیاد پرستی قید خانہ یا آہنی قفص ہے، بنیاد پرستی کا خیال ہے کہ صرف اسی کے پاس مطلق حقیقت موجود ہے، کیتھولیک بنیاد پرست خود کو اکلوتے سچے دین کے ماننے والے سمجھتے تھے اور اس کے علاوہ ہر چیز کو زندقہ قرار دیتے تھے۔

تاہم مصر کے عالمی شہرت یافتہ فلسفی مراد وہبہ کی بنیاد پرستی کے حوالے سے ایک الگ رائے ہے، اپنی کتاب الاصولیہ والعلمانیہ میں وہ اس بنیادی اور اہم حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ: تاریخ مستقبل سے حرکت پذیر ہوتی ہے ماضی سے نہیں، وہ اس مطلق حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو بنیاد پرست فکر کی اساس ہے اور جو لبرل اور سیکولر طبقہ کی ہمہ وقت تنقید کی زد میں رہتی ہے جو نسبتی حقائق کے مقابلے میں مطلق حقائق کو تسلیم نہیں کرتے، تاہم مراد وہبہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ انسان اپنے آغاز سے ہی مطلق حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے کیونکہ انسانی عقل اپنی فطرت میں انسانی معرفت کی یکجائی کا رجحان رکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انسان معرفت کے تمام میدانوں میں گھومتا رہتا ہے، عقل کا توحید کی طرف جھکاؤ بیک وقت مطلق کی طرف جھکاؤ ہے، انسان مطلق حقیقت کی تلاش اس لیے کرتا ہے کیونکہ اس مجہول کائنات میں اسے احساسِ تحفظ حاصل نہیں ہے (الاصولیہ والعلمانیہ صفحہ 13) اور شاید اس مجہول کائنات میں احساسِ تحفظ کے فقدان کو ان وجوہات میں شامل کیا جاسکتا ہے جو بنیاد پرستی کو لوگوں کے اس سادہ لوح طبقہ میں پھیلانے کی وجہ بنتی ہے جو ہمیشہ مجہول سے خائف اور تاویل سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ تاویل میں اجماع نہیں ہے اور نا ہی مؤول (تاویل کرنے والے) کی تکفیر کی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے جب ابی حامد الغزالی نے اسلامی فلاسفہ جیسے فارابی، ابن سینا ودیگر کی تکفیر کی تو ابن رشد نے ان پر جوابی حملہ کرتے ہوئے انہیں بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔

بیس صدیاں پہلے پروٹاگورس (Protagoras) نے کہا تھا کہ: انسان تمام چیزوں کا پیمانہ ہے (Man is the measure of all things) جس کا مطلب ہے کہ انسان کے لیے حقیقت نسبتی ہے، سقراط سمجھتا تھا کہ اس کی حکمت یہ بات جاننے میں پنہاں ہے کہ وہ جاہل ہے جبکہ دوسرے جاہل ہیں مگر علم کے دعوے دار ہیں۔

بنیاد پرستی کے عام معانی پیش کیے بغیر جو اب عام قارئین کے لیے خاصے جانے پہچانے ہیں اور بہت سے محققین ومفکرین انہیں اپنی تصانیف میں بار بار دہراتے بھی رہتے ہیں۔۔ میں بیسویں صدی کے آغاز کی بنیاد پرستی کے نقوش کی بات کروں گا جیسا کہ مراد وہبہ نے انہیں پیش کیا ہے اور جنہیں یہ شکل اختیار کرنے میں تقریباً بیس صدیاں لگی ہیں:

1- مختلف مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس حل یا ایجنڈا موجود ہے۔

2- ناکامی کی وجہ ہمیشہ اغیار کی سازش ہوتی ہے ناکہ بنیاد پرستی کی تنگ نظری اس کی وجہ ہوتی ہے۔

3- سیاسی اور سرمایہ دارانہ ادارے وطن پرست نہیں ہوسکتے۔

4- بنیادی اصولوں سے دستبرداری نا ممکن ہے کیونکہ کسی بھی طرح کی دستبرداری حق کے ساتھ خیانت ہے۔

5- کسی بھی مذہبی متن کی کوئی تاویل قابلِ قبول نہیں۔

بنیاد پرستی اور غربت کا آپسی تعلق

ہاشم صالح اوپر مذکورہ اپنی کتاب (معارک التنویریین والاصولیین فی اوروبا) میں کہتے ہیں کہ: ہم بنیاد پرستی اور غریب ونازک اقتصادی نظام کے ما بین تعلق کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو وسطی زمانوں میں یورپ میں رائج تھا (صفحہ 125) تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ بعینہ یہی صورتِ حال اسلامی دنیا میں بھی تھی (یا اب بھی ہے) مگر ہاشم صالح اس پر کوئی بات نہیں کرتے، بنیاد پرستی اور غربت کا جو آپس میں تعلق ہے انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس کا موازنہ آج کی اسلامی دنیا کی اقتصادی صورتِ حال سے کرتے جو بنیاد پرستی کے پھیلاؤ کی ایک بنیادی وجہ ہے تاہم وہ یہ موازنہ کیے بغیر آگے بڑھتے ہوئے کہتے ہیں کہ: بنیاد پرستانہ عقیدہ اس دور میں رائج اقتصادی حالات سے ہم آہنگ تھا اور اسی نے اجتماعی سوچ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، بھوک نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ایسے زاہدانہ مذہب سے چمٹے رہیں جو ان کی زاہدانہ زندگی سے میل کھاتا تھا۔

یہاں نوٹ کرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ فرانس کا مشہوری پادری جین مسلیئر (Jean Meslier) جو فرانس میں مسیحی بنیاد پرستی کی قیادت کرتا تھا جب مرا تو اتنی دولت چھوڑ گیا جو اس کی موت کے بعد ہی سامنے آسکی!

اسلامی دنیا میں بھی اس پادری جیسی مثالوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے اسلام کو استعمال کرتے ہیں، اور ایک لمبے عرصہ بعد پتہ چلتا ہے کہ جن عظیم قدروں کا وہ ساری زندگی پرچار کرتے رہے تھے وہ خود ان پر پورا نہیں اترتے۔

تو کیا اسلامی دنیا میں پھیلی بنیاد پرستی حل ہے یا مسئلہ؟

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مذہبی بنیاد پرستی غربت ختم کرنا تو دور کی بات ہے اسے کم کرنے کی اہل بھی ہے یا نہیں، اور میرا خیال ہے کہ مصر میں ہم اس کا ایک ڈیمو دیکھ بھی چکے ہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/mutual-relationship-poverty-fundamentalism-islamic/d/13711

 

Loading..

Loading..